امریکہ اس وقت دنیا کی سپر پاور ہے مگر اُس کے سنہرے دن گزر چکے ہیں۔ امریکی معیشت اور معاشرت دونوں ہی خطرے میں ہیں۔ گھٹتی ہوئی معاشی اور عسکری قوت امریکی پالیسی میکرز کے لیے سوہانِ روح ہے کیونکہ واحد سپر پاور کی حیثیت سے اپنا ٹہکا برقرار رکھنا بہت بڑا دردِ سر ہے۔ عام امریکی بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ اُس کے ملک پر چودھراہٹ برقرار رکھنے کے حوالے سے غیر معمولی دباؤ ہے۔ اس غیر معمولی دباؤ سے چھٹکارا پانا ایسا آسان نہیں کہ دو چار دھمکیاں دیجیے اور بات بن جائے۔ وہ دور لد چکا ہے جب امریکہ اور یورپ ملک کر کسی بھی خطے یا ملک کو دبوچ لیا کرتے تھے۔ یورپ اب اپنی راہ چل رہا ہے۔ ہر معاملے میں امریکہ کا ساتھ دینا یا ہاں میں ہاں ملانا اُس کے بس میں نہیں رہا۔ وہ سوفٹ پاور کی بات کرتا ہے جبکہ امریکہ کو ہارڈ پاور کی راہ پر گامزن رہنے کا شوق ہے۔ یورپ علم و فن کے ذریعے اپنی آسودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے جبکہ امریکہ چاہتا ہے کہ دنیا اُس کی عسکری قوت کو تسلیم کرے، اُس کے آگے سر بسجود رہے۔ ایسا ممکن نہیں! یورپ اس حقیقت کو تسلیم کرچکا ہے کہ اُس کی طاقت میں کمی واقع ہو چکی ہے اور اب اُسے اپنے لیے کوئی نئی اور معقول راہ منتخب کرنی ہے۔ یہی سبب ہے کہ یورپی قائدین اندرونی مسائل پر متوجہ رہنے پر زور دے رہے ہیں۔ وہ کسی بھی نئی بیرونی عسکری مہم جُوئی میں امریکہ کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے اتحاد BRICS (برازیل، رشیا، انڈیا، چائنا، ساؤتھ افریقہ) نے اپنے حالیہ سربراہی اجلاس میں ایک بار پھر اس نکتے پر زور دیا ہے کہ عالمی مالیاتی اور بینکاری نظام کو صرف امریکی ڈالر پر منحصر رہنے کی راہ سے ہٹایا جانا چاہیے۔ ان ممالک کے قائدین نے اجلاس کے دوران کہا کہ تمام لین دین امریکی کرنسی کی بنیاد پر نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ برکس کے ارکان کو آپس کے لین دین میں اپنی اپنی کرنسی کو بروئے کار لانا چاہیے۔ یہ بات پہلے بھی کہی جاتی رہی ہے مگر اب زیادہ زور دے کر کہی جارہی ہے۔ چین اور روس اس معاملے میں غیر معمولی جوش و خروش کے حامل ہیں۔ روس اپنے آپ کو زیادہ تیزی سے اور بھرپور طور پر منوانا چاہتا ہے۔ اُس نے یوکرین پر لشکر کشی بھی یہ ظاہر کرنے کیلئے کی ہے کہ اُسے نظر انداز کرکے دنیا کو چلانا انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ چین بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ روس کی پالیسیوں کی حمایت کرنے سے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں؛ تاہم اُس کے پاس بھی کوئی اور راستہ نہیں کیونکہ اُسے بھی اپنی حیثیت منوانے کیلئے روس جیسے دو تین ممالک کی ضرورت ہے۔
بھارت اپنا راستہ الگ کرچکا ہے۔ وہ ایشیا میں ہوتے ہوئے ایشیائی طاقتوں کے ساتھ مل کر نہیں چلنا چاہتا۔ بھارتی پالیسیاں آج بھی مغرب نواز ہیں۔ وہ امریکہ اور یورپ‘ دونوں سے خوب فوائد بٹور رہا ہے۔ بھارت کے کم و بیش ایک کروڑ باشندے بیرونِ ملک مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے کر ملک کے لیے وسیع البنیاد ترسیلاتِ زر کا اہتمام کر رہے ہیں۔ چین اور روس کا ساتھ دے کر بھارتی قیادت مغربی طاقتوں سے جُڑے ہوئے اپنے مفادات کو داؤ پر نہیں لگاسکتی۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور پالیسی میکرز کو بھی اندازہ ہے کہ دنیا ڈالر سے عاجز آچکی ہے۔ عالمی مالیاتی نظام کی جڑوں میں بیٹھے ہوئے ڈالر کو اکھاڑ پھینکنے کی کوششوں سے امریکی قائدین بھی بخوبی واقف ہیں۔ ایسا نہیں کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اس حوالے سے کچھ نہیں کر رہی۔ ڈالر کی گرتی ہوئی پوزیشن کو سنبھالا دینے کے لیے امریکہ جو کچھ بھی کر سکتا ہے‘ کر رہا ہے۔ امریکی محکمۂ خزانہ، مرکزی بینک (فیڈرل ریزرو) اور ایوانِ صدر یعنی وائٹ ہاؤس میٹنگز پر میٹنگز کر رہے ہیں۔ ماہرین سر جوڑے بیٹھے ہیں اور کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دوسری طرف قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ دنیا بھر میں میڈیا پرسنز اور تجزیہ کار امریکی ڈالر کی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن کے تناظر میں بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔
مالیاتی امور کے تجزیہ کار، کرپٹو کرنسی اور بلاک چین ٹیکنالوجی کے ماہر اور انویسٹمنٹ بینک کے سابق نائب صدر ٹیکا تِواری (Teeka Tiwari) کا کہنا ہے کہ ڈالر کو دلدل سے نکالنے کے لیے امریکی حکومت کچھ بھی کرسکتی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن ڈالر کے ٹوٹل ری کال کا اعلان بھی کرسکتے ہیں یعنی امریکہ سمیت دنیا بھر میں جتنے بھی ڈالر کیش کی شکل میں یا پھر اکاؤنٹس میں موجود ہیں اُنہیں واپس منگوایا جائے اور امریکہ اُن کے بدلے کچھ اور دے۔ کیا دے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ امریکی کرنسی، اپنی قدر میں گراوٹ کے باوجود، دنیا بھر میں اہم گردانی جاتی ہے۔ یورو اور برطانوی پاؤنڈ میں وہ طاقت نہیں جو امریکی ڈالر میں ہے یا دکھائی دیتی ہے۔ چین اور جاپان کی کرنسی عالمی لین دین میں زیادہ مستعمل نہیں۔ عالمگیر مالیاتی معاملات تاحال ڈالر تک محدود ہیں؛ تاہم پریشان کن بات یہ ہے کہ ڈالر کی پوزیشن بھی وہ نہیں جو دکھائی دے رہی ہے۔ امریکہ میں معاشی الجھنیں بڑھ چکی ہیں‘ قرضوں کا بوجھ غیر معمولی ہے۔ ایسے میں اگر ڈالر کمزور پڑگیا تو دنیا بھر میں بہت کچھ رُل جائے گا۔ دنیا بھر کے مالیاتی حلقوں میں یہ قیاس آرائی بھی گردش کر رہی ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اب ملک کو ڈیجیٹل کرنسی کی طرف لے جارہی ہے۔ نجی شعبے کے مالیاتی ماہرین اور ہائی ٹیک فرمز کو ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے تحقیق اور ڈیزائننگ کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی کی مارکیٹنگ سے متعلق امور پر بھی مشاورت ہو رہی ہے اور اس حوالے سے کسی بھی وقت کوئی بڑا اعلان متوقع ہے۔ ٹیکا تواری کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن یکم نومبر کو یہ اعلان کرسکتے ہیں!
کیا دنیا اِس وقت عالمی مالیاتی نظام سے امریکی ڈالر کی رخصتی کی متحمل ہوسکتی ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ بہت کچھ امریکہ اور ڈالر سے جُڑا ہوا ہے۔ اگر ڈالر کی قدر میں خطرناک حد تک گراوٹ آتی ہے اور امریکہ عالمی سیاسی اور سٹریٹیجک منظر ناموں میں کمزور پڑتا ہے تو عالمی سیاست و معیشت میں انتہائی پریشان کن بحران پیدا ہوگا۔ چین اور امریکہ کے درمیان معاشی جنگ بھی جاری ہے۔ امریکی قیادت کی کوشش ہے کہ چین کو معیشت کے میدان میں مزید بڑھنے سے روکا جائے۔ اِس کے لیے امریکہ کا طاقتور ہونا ناگزیر ہے مگر ایسا ہے نہیں! امریکی معیشت خود بھی طرح طرح کی الجھنوں سے دوچار ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ امریکہ نے چین کی راہ روکنے کے لیے بھارت کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ نے بھارتی قیادت کو یقین دلایا ہے کہ یورپ تک اقتصادی راہداری کی تیاری میں بھارت کو مرکزی حیثیت دی جائے گی۔ ماہرین اس امر پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکہ اور بھارت نے ایسی کسی بھی راہداری کی تیاری میں پاکستان کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔ پاکستان کے بغیر ایسی کسی بھی راہداری کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت اور روس کے توسیع پسندانہ عزائم کے پیشِ نظر امریکہ کے لیے کچھ زیادہ کر پانا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ چین اور روس کو نظر انداز کرنا اُس کے لیے زیادہ ممکن نہیں۔ عرب دنیا میں بھی رجحانات کسی حد تک تبدیل ہو رہے ہیں۔ اہلِ عرب نے امریکہ سے ہٹ کر بھی دیکھنا شروع کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کو منانے کی کوشش کی تھی مگر جو بائیڈن ایسا کچھ کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔ اگر اِس مرحلے پر امریکی حکومت نے پتے ڈھنگ سے شو نہ کیے تو سٹریٹیجک بازی ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ ڈالر کو عالمی مالیاتی نظام کا انتہائی بنیادی حصہ بنائے رکھنا امریکہ کیلئے انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں یہ تاثر بھی پایا جارہا ہے کہ امریکہ نے کچھ زیادہ ہی بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ اِس بوجھ سے جان چھڑانے کی کوشش میں عالمی سیاست و معیشت ہی دائو پر لگ جائے۔ امریکہ کیلئے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ یورپ جیسا فطری اور ازلی نوعیت کا حلیف بھی اپنی راہ الگ کرچکا ہے۔ ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں بھی امریکہ کے حلیف کسی اور طرف دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں سب کچھ محض دھونس دھمکی کی بنیاد پر نہیں چلایا جاسکتا۔ جو بائیڈن انتظامیہ کو ڈالر کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا، بالخصوص ممکن عواقب ذہن نشین رکھتے ہوئے۔