"MIK" (space) message & send to 7575

مرحلہ وار آگے بڑھنے کی گھڑی

قومی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ کے دوسرے میچ میں سری لنکا کو جس طور شکست دی ہے اُسے بھولا نہیں جاسکتا۔ یہ میچ کئی اعتبار سے انتہائی وقیع قرار پایا ہے۔ سب سے پہلے تو یہی بات لیجیے کہ ورلڈ کپ میں سب سے بڑے مارجن سے کامیاب تعاقب کا اعزاز قومی ٹیم کو ملا ہے۔ پھر پچاس اوور والے ورلڈ کپ کے میچوں کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک میچ میں چار سنچریاں سکور کی گئی ہیں۔ پاکستان نے ورلڈ کپ کے میچوں میں سری لنکا سے نہ ہارنے کا اعزاز برقرار رکھا ہے۔
سری لنکا نے پہلے کھیلتے ہوئے 344 رن سکور کیے۔ یہ کسی بھی اعتبار سے قابلِ رشک ٹوٹل تھا اور سٹیڈیم میں موجود تماشائی پاکستانی ٹیم کی شکست کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ چند ایک خرابیوں اور خامیوں کے باعث لوگوں کا ایسا سوچنا کچھ غلط بھی نہ تھا۔ پہلی وکٹ (امام الحق) 16 اور دوسری وکٹ (بابر اعظم) 37 کے ٹوٹل پر گری تو ایسا لگا کہ اب پاکستان کی بیٹنگ لائن ڈھے جائے گی۔ پہلی دو وکٹیں جلد گر جانے کے باعث سارا بوجھ محمد رضوان اور عبداللہ شفیق کے کاندھوں پر آ پڑا۔ مگر یہ بوجھ دونوں نے ایسی عمدگی سے اٹھایا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ دونوں نے مل کر تیسری وکٹ کی پارٹنر شپ میں 175 رنز سکور کیے۔ عبداللہ شفیق نے 113 اور محمد رضوان نے 131 رنز کی شاندار اور ناقابلِ شکست اننگز کھیلی۔ عبداللہ شفیق کی اننگز کی خاصیت یہ تھی کہ یہ ورلڈ کپ میں ان کا ڈیبیو تھا۔ انہوں نے ورلڈ کپ ڈیبیو پر سینچری سکور کرنے والا پہلا پاکستانی بیٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
حیدر آباد (بھارت) کے راجیو گاندھی انٹرنیشنل سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے میچ کو سنسنی خیز قرار دیا جارہا ہے۔ پاکستانی ٹیم کسی بھی میچ کو سنسنی خیز بنانے کے حوالے سے غیر معمولی شہرت کی حامل ہے۔ اِس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوتا دکھائی دیا۔ 344 رنز کے ٹوٹل کا تعاقب آسان نہ تھا۔ ٹورنامنٹ میں اپنے دوسرے ہی میچ میں شکست کی صورت میں قومی ٹیم کے لیے امکانات کمزور ہوجانا تھے۔ تیسرا میچ 14 اکتوبر کو احمد آباد میں بھارت کے مقابل ہے۔ اِسے ٹورنامنٹ کا سب سے بڑا ٹاکرا قرار دیا جارہا ہے۔ بھارت کے سامنے قدم جمانے کے لیے سری لنکا کو ہراکر مورال بلند کرنا لازم تھا۔ سری لنکا سے ہارنے کی صورت میں بھارت کے مقابل قومی ٹیم میں مطلوب حوصلے کا پایا جانا مشکل تھا۔
سری لنکا نے جس بے دردی سے پاکستانی باؤلرز کی پٹائی کی اُسے دیکھتے ہوئے ایک مرحلے پر تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آئی لینڈرز 400 کا ٹوٹل کھڑا کردیں گے۔ کوشل مینڈس نے 122 اور سدیرا سماراوکرما نے 108 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔ آئی لینڈرز کا ٹوٹل ایسا بُرا نہ تھا کہ اُس کا ڈھنگ سے دفاع ممکن نہ ہوتا۔ ابتدائی مرحلے میں دو وکٹیں لے کر انہوں نے پاکستان کے لیے مشکلات تو کھڑی کر ہی دی تھیں مگر پھر محمد رضوان اور عبداللہ شفیق سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اور آئی لینڈرز کو ایسی شکست کا مزہ چکھایا جس کے بارے میں اُنہوں نے سوچا بھی نہ ہو گا۔
پاکستان کی فتح میں کلیدی کردار عبداللہ شفیق اور محمد رضوان نے ادا کیا؛ تاہم محمد رضوان کا پلڑا بھاری رہا۔ انہوں نے پورے میچ کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اِس طور اٹھایا کہ مخالفین کو بھی داد دیتے ہی بنی۔ اِس میچ میں ویسے تو اور بہت کچھ تھا مگر محمد رضوان نے جس انداز سے پورے میچ پر اپنی گرفت برقرار رکھی اور عبداللہ شفیق، سعود شکیل اور افتخار احمد کے ساتھ مل کر جس چابک دستی سے میچ کا پانسا پاکستان کے حق میں پلٹا اُس کی نظیر قومی کرکٹ ٹیم کے ماضیٔ قریب میں نہیں ملتی۔ کرکٹ کے شائقین نے یہ بات ضرور نوٹ کی ہوگی کہ اِتنے بڑے ٹوٹل کے تعاقب میں کسی بھی نوع کی بدحواسی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پاکستان کے مڈل آرڈر بیٹرز نے بے مثال سُکون کے ساتھ ہدف کا تعاقب جاری رکھا۔ کسی بھی مرحلے میں ایسا محسوس نہیں ہوا کہ کسی بیٹر پر شدید اعصابی دباؤ ہے۔ محمد رضوان کسی بھی مرحلے میں مایوس یا نروس دکھائی نہیں دیے بلکہ کمر اور ٹانگ کے پٹھے کھنچ جانے کے باوجود میدان میں ڈٹے رہے۔ انہوں نے صرف اُسی وقت جرأتِ رندانہ کا مظاہر کیا جب سری لنکن باؤلرز نے اِس کی گنجائش چھوڑی۔ محمد رضوان نے پوری اننگز کے دوران جذباتی ہونے سے یکسر گریز کیا اور میچ پر گرفت مضبوط ہوجانے کے بعد تابڑ توڑ نوعیت کی بیٹنگ سے اجتناب برتا۔ جس مرحلے پر لوگ چوکوں اور چھکوں کی بارش کی توقع کر رہے تھے اُس مرحلے میں محمد رضوان اور عبداللہ شفیق نے اپنی طے کردہ حد سے تجاوز سے گریز کیا۔ ابتدائی 25 اوورز تک میچ پاکستان کے حق میں نہ تھا۔ دونوں کلیدی بیٹرز پر شدید دباؤ تھا۔ بعض اوورز کمزور بھی گئے۔ اِس کے باوجود دونوں بیٹرز عجلت میں دکھائی دیے نہ ہی جذباتی ہوئے۔ دونوں نے صبر و سکون سے اپنا سفر جاری رکھا۔ میچ کو پاکستان کے حق میں کرنے کے لیے انہوں نے جو حکمتِ عملی اپنائی اُس نے جاوید میانداد کا زمانہ یاد دلادیا۔ جاوید میانداد بھی سنگلز اور ڈبلز کی صورت میں سکور کو آگے بڑھایا کرتے تھے۔ ایسا کرنے سے فیلڈرز کی اچھی خاصی ''پِدّی‘‘ لگ جاتی ہے یعنی وہ تھکن کا شکار ہو جاتے ہیں اور یوں رنز روکنے کے لیے درکار لگن سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ عبداللہ شفیق اور محمد رضوان نے خاصے ٹھنڈے مزاج کے ساتھ سنگلز اور ڈبلز کے ذریعے پاکستان کی پوزیشن مرحلہ وار مستحکم کی اور دھواں دھار بیٹنگ سے گریز کیا۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ میچ کسی بھی مرحلے پر ہاتھ سے نکلتا دکھائی نہیں دیا۔
سری لنکا کے خلاف اِتنے شاندار انداز سے انچاسویں اوور کی دوسری گیند پر حاصل ہونے والی فتح کا جشن تو بنتا ہے؛ تاہم اِس سے زیادہ ضروری ہے اپنی خامیوں کا جائزہ لینا۔ فتح کے باوجود اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی باؤلرز ناکام رہے۔ لائن اور لینتھ کا معاملہ قدم قدم پر گڑبڑاتا دکھائی دیا۔ شارٹ پِچ یا اوور پِچ بولنگ کے نتیجے میں جیسی پٹائی ہوتی ہے ویسی ہی پٹائی پاکستانی باؤلرز کی ہوئی۔ بولنگ میں نظم و ضبط لانے کی اشد ضرورت ہے۔ سری لنکن بائولرز جب بھی رنز روکنے میں ناکام رہے تو شدید بدحواس ہوئے اور لائن‘ لینتھ بھول گئے۔ ہمیں اپنے باؤلرز کو باور کرانا ہے کہ بھارت سے ٹاکرے کے دوران کھیل کے ہر شعبے میں نظم و ضبط لازم ہے۔ یہ ٹاکرا جیتنے پر ہمارا مورال کتنا بلند ہوگا یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
اس وقت قوم کا مورال گرا ہوا ہے۔ ایسے میں قومی کرکٹ ٹیم کی پے در پے دو فتوحات نے قوم کو سکون کا سانس لینے کا اچھا موقع فراہم کیا ہے۔ ورلڈ کپ میں سفر اچھی طرح شروع ہوا ہے۔ قومی ٹیم کا مورال خاصا بلند ہے۔ ایسے میں مزید فتوحات کی توقع رکھنا بے جا نہ ہوگا۔ ہاں‘ کھیل کا طریق وہی رہنا چاہیے جو سری لنکا کے خلاف اپنایا گیا۔ مرحلہ وار آگے بڑھتے ہوئے مقابلے کو دَم دار بنانا ہے۔ میچ کو سنسنی خیز بنانے کے لیے دھواں دھار بیٹنگ سے گریز کرتے ہوئے صبر و سکون سے آگے بڑھنا ہوگا تاکہ جیتی ہوئی بازی ہاتھ سے جاتی نہ رہے۔
اِس قوم کو بھی ایسی ہی سوچ درکار ہے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے صبر و سُکون سے کرنا ہے، کسی بھی مرحلے میں نری جذباتیت کا مظاہرہ نہیں کرنا اور بے جا سنسنی پھیلانے سے گریز کرنا ہے۔ حالات کو زیر کرنے کے لیے ایسا ہنر اور تحمل درکار ہے جو کسی پہاڑ کو چھینی کی مدد سے تراش کر اپنی مرضی کے نقوش ابھارنے کے لیے درکار ہوا کرتا ہے۔ قومی سیاست و معیشت کا جو حال ہے اُسے دیکھتے ہوئے دھواں دھار نوعیت کی طرزِ فکر و عمل کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔ قوم ایک طرف تو قنوطیت کے گڑھے میں گِری ہوئی ہے اور دوسری طرف اُس کی جذباتیت بھی معقول حد تک کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ قوم کو راہ دکھانے کے منصب پر مامور ہونے والوں کو مرحلہ وار پیش رفت یقینی بنانے کا ہنر سیکھنے کی تحریک دینا ہوگی اور اِس سے قبل یہ ہنر خود اُنہیں بھی سیکھنا پڑے گا۔ اب کوئی بھی معاملہ جذباتیت اور عجلت پسندی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اب جو کچھ بھی کرنا ہے تحمل سے اُسی طرح کرنا ہے جس طرح عبداللہ شفیق اور محمد رضوان نے قومی ٹیم کی فتح ممکن بنائی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں