"MIK" (space) message & send to 7575

صرف اپنے کام کے ہو جائیے

انسان کو سب سے زیادہ کس سے محبت ہونی چاہیے؟ اپنی ذات سے‘ والدین سے‘ بھائیوں بہنوں سے‘ دوستوں سے‘ معاشرے میں موجود دیگر افراد یعنی اہلِ وطن سے یا پوری انسانیت سے؟ اس سوال کا معقول ترین جواب یہ ہوسکتا ہے کہ انسان کو سب سے محبت ہونی چاہیے۔ کسی ایک پر پوری محبت نچھاور کردینے سے معاملات عدم توازن کی طرف جاتے ہیں۔ ہاں‘ کسی سے تھوڑی سی زیادہ محبت ضرور کی جاسکتی ہے جیسا کہ والدین کے معاملے میں ہوتا ہے یعنی والدین تمام بچوں سے یکساں درجے میں محبت نہیں کرتے۔ کوئی تھوڑا سا زیادہ پیارا اور لاڈلا ہوتا ہے۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ انسان دوسروں کی چاہت میں اپنے وجود کو نظر انداز کر بیٹھے تو زندگی شدید عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے اور پھر بہت کچھ یوں اُلٹ پَلٹ جاتا ہے کہ درستی دردِ سر بن جاتی ہے۔ ہر انسان کو بہت سوچ سمجھ کر‘ معقول حد تک اعتدال کے ساتھ آگے بڑھنا ہوتا ہے۔
کسی بھی انسان کے لیے زندگی کا سب سے بڑا، بارآور اور بامقصد پہلو معاش ہوتا ہے۔ اگر معاش کا معاملہ رُل جائے تو باقی سب کچھ بھی رُل ہی جاتا ہے۔ جب تک دم میں دم ہے تب تک کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے کیونکہ پیٹ کی آگ نہ بجھ پائے تو بہت کچھ بھسم ہو جاتا ہے۔ بیشتر کے اصولوں اور آدرشوں کا محور محض معاش ہوتا ہے کیونکہ اُن کے نزدیک زندگی صرف کمانے اور خرچ کرنے کا نام ہے۔ کنزیومر اِزم نے ہمیں یہی سکھایا ہے۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ بات کیل کی طرح ٹھونک دی گئی ہے کہ زندگی سر تا سر صرف کمانے دھمانے کے لیے ہے۔ عمومی سطح کا ذہن یہی سوچتا رہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہیے، مصروف رہنا چاہیے، کمانا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ یافت ممکن ہو اور بھرپور خوش حالی قدم چُومے۔ یہ طرزِ فکر انتہا پسندی سے عبارت ہے۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انسان کے لیے دوسرے تمام معاملات سے بڑھ کر اہم ہوتا ہے معاشی اعتبار سے مصروف رہنے کا معاملہ۔ جس عمل سے کچھ ملتا ہے وہ محبوب ہوتا ہے اور ہونا ہی چاہیے۔ مالی حیثیت اچھی ہو تب بھی انسان چاہتا ہے کہ جو کچھ بھی وہ کرتا آیا ہے وہ چلتا رہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بڑے عہدے سے ریٹائر ہونے والے سرکاری افسر کو گریجویٹی کی مد میں اچھی خاصی رقم ملتی ہے اور پنشن بھی معمولی نہیں ہوتی یعنی معاشی سطح پر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا مگر پھر بھی مصروفیت ختم ہو جانے سے بہت کچھ اُلٹ پَلٹ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان اپنے وجود کو کھوکھلا سا محسوس کرنے لگتا ہے۔ بہت سوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ریٹائرمنٹ پر اچھی خاصی رقم ملنے کی صورت میں بھی فارغ بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ سوال معاش کا نہیں‘ معاشرت کا ہے۔ اگر زندگی بھر محنت کی ہو اور اچانک فارغ بیٹھنا پڑے تو ذہن بُری طرح الجھ جاتا ہے۔ اِس نوعیت کی الجھن کم و بیش تمام معاملات کو بُری طرح الجھا دیتی ہے۔ خود کو خالی خالی محسوس کرنے والا انسان اپنے ہی ماحول میں قدرے اجنبی ہوکر رہ جاتا ہے کیونکہ وہ معاملات پر خاطر خواہ حد تک متوجہ نہیں رہ پاتا۔
یہ تو ہوا ریٹائرمنٹ کے بعد کے مرحلے کا قصہ۔ جب کوئی لڑکا عنفوانِ شباب کی منزل میں قدم رکھتا ہے تب اُس کے ذہن میں سب سے بڑا سوال یہ ہوتا ہے کہ زندگی بھر کرنا کیا ہے۔ تب تک یہ بات تو کھل کر سامنے آچکی ہوتی ہے کہ زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ اور یہ نکتہ بھی ذہن نشین ہوچکا ہوتا ہے کہ گھر کا مالی استحکام مثالی نوعیت کا ہو تب بھی کچھ نہ کچھ تو بہرحال کرنا ہی پڑے گا کیونکہ فارغ بیٹھ رہنے والوں کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والوں کا سب سے بڑا مخمصہ یہ ہوتا ہے کہ کرنا کیا چاہیے کیونکہ کرنے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ انتخاب کا مرحلہ ذہن کی چُولیں ہلادیتا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا ع
شعروں کے انتخاب نے رُسوا کیا مجھے
جب امکانات بہت زیادہ ہوں تب ایسا لگتا ہے جیسے کوئی امکان نہیں بچا! یہ ایسی ہی بات ہے کہ کسی تقریب میں درجن بھر کھانے میزوں پر سجے ہوں تو انسان سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ کیا کھائے اور کیا نہ کھائے۔ ایسے میں انسان وہ بھی نہیں کھا پاتا جو وہ کھاسکتا ہے۔ عملی زندگی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب کوئی نوجوان عملی زندگی کا آغاز کر رہا ہوتا ہے تب آپشنز کی بھرمار ذہن کو شدید الجھن سے دوچار کردیتی ہے۔ بیک وقت کئی کام اچھے لگ رہے ہوتے ہیں۔ ایک کسی کام میں زیادہ منفعت دکھائی دیتی ہے تو دوسرے کوئی اور کام زیادہ دلکش نظر آنے لگتا ہے۔ عملی زندگی کو مستحکم اور متوازن رکھنے کے لیے شعبے کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوتا ہے کیونکہ یہ انتخاب ہی پوری زندگی کے رُخ کا تعین کرتا ہے۔
ہر انسان کو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوتا ہے۔ گھر کا چولہا جلتا رکھنے کے لیے معاشی سرگرمی ناگزیر ہے۔ پھر یوں بھی ہے کہ مالی حیثیت غیر معمولی ہو تب بھی انسان کو مصروفیت برقرار رکھنا پڑتی ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ذہن کباڑ خانہ بننے میں دیر نہیں لگاتا۔ ایسے میں سب سے بڑھ کر یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سا کام ایسا ہے جو ہر حال میں دل کو اچھا لگتا رہے گا۔ یہ طے کرنا خاصا دشوار ہوتا ہے کیونکہ جب بہت کچھ اچھا لگ رہا ہو تب حقیقی پسند کا تعین ذہن کو نچوڑ لیتا ہے۔
نئی نسل کیریئر کے لیے شعبہ منتخب کرنے کے مرحلے میں اُلجھ کر رہ جاتی ہے۔ آج کی دنیا چونکہ امکانات کی دنیا ہے اس لیے نئی نسل کو بہت کچھ بہت آسان دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ امکانات چند ہوں یا بہت‘ اُن میں آسان تو کوئی بھی نہیں ہوتا۔ ہر شعبہ انسان کو آزمائش میں ڈالتا ہے۔ کیریئر کے لیے شعبے کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کیا جانا چاہیے کیونکہ جو کچھ بہت اچھا لگ رہا ہوتا ہے وہی کچھ دن بعد بُرا سا لگنے لگتا ہے۔ محض جذباتیت کی بنیاد پر کیا جانے والا انتخاب انسان کو عمل کی آزادی سے محروم کردیتا ہے۔ انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ صرف وہ کام جو بہت پسند ہو۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ کام معاشرے میں پسندیدہ ہو۔ اب ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی یہ کہہ کر منشیات بیچنا شروع کر دے کہ مجھے تو یہ کام بہت اچھا لگتا ہے! یا پسندیدگی کی بنیاد پر جُوا، سَٹہ کھیلتا پھرے۔ معاشرہ جن کاموں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اُن میں سے کوئی بھی کام معاشی سرگرمی کی مد میں کیا جاسکتا ہے۔ ہاں‘ انسان پسند کا کام کرے تو بات کچھ اور ہوتی ہے۔ بہت سے کام بہت دلکش معلوم ہوتے ہیں مگر جب اُن کی طرف بڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ دور کے ڈھول سہانے والا معاملہ ہے۔ انسان کو اپنے لیے کریئر کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ جو کچھ بھی پسند ہے اُس کا بھرپور جائزہ لینا چاہیے۔ کسی بھی نوجوان کو کئی کام پسند ہوسکتے ہیں۔ تمام کام برابری کی بنیاد پر پسند نہیں ہوسکتے۔ جو کام بہت پسند ہو اُسے زندگی بھر کے لیے اپنانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ یہ معاملہ جذباتیت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دنیا بھر میں کیریئر کاؤنسلنگ عام ہے یعنی ماہرین نئی نسل کو معیاری مشوروں سے نوازتے ہیں تاکہ وہ اپنے لیے ایسی راہِ عمل منتخب کریں جو آگے چل کر دل و دماغ پر بوجھ محسوس نہ ہو۔
جب انسان اپنی مرضی کے کام کو کیریئر بناتا ہے تب اُس میں ڈوبتا ہے۔ کوئی کام تھوپ دیا جائے تو ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا۔ شعوری انتخاب انسان کو زیادہ لگن سے کام کرنے کی آسانی فراہم کرتا ہے۔ جو کام اچھا لگتا ہو وہ اگر معاشی سرگرمی میں تبدیل ہو جائے تو انسان اپنی صلاحیت و سکت کو پورے جوش و جذبے کے ساتھ بروئے کار لاتا ہے۔ کامیاب کیریئر کے لیے ایسا ہی ماحول ناگزیر ہوتا ہے۔ آپ نے ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہوگا جو محض جذباتیت کی بنیاد پر کیریئر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر مرتے دم تک بے دِلی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ جو کام بھی کیجیے اُس کے ہو جائیے یعنی وہی کام کیجیے جو آپ کو بہت پسند ہو اور معاشرہ بھی جسے بنظرِ استحسان دیکھتا ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں