اگر آپ نے واقعی طے کرلیا ہے کہ ذہن پر مرتب ہونے والا دباؤ گھٹانا ہے تو ایسا کئی طریقوں سے کیا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں سوچنے سے زیادہ کرنے کی اہمیت ہے۔ دنیا بھر میں ماہرین معاشی اور معاشرتی معاملات کے حوالے سے ذہن پر مرتب ہونے والا دباؤ گھٹانے کے طریقوں پر تحقیق کرتے آئے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگ ذہنی دباؤ محسوس کرتے ہیں اور اُس سے نجات پانے کی طرف مائل بھی ہوتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ذہنی دباؤ کن کن طریقوں سے گھٹایا جاسکتا ہے۔
انکار کرنا سیکھئے۔ جو لوگ ہر معاملے میں گردن ہاں میں ہلاتے ہیں وہ بالآخر بند گلی میں پھنس جاتے ہیں۔ جہاں آپ کی زیادہ ضرورت نہ ہو یا جس معاملے کو آپ اپنے لیے ضروری نہ سمجھتے ہوں اُس کے حوالے سے انکار ہی مناسب رہتا ہے۔ بے جا توقعات بھی آپ کو الجھاتی ہیں اور خوش فہمیاں بھی دردِ سر ثابت ہوتی ہیں۔ بے جا معاملات میں الجھنے سے بچنا جتنا ضروری ہے اُتنا ہی ضروری ہے ضروری معاملات میں مصروف رہنا۔ جن کاموں سے زندگی کا معیار بلند ہوسکتا ہے، کارکردگی بہتر ہوسکتی ہے اور آپ زیادہ بامقصد انداز سے جینے کے قابل ہوسکتے ہیں اُن کے حوالے سے ہاں کہنا سیکھئے۔ جس کام کے کرنے میں جی نہ لگے وہ کرنا ہی نہیں چاہیے۔
کسی کی طرف سے ملنے والی مدد قبول کیجیے۔ زندگی اِسی طور گزرتی ہے۔ ہم کسی کی مدد کرتے ہیں اور کسی سے مدد لیتے ہیں۔ اگر کسی سے مدد مل رہی ہو اور اُس مدد کے ذریعے ہمارے لیے کچھ آسانی پیدا ہو رہی ہو تو مدد لینے میں کوئی قباحت نہیں۔ آپ کسی کی مدد کرکے خوش ہوتے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر دوسرے بھی تو اِس مزاج کے ہوں گے۔ وہ بھی تو کسی کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتے ہوں گے۔ اپنے آپ کو کبھی ناگزیر مت سمجھیے۔ آپ سارے کام تنہا نہیں کرسکتے۔ یہ دنیا اشتراکِ عمل کے ذریعے چلتی آئے گی اور اِسی طور چلتی رہے گی۔ اشتراکِ عمل کا مطلب ہے جہاں الجھن محسوس ہو وہاں کسی سے مدد طلب کرنا تاکہ کام اٹک کر نہ رہ جائے۔ اگر مجموعی طور پر ماحول ایسا ہو کہ کسی سے مدد مل سکتی ہو تو ضرورت محسوس ہونے پر مدد طلب کرنے میں کوئی الجھن محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ پریشانی محسوس ہونے پر کسی سے مدد طلب نہ کرنا ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ میں اضافہ کرتا ہے۔
ہر انسان کے لیے کچھ کام اہم ہوتے ہیں اور کچھ کام زیادہ اہم نہیں ہوتے۔ اگر ترجیحات کا تعین نہ کیا جائے تو غیر اہم کام وقت، توانائی اور وسائل کو ڈکارتے رہتے ہیں۔ جو لوگ ترجیحات متعین کرکے کام کرتے ہیں وہ ذہنی دباؤ سے بہت حد تک دور رہتے ہیں۔ جب بھی کوئی بڑا کام کرنا ہو تو پہلے سُکون سے منصوبہ سازی کیجیے کہ کن کاموں کو آپ ٹال سکتے ہیں، موقوف رکھ سکتے ہیں۔ صرف اُن سرگرمیوں پر متوجہ رہیے جو آپ کے لیے اہم ہوں اور مطلوب نتائج یقینی بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہوں۔ ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ سے نجات پانے کا ایک اچھا طریقہ اختیارات اور ذمہ داریوں کو ڈھنگ سے تقسیم کرنا بھی ہے۔ آج ہی طے کیجیے کہ آپ صرف اُن سرگرمیوں تک محدود رہیں گے جن کے ذریعے آپ کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے اور باقی تمام کام دوسروں کے حوالے کریں گے۔ اختیارات اور ذمہ داریوں کی مؤثر تقسیم کام کے ماحول کو خوشگوار بناتی ہے۔ جب کسی کو ذمہ داری سونپی جاتی ہے تو اُس میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے حصے کا کام زیادہ جاں فشانی سے کرتا ہے تاکہ مطلوب نتائج یقینی بناکر سرخرو ہو۔
ہر انسان کا ذہن بہت سے معاملات میں کچھ زیادہ سوچ رہا ہوتا ہے۔ کام کرنے والوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں جبکہ در حقیقت وہ چند کام ہی اچھی طرح کرسکتے ہیں۔ اگر ذہن یہ سوچ رہا ہو کہ بہت کچھ جاسکتا ہے تو پھر بہت سی توقعات بھی پیدا ہوتی ہیں۔ یہ کیفیت انتہائی پریشان کن ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ کبھی مت بھولیے کہ آپ کام کرتے ہوئے تھکیں گے بھی اور آرام بھی کرنا پڑے گا۔ اگر آپ کی کارکردگی کے حوالے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلی جائیں تو آپ کے ذہن پر دباؤ بڑھتا چلا جائے گا۔ اگر توقعات زیادہ ہوں تو آپ اُس وقت بھی کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جب آپ کو آرام کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی حالت پیدا ہی مت ہونے دیجیے جس میں لوگ آپ سے بے جا توقعات وابستہ کریں۔ ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ کا جائزہ لیتے رہیے۔ اگر آپ اس معاملے میں غفلت برتیں گے تو ذہن پر دباؤ میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ بہت سے معاملات آپ کی زندگی میں خواہ مخواہ در آتے ہیں۔ اُن سے دور رہنے ہی میں عافیت ہے۔ ہر معاملے پر متوجہ رہنا بھی لازم نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنے ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ کو کماحقہٗ محسوس نہ کریں تو اُس میں چپکے چپکے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پھر وہ دن بھی آتا ہے جب آپ کو لگتا ہے کہ سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ کبھی کبھی دباؤ کچھ نیا اور زیادہ کرنے کی تحریک بھی دیتا ہے مگر مجموعی طور پر یہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے۔ ذہنی دباؤ کی مانیٹرنگ کیجیے اور جب یہ بڑھنے لگے تو اِس کا گراف نیچے لانے کے بارے میں سوچیے، منصوبہ سازی کیجیے۔ متحرک رہنے کی کوشش کیجیے۔ اگر آپ بہت دیر تک بیٹھے رہنے کے عادی ہیں تو تھکن آپ پر تیزی سے طاری ہوگی۔ ہلتے جلتے رہیے۔ ورزش کیجیے، چہل قدمی کیجیے۔ اپنے معمولات میں جسمانی سرگرمیوں کو لازمی طور پر شامل کیجیے۔ اِس کے نتیجے میں آپ میں توانائی کا گراف نہیں گرے گا۔
انسان بہت سے معاملات میں لاچاری بھی محسوس کرتا ہے۔ جب ذہن زیادہ الجھن محسوس کرے تب الگ تھلگ رہنے اور اپنے آپ کو تنہا سمجھنے کے بجائے کسی دوست سے بات کیجیے، اپنی پریشانی بیان کیجیے۔ ایسا کرنے سے آپ معاملات کو سلجھانے میں کامیاب ہوں گے اور ذہن سُکون محسوس کرے گا۔ اگر کسی دوست کے کسی مشورے سے معاملات بہتر ہوسکتے ہیں تو اُس کی طرف سے پیش کی جانے والی مدد قبول نہ کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
بدحواسی بڑھنے مت دیجیے۔ موسیقی اور فلموں سے محظوظ ہونا، مطالعے کی عادت پروان چڑھانا اور دوسرے بہت سے کام ہمیں بہت کچھ دیتے ہیں۔ کسی نہ کسی طور اپنی بدحواسی کو دور کرنے کی کوشش کیجیے۔ اِس کا ایک معقول، کارگر اور سستا طریقہ ہے اپنے خیالات کو باقاعدگی سے قلمبند کرنا۔ جو لوگ ڈائری لکھنے کے عادی ہوتے ہیں اُن میں آپ بدحواسی کا گراف بہت گِرا ہوا پائیں گے۔ بات بات پر بدحواس ہو جانے سے زندگی کا سارا لطف غارت ہو جاتا ہے۔ ذہنی دباؤ گھٹانے کے اور بھی بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں۔ مثبت رہنا بھی لازم ہے۔ جو لوگ ہر معاملے کے تاریک پہلو دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں وہ اپنے وجود سے مطمئن ہوتے ہیں نہ دوسروں سے۔ ایسے لوگ ہر وقت ذہن میں کھچڑی پکاتے رہتے ہیں۔ مثبت سوچ انسان کو خیالوں کی دنیا میں بھٹکنے سے بچاکر عمل پسند رویے کا حامل بناتی ہے۔ ایسی حالت میں ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے۔
یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ ذہنی دباؤ اب زندگی کا حصہ ہے۔ اِسے کم تو کیا جاسکتا ہے اور قابو میں بھی رکھا جاسکتا ہے مگر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کسی نہ کسی حوالے سے ذہن پر دباؤ تو مرتب ہوتا ہی رہے گا۔ اب اِس دباؤ کے ساتھ جینا اور اِسے سمجھنا ہے۔ آج کی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو ذہن پر دباؤ مرتب کرتا رہتا ہے اور ہم نجات بھی نہیں پاسکتے۔ بہت کچھ ہماری زندگی میں یوں رچ بس گیا ہے کہ اب اُس سے الگ ہونا یا اُسے الگ کرنا ممکن نہیں۔ ایسے میں صرف ایڈجسٹمنٹ کا آپشن رہ جاتا ہے۔ اب ہمیں اپنے لیے گنجائش نکالنے پر مائل رہنا ہے۔ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ حالات ہم پر اثر انداز ہوتے رہیں گے۔ ہم حالات کو ختم کرسکتے ہیں نہ اُن کے منفی اثرات کو۔ ہاں‘ اپنے آپ کو بچانا، ذہنی سلامتی یقینی بنائے رکھنا بہت حد تک ممکن ہے مگر اِس کے لیے جاں فشانی کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ ذہنی دباؤ کو بھرپور قوتِ ارادی اور ماہرین کے مشوروں کے ذریعے معقولیت کی حدود میں رکھا جاسکتا ہے۔