وقت کی رفتار نہیں بدلتی۔ دنیا کی رفتار کے بدلنے سے ہمیں وقت بھی اپنی رفتار بدلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں ہر طرف ایسا بہت کچھ ہے جو ہمارے انہماک کو لایعنی باتوں کی قبر میں دفنانے پر تُلا رہتا ہے۔ ایک طرف تو اپنے آپ کو کام کے لیے آمادہ کرنے کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف یہ مصیبت ہے کہ کچھ کرنے کی ٹھان لیجیے تو سمجھ میں نہیں آتا کریں کیسے۔ مالی وسائل کی کمی پر قابو پانے میں کامیابی حاصل ہو بھی جائے تو بھی بہت سی نادیدہ الجھنیں ذہن سے چمٹی رہتی ہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، بات بات پر ایسے معاملات سامنے آتے رہتے ہیں جن سے زندگی کا توازن بگڑتا چلا جاتا ہے۔ تو کیا ہمت ہار کر ایک طرف بیٹھ رہنے کا آپشن اپنایا جائے؟ یقینا نہیں۔ جو کچھ کرنا ہر صورت ناگزیر ہے وہ کرنا ہی پڑے گا۔ ہاں‘ کس طور کرنا ہے یہ طے کرنا ہمارا کام ہے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر بہت کچھ طلب کرتی ہے۔ زندگی کا سب سے بڑا تقاضا ہے انہماک اور یکسوئی۔ ہم جب تک انہماک یقینی نہ بنائیں تب تک کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ یہ زندگی بھر کی تگ و دَو کا معاملہ ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایک بار جو کچھ طے کرلیا ہے وہ زندگی بھر کام آتا رہے گا تو وہ خیالی دنیا میں رہتا ہے۔ حقیقت کی دنیا پل پل بدلتی رہتی ہے۔ جب دنیا بدل رہی ہے تو آپ کو بھی بدلنا ہی ہوگا۔
انسان کا ایک بنیادی مسئلہ اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کرنا ہے۔ ٹال مٹول کم و بیش ہر انسان کے اندر پائی جانے والی خاصیت ہے۔ ہاں‘ جو لوگ پُرعزم ہوں، تربیت کے ذریعے ڈھنگ سے جینا سیکھ چکے ہوں اُن میں ٹال مٹول برائے نام رہ جاتی ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ موقع ملتے ہی یا گنجائش پیدا ہوتے ہی ٹال مٹول کی طرف چل دیتے ہیں۔ آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو ٹال مٹول کے لیے موقع یا گنجائش کا انتظار کرنا مناسب نہیں جانتے! زندگی سے پیار کرنے والے عمل سے بھی پیار کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عمل ہی سے سب کچھ ہے۔ ٹال مٹول سے کام لینا دراصل عمل سے دوری اختیار کرنا ہے۔ کسی معاملے میں تھوڑا سا انتظار کرکے معاملات کے درست ہونے کا انتظار کرنا حکمتِ عملی کا حصہ ہوتا ہے۔ اِسے ٹال مٹول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا آپ ٹال مٹول کا شکار ہیں۔ کیا آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ بسا اوقات آپ اپنا کوئی کام چھوڑ کر کچھ اور کرنے لگتے ہیں یا یوں کہیے کہ محض تفریحِ طبع کی خاطر کچھ اور کرکے اپنے حقیقی کام کو یونہی رہنے دیتے ہیں؟ اگر ایسا کچھ ہے تو زیادہ پریشان ہونے‘ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ صرف آپ کا نہیں‘ کروڑوں انسانوں کا معاملہ ہے۔ ہر معاشرے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کام کرنے کی شدید خواہش کے حامل ہونے پر بھی زیادہ کام نہیں کرتے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کام سے بھاگتے ہیں بلکہ معاملہ یہ ہے کہ اُن کی اکثریت کام کے لیے خود کو تیار کرنے کے مفہوم سے آشنا نہیں۔ ایک حقیقت سے اچھی طرح آشنا ہو جائیے‘ کہ فی زمانہ کام کا بوجھ اِس نوعیت کا ہے کہ ذہن پر دباؤ بنا رہتا ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، کام کا بوجھ اور ڈیڈ لائن کے مطابق کام مکمل کرنے کا دباؤ ذہن کے لیے الجھن پیدا کرتا رہتا ہے۔ ایسے میں بہت سوں کو لگتا ہے کہ کام کچھ دیر کے لیے روک دینے سے معاملات کچھ بہتر ہوجائیں گے۔ یہ سوچ یکسر بے بنیاد اور لاحاصل ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ جو لوگ ٹال مٹول کا شکار ہیں وہ دراصل اپنے آپ کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ اس خوف کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنا کام ڈیڈ لائن کے مطابق تو مکمل کرلیں گے تاہم توقعات پر پورے نہیں اتر سکیں گے۔ اس خوف سے اُن کی صلاحیتیں دب کر رہ جاتی ہیں اور وہ اپنی سکت کا درست اندازہ لگانے کی صفت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اگر انسان میں اضطراب زیادہ ہو یعنی ذہن مضطرب رہنے کا عادی ہوچکا ہو تو ہوتا کام بھی نہیں ہو پاتا۔ طلبہ کے معاملے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ امتحان کی تیاری کے دنوں میں وہ اپنے اضطراب پر قابو پانے میں ناکامی کی صورت میں بھرپور تیاری نہیں کرپاتے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ شدید اضطراب کے باعث وہ ٹال مٹول کے عادی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر ڈیڈ لائن سر پر سوار کرلی جائے تو کام میں من نہیں لگتا اور انسان اِدھر اُدھر دیکھنے میں وقت ضائع کرتا رہتا ہے۔ بہت سوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ماہرین کے درجے میں رکھتے ہیں یعنی اُنہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ جب تھوڑا سا وقت رہ جائے گا تب بھرپور تیاری کرلیں گے یا کام مکمل کر لیں گے۔ ایسے لوگ ڈیڈ لائن کو ذہن پر سوار نہیں کرتے مگر دوسری طرف کام کے معاملے میں سنجیدہ بھی نہیں ہوتے۔ یوں ڈیڈ لائن سر پر آجاتی ہے تب اُنہیں اندازہ ہوتا ہے کہ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا
کام کو حواس پر سوار کرنا اور بات ہے اور کام کو سِرے سے کچھ نہ سمجھنا بالکل الگ ذہنیت۔ دونوں ہی صورتوں میں انسان الجھن کا شکار رہتا ہے۔ اگر کام کے معاملے میں سنجیدہ روش اختیار نہ کی جائے تو معاملہ بالآخر بگڑ جاتا ہے۔ اگر سنجیدہ ہوتے ہوئے بدحواسی کا مظاہرہ کیا جائے تو بھی کام بگڑتا ہے۔ ہمیں اِن دونوں کے بیچوں بیچ کوئی طریقہ اختیار کرنا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ٹال مٹول سے ہر معاملے میں اور ہر وقت الجھن ہی کا سامان ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی کام تھوڑی دیر کے لیے موقوف رکھ کر اُس کے ممکنہ عواقب یا نتائج کے بارے میں بھی سوچنا ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں کام کو تھوڑا سا ٹالنا ہمارے حق میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی بڑا کام ہماری ذمہ داریوں کا حصہ ہو تو اُس کے لیے مطلوب مہارت کا حصول یقینی بنانا بھی ہماری بنیادی ذمہ دایوں میں شامل ہوا کرتا ہے۔ ایسے میں کام کو تھوڑی دیر کے لیے موقوف رکھ کر مطلوبہ مہارت حاصل کرنے پر متوجہ ہونا خاصا سُودمند ثابت ہوتا ہے۔ بہر کیف‘ اِس معاملے میں بھی تحمل اور ذہانت دونوں ہی کی ضرورت پڑتی ہے۔ دنیا کی نظر میں بُرا سمجھے جانے والا کوئی بھی کام اگر ڈھنگ سے کیا جائے تو اُس سے کچھ نہ کچھ بہتری بھی پیدا ہوتی ہے۔ اِس کے لیے ٹائمنگ اور دورانیے کی بہت اہمیت ہے۔
کام کو ٹالتے رہنا عالمگیر سطح پر پایا جانے والا ذہنی عارضہ ہے۔ کسی ڈاکٹر کے پاس اِس کا کوئی علاج نہیں یعنی یہ کسی دوا سے دور ہونے والا عارضہ نہیں۔ یہ تو خالص نفسی ساخت کا مسئلہ ہے۔ ٹال مٹول سے لینے کی ذہنیت سے چھٹکارا پانے کے لیے ذہن کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے مشاورت سے کہیں زیادہ اہمیت اپنے گریبان میں جھانکنے کی ہے۔ انسان اگر یومیہ بنیاد پر کچھ دیر کے لیے الگ تھلگ بیٹھ کر سوچ بچار کرنے کا عادی ہو تو اپنے لیے بہتر راہ کا انتخاب کرسکتا ہے۔ مختلف شعبوں کے کامیاب ترین افراد کے حالاتِ زندگی اور معمولات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے بہت سا کام محض اس لیے کرلیا کہ ٹال مٹول کی عادت پر قابو پایا اور ہر کام کو اُس وقت کیا جب اُسے کرنا ناگزیر تھا۔ کرسچیانو رونالڈو کی مثال بہت نمایاں ہے۔ اُس کے والد شراب کے عادی تھے۔ رونالڈو کا بچپن گلی کوچوں میں شدید پریشانی کے عالم میں گزرا مگر اُس نے ہمت نہ ہاری اور وقت ضائع کرنے کو کبھی ترجیح نہیں دی۔ دیکھ لیجیے‘ مستقل مزاجی نے اُسے کہاں پہنچایا ہے۔
انسان کچھ بھی کرسکتا ہے۔ یہی مسئلہ ہے۔ ہمیں اپنی ناکامی کے لیے صرف وجوہ تلاش کرنا ہوتی ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ ہماری ناکامی کی بنیادی وجہ ہے وقت کا ضیاع۔ انسان اِس نکتے کو سیکھنے میں ایک عمر لگادیتا ہے کہ ہم وقت پر کبھی تصرّف نہیں پاسکتے۔ ٹال مٹول کا سب سے بڑا نقصان وقت کے ضیاع کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ محنت کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں برآمد ہو تو اِسے وقت کا ضیاع نہیں کہا جا سکتا۔