معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے گفتگو ہو رہی ہو تو ہر شخص اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈال رہا ہوتا ہے۔ دلائل دینے ہوں تو ایسے دلائل دیے جاتے ہیں کہ سننے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ کسی کو غلط ثابت کرنا ہو تو بہت دور کی کوڑیاں لائی جاتی ہیں اور سننے والوں کے لیے سرِتسلیم خم کرنے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ ہاں‘ جب عمل کی بات آجائے تو خاموشی چھا جاتی ہے۔ ہر محفل اُس وقت سناٹے کی زد میں آجاتی ہے جب سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ دوسروں کو فرائض یاد دلانے ہوں تو آگے بڑھ کر جو کچھ بھی کہنا ہو کہیے اور اپنے حصے کے کام کی بات ہو تو کتراکر گزر جائیے۔ بات زبانی جمع خرچ تک محدود رہتی ہے۔ یہ زبانی جمع خرچ کا سلسلہ کب ختم ہوگا؟ ہم اپنی ذمہ داری محسوس کرنے والے کب بنیں گے؟ دوسروں کو آئینہ دکھانے کی روش پر چلنا کب تک جاری رہے گا اور اپنے گریبان میں جھانکنے کا چلن کب عام ہوگا؟
بات تربیت سے شروع ہوکر تربیت پر ختم ہوتی ہے۔ اچھے گھرانوں میں اس بات کا اہتمام کیا جاتا تھا کہ بچہ سیکھ لے کہ اُسے کسی کے لیے کیا کرنا ہے۔ یہ سوال بہت بعد میں اُٹھتا تھا کہ کوئی اُس کے لیے کیا کرتا ہے۔ پہلے مرحلے میں بچے کو بتایا جاتا تھا کہ اگر اُسے معیاری انداز سے جینا ہے تو دوسروں کے کام آنا پڑے گا۔ دوسروں کے کام آنے کا مطلب خدائی خدمت گار بن جانا نہیں بلکہ جہاں اپنا کردار ادا کرنا لازم ہو وہاں ایسا کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔ اب ذرا سی توجہ کے ساتھ اس حقیقت پر غور کیجیے کہ جن گھرانوں نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی تھی وہ آج کہاں ہیں۔ ایسے گھرانوں کے بچے معاشرے میں نمایاں ہوتے ہیں یا نہیں؟ آپ غور کیجیے گا تو اِسی نتیجے تک پہنچئے گا کہ جن گھرانوں نے اپنے بچوں کو معیاری انداز سے تربیت دی تھی وہ پروفیشنل اور معاشرتی زندگی میں نمایاں رہے ہیں اور اُن سے فیض یاب ہونے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ ایسے لوگ خوش رہتے ہیں اور خوش رکھتے ہیں۔ اِن سے لوگوں کو کچھ نہ کچھ ملتا ہی ہے۔ والدین اور خاندان کے بزرگوں کی دی ہوئی تربیت بچوں کو معاشرے کے لیے مفید شہری بناتی ہے۔ جب بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ اُنہیں اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ دوسروں کے مفادات کا بھی خیال رکھنا ہے تو وہ ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ معاشرے پر والدین کا اِس سے بڑا احسان کوئی نہیں۔
آج ہمارا معاشرہ وہاں کھڑا ہے جہاں کسی کو اس بات کا قائل کرنا پہاڑ سرکرنے جیسا ہے کہ دوسروں کے بارے میں زیادہ سوچے بغیر اور اُن کے معاملات پر بہت غور کیے بغیر اپنے حصے کا کام کرتے رہنا ہے۔ اِسی طور زندگی سہل ہوتی جاتی ہے۔ گلی کی صفائی ہی کا معاملہ لیجیے۔ لوگ گھر بھر کا کوڑا کرکٹ سمیٹ کر گلی میں پھینک دیتے ہیں۔ گلی کی صفائی کو اولیت نہیں دی جاتی۔ بات بہت عجیب ہے کیونکہ گھر میں صفائی ہو تو طبیعت کِھلی کِھلی رہتی ہے مگر گلی میں پڑی ہوئی گند کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ کیا انسان گلی سے گزرے بغیر گھر میں داخل ہوسکتا ہے؟ اور کیا گلی میں پڑے ہوئے کچرے کے تعفن سے جان چھڑا سکتا ہے؟ یہ تو ممکن ہی نہیں! اگر گلی میں بدبو ہوگی تو گھر میں بھی آئے گی۔ اگر کوئی گلی کی بدبو سے بچنے کے لیے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کرلے تو؟ گھر میں حبس پیدا ہوگا۔ زندگی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو بند کرتے چلے جائیں تو زندگی محبوس ہوتی چلی جاتی ہے۔ معاشرے میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہر طبقے اور ماحول میں انسان کو ایسے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے جو اُس کے وارے کے نہیں ہوتے۔ اگر کوئی پسند نہ ہو تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس سے ربط ہی ختم کردیا جائے۔ جینے کا یہ ڈھنگ کسی بھی طور مناسب نہیں۔ اچھی تربیت انسان کو سکھاتی ہے کہ کسی بھی ناپسندیدہ انسان سے کس طور ربط رکھا جاسکتا ہے، کس طور اُسے کچھ اچھا کرنے کی تحریک دی جاسکتی ہے۔ جس سے مزاج نہ ملتا ہو اُس سے مکمل طور پر کنارہ کش ہو جانے کی روش عام ہے۔ بعض انتہائی نوعیت کے معاملات میں تو یہ درست ہے مگر ہر معاملے میں ایسا کرنا کسی بھی اعتبار سے مثالی طرزِ فکر و عمل کا مظہر نہیں۔
جب کوئی انسان معاملات کو درست کرنے کے لیے میدان میں آتا ہے، اپنے حصے کا کام کرتا ہے تو دراصل یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ محض باتیں بنانے اور بگھارنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ اگر معاملات کو درست کرنا ہے تو اپنے وجود کو عمل کی کسوٹی پر کھرا ثابت کرنا پڑے گا۔ یہ مشکل مرحلہ ہے۔ لوگ عمل سے بھاگتے ہیں۔ کوئی بھی شخص معاشرے کے لیے کتنا مفید ثابت ہوسکتا ہے اِس کا مدار اصلاً صرف اِس بات پر ہے کہ اُس کی تربیت کس نہج پر کی گئی ہے، وہ کس طرزِ فکر و عمل کا حامل ہے، خاندان نے اپنا کردار کس حد تک ادا کیا ہے۔ ہر انسان اپنے خاندان کے مجموعی ماحول کا عکاس ہوتا ہے۔ والدین اور خاندان کے بزرگوں نے جو کچھ دیا ہوتا ہے وہ انسان کی طرزِ فکر و عمل سے جھلکتا ہے۔ کسی بھی معاملے کی درستی کے لیے اپنے وجود کو مقدم رکھنا یعنی اپنی ذمہ داری پہلے محسوس کرتے ہوئے اپنے حصے کا کام کرنا ہی بہترین تربیت کی نمایاں ترین علامت ہے۔ اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ یہ دنیا اُنہی لوگوں کے دم سے چل رہی ہے جو اپنے مفاد کو ہر شے پر مقدم نہیں رکھتے بلکہ ماحول میں رونما ہونے والی خرابیوں کو دور کرنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کو بنیادی ذمہ داری سمجھتے ہوئے قدم بڑھاتے ہیں اور دوسروں کے لیے مثال بنتے ہیں۔
یہ جملہ اب ہمیں مستقل بنیاد پر اور بہت سے مواقع پر سنائی دیتا ہے کہ سب خود غرض ہوگئے ہیں۔ ایسا کب نہیں تھا؟ ہر انسان میں خود غرضی ہوتی ہے۔ انفرادی سطح کی ہر بڑی کامیابی اُسی وقت ممکن ہو پاتی ہے جب انسان اپنی غرض کو پہلے نمبر پر رکھتا ہے۔ یہاں تک تو خود غرضی بُری بات نہیں کیونکہ اِس کے بغیر بھرپور کامیابی کے لیے سنجیدہ ہونا ممکن نہیں۔ مگر ہاں‘ خود غرضی کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے، ایک حد تک رکھنا پڑتا ہے۔ انسان کو اپنی غرض کا بھی بندہ ہونا چاہیے مگر اِس قدر نہیں کہ دوسروں کے بارے میں سوچنے کی توفیق ہی نصیب نہ ہو۔ عمومی سطح پر ہوتا یہ ہے کہ لوگ دوسروں سے تو یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بہت کچھ کریں گے مگر اپنے کردار کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ اُن پر تو کوئی ذمہ داری عائد ہی نہیں ہوتی۔ تمام خرابیاں اُسی وقت پیدا ہوتی ہیں کہ جب لوگ دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں اور اپنے حصے کا کام کرنے سے گریز کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ بھلائی کا کام گھر سے شروع ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں کوئی بھی مثبت تبدیلی لانا ہے تو آپ کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے چلنا پڑے گا۔ دوسروں کو اُن کی ذمہ داری کا احساس دلاکر آپ اپنے حصے کا کام کرنے سے کترائیں گے تو بات بنے گی نہیں۔
آج ہم معاشرے کی حیثیت سے بند گلی میں کھڑے ہیں۔ پاکستان کا مجموعی ماحول چند ایک اچھائیوں کے باوجود بہت سی خرابیوں سے اَٹا ہوا ہے۔ سوچ میں پائی جانے والی خرابیاں تمام معاملات کو بگاڑ رہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کو جو کچھ ملنا چاہیے وہ نہیں مل رہا۔ اب ہر چیز کاروباری نقطۂ نظر کی حامل ہے تو پھر ابلاغیات کا شعبہ اس سوچ سے کیونکر بچ سکتا ہے؟ ہر معاملہ چونکہ خالص کاروباری سوچ کے ساتھ چلایا جارہا ہے اِس لیے اصلاحی سوچ مفقود ہے۔ تمام لوگوں کو بالعموم اور نئی نسل کو بالخصوص یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ دوسروں سے متوقع ہے وہ پہلے مرحلے میں خود کرکے دکھانا ہے۔ ظلمتِ شب کا شکوہ کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے حصے کا چراغ جلا کر روشنی کرنے کی سعی کی جائے۔ اپنے حصے کا کام کرنے کی سوچ پروان چڑھے گی تو ہی کچھ بہتری کی راہ ہموار ہو گی۔