انٹرنیٹ ہماری زندگی کا جزوِ لازم بن چکا ہے۔ بہت سے افراد سائبر سپیس کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب چونکہ تمام معاملات انٹرنیٹ سے جُڑچکے ہیں اس لیے اس عظیم ایجاد کو زندگی سے نکالنا یا دور رکھنا ناممکن ہوچکا ہے۔ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔ کوئی بھی ایجاد اس لیے نہیں ہوتی کہ اُسے قبول نہ کیا جائے یا اس حد تک قبول کیا جائے کہ سبھی کچھ داؤ پر لگ جائے۔ ہر ایجاد ہماری زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہوتی ہے۔ اُس کے استعمال کے معاملے میں توازن کا ہمیں خیال رکھنا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو پائے تو آسانیوں کے بجائے مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور ہم اُس ایجاد ہی کو رونے لگتے ہیں۔ سوال انٹرنیٹ سے نجات پانے کا نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہم آہنگ رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا ہے۔ کسی بھی ایجاد کے معاملے میں جو غیر متوازن رویہ ہر دور کے انسان نے اپنایا ہے بالکل ویسا ہی رویہ ہم نے بھی انٹرنیٹ کے حوالے سے اپنایا ہوا ہے۔ ہم دن رات صرف اس فکر میں مبتلا رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور انٹرنیٹ کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے ذریعے اپنی زندگی کا خلا پُر کریں۔ یہ خلا پتا نہیں کتنا بڑا ہے کہ پُر ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا اور زندگیاں اس میں کھپ رہی ہیں۔
ہمارے معاشی اور معاشرتی دونوں ہی معاملات چونکہ انٹرنیٹ سے منسلک ہیں اس لیے اس کے مؤثر استعمال سے باخبر ہونے کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ دنیا بھر میں ماہرین انٹرنیٹ کے اچھے اور بُرے اثرات کے حوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں اور لوگوں کو بہتر انداز سے جینے کے قابل بنانے میں مدد دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ویسے تو سبھی کو بہت کچھ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے؛ تاہم والدین کو زیادہ حساس ہونا چاہیے کیونکہ اُنہیں بچوں کی تربیت کا دھیان رکھنا ہے۔ آن لائن کلچر نے بچوں کی ذہنی بالیدگی کا معاملہ بگاڑ دیا ہے۔ دنیا بھر میں محققین اب والدین پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طور اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچوں کو سائبر سپیس میں سانس لینے کا موقع اُس وقت ملے جب وہ بچپن کی معصومیت اور حسن سے تھوڑا بہت دل بہلالیں۔ قدرت کا طے کردہ نظام یہ ہے کہ زندگی میں سب کچھ اپنے وقت پر آئے یا ہو مگر آج کے انسان نے اس کا خیال رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ انٹرنیٹ تو ہماری زندگی میں کم و بیش تین عشروں سے ہے۔ اب معاملہ بہت زیادہ اس لیے الجھا ہوا ہے کہ ایک عشرے سے سوشل میڈیا نے زندگی کے ہر معاملے اور ہر پہلو کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں سوشل میڈیا لَت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ کم و بیش ہر معاشرے میں سوشل میڈیا کے ''دَھتّی‘‘ افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا کے آنے سے انسان خاص غیر معاشرتی ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگوں کو معاشرت سکھانے کے دعوے کے ساتھ پیش کیے جانے والے آن لائن سافٹ ویئرز اور پورٹلز ہی اُنہیں غیر معاشرتی حیوان میں تبدیل کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ معاملہ صرف سوشل میڈیا اور پختہ عمر کے افراد تک محدود نہیں۔ نئی نسل سوشل میڈیا کی کچھ زیادہ ہی عادی ہوکر رہ گئی ہے۔ اِس کے نتیجے میں ایک طرف تعلیم کا حرج ہو رہا ہے اور دوسری طرف معاشرتی معاملات بھی بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ سارا نقصان عملی زندگی کے لیے تیار ہونے میں مشکلات کی صورت میں مزید بگاڑ پیدا کر رہا ہے۔ نئی نسل کو جو وقت مستقبل کی بہتر تیاری پر صرف کرنا ہے وہ سوشل میڈیا کی نذر ہو رہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اوور انفارمیشن کا ذریعہ ثابت ہو رہی ہے۔
آج دنیا بھر میں نوجوانوں اور بچوں کے حوالے سے ایک بنیادی مسئلہ سکرین ٹائم کا ہے۔ سکرین ٹائم سے مراد وہ وقت ہے جو بچے اور نوجوان کسی بھی ڈیوائس کی سکرین کی نذر کرتے ہیں۔ موبائل فون، لیپ ٹاپ، ڈیسک ٹاپ، ٹیبلٹ اور ٹی وی کی سکرین کی نذر ہونے والے وقت کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ آج ہر ملک میں کم و بیش پچاس فیصد افراد کسی نہ کسی شکل میں سکرین کے غلام ہوکر رہ گئے ہیں۔ سکرین کو دیا جانے والا وقت بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں سکرین کو دیا جانے والا وقت قومی نقصان کے کھاتے میں ہے کیونکہ اِن ممالک کی نئی نسل سکرین کی غلامی اختیار کرکے اپنی صلاحیت و سکت کو زنگ لگاتی رہتی ہے اور مائل بہ عمل رہتے ہوئے ڈھنگ سے زندگی کی ابتدا کرنے کا مرحلہ ضائع ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں والدین کو یہ فکر لاحق ہے کہ نئی نسل کو سکرین کی غلامی سے کیونکر بچایا جائے۔ سمارٹ فون نے معاملات کو عجیب و غریب انداز سے اور خطرناک حد تک بگاڑ دیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں زندگی ہی الجھ کر رہ گئی ہے۔ جن کی عملی زندگی ابھی شروع ہی نہیں ہوئی وہ اگر سکرین کے غلام ہوکر رہ جائیں تو؟ سمجھ لیجیے والدین کی ساری محنت اکارت گئی۔
ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ شیر خوار بچوں کو بھی سکرین کا عادی بنایا جارہا ہے۔ بیشتر معاملات میں یہ غیر محسوس یا لاشعوری طور پر ہوتا ہے۔ چند برس پہلے تک ٹی وی کی سکرین بچوں کو بہلانے کا کام کیا کرتی تھی۔ اب اگر والدین چاہتے ہیں کہ بچے چُپ رہیں تو اُنہیں سمارٹ فون پکڑا دیتے ہیں۔ کارٹون یا گیم دیکھنے میں بچے ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ اُنہیں ڈھنگ سے سانس لینا بھی یاد نہیں رہتا۔ اگر والدین متوجہ نہ ہوں تو سال بھر کے بچے بھی سکرین کے عادی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک معاملہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ شیر خوار بچے اگر موبائل فون‘ لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر سکرین کے عادی ہوجائیں تو اُن کے ذہن کا فروغ رُک جاتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اُن کی ذہن میں وہ سب کچھ داخل ہونے لگتا ہے جو کم و بیش پانچ سے سات سال کی عمر میں داخل ہونا چاہیے تھا۔ کسی بھی بچے پر اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں ہوسکتا کہ اُس کے ذہن کا فروغ غیر ضروری تیزی اور وقت سے پہلے کی پختگی کی نذر ہو جائے۔ جو کچھ بھی قدرت نے طے کردیا ہے اُس سے ہٹ کر کیا جانے والا ہر کام انسان کو خرابیوں کے گڑھے میں دھکیلتا ہے۔ عمر کے جس مرحلے میں ذہن کو جس حد تک فروغ ملنا چاہیے بس اُسی حد تک فروغ ملنا چاہیے۔ اگر اس معاملے میں اونچ نیچ ہو جائے تو بہت کچھ بگڑ جاتا ہے۔
انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے ماہرین غیر معمولی احتیاط برتنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کئی حوالوں سے کی جانے والی تحقیق سے یہ بات اب پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اگر سوشل میڈیا کا عادی رہتے ہوئے جیا جائے تو زندگی کے کئی پہلو تشنہ یا ادھورے رہ جاتے ہیں اور یوں شخصیت کے پنپنے کا عمل بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ نئی نسل کے لیے یہ مسئلہ بالعموم اور بچوں کے لیے بالخصوص بہت سنگین ہے۔ بچوں کا المیہ یہ ہے کہ اُن کی معصومیت پر ڈاکا پڑچکا ہے۔ جس عمر میں اُنہیں دنیا کو حیرت سے دیکھنا ہوتا ہے، ہر معاملے سے لطف کشید کرنا ہوتا ہے اُس عمر میں اُنہیں پختہ عمر کے معاملات سے رُو شناس کرادیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ بہت کچھ خوا مخواہ جان لیتے ہیں اور ذہن بھرتا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اُن کے لیے زندگی بھر کا عذاب بن جاتا ہے۔ زمانہ ایسا ہے کہ بچوں کو کچھ مدت کے بعد انٹرنیٹ کی مدد سے رابطوں کا عادی ہو ہی جانا ہے مگر اچھا ہے کہ ابتدائی چار پانچ برس قدرے سادہ گزریں تاکہ وہ زندگی کی حقیقی رنگینیوں سے تھوڑے بہت تو آشنا ہوں، کچھ تو لطف کشید کریں۔
سکرین ٹائم ہر انسان کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ہم خاصی بڑی عمر میں بھی اگر اس کے عادی ہوجائیں تو زندگی کا توازن ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ لازم ہے کہ معاملات کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کی جائے، وقت کے تقاضوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے زندگی بسر کی جائے تاکہ کسی بھی معاملے میں غیر ضروری خرابی ہمارا ''خیرمقدم‘‘ نہ کرے۔ انٹرنیٹ کے موثر استعمال کے حوالے سے جس ذہنی تربیت کی ضرورت ہے وہ ہمارے ہاں اب تک دکھائی نہیں دی۔ یہ کام سب کو انفرادی سطح پر کرنا ہے یعنی آن لائن کلچر سے مؤثر طور پر مستفید ہونا سیکھنا ہے۔