"MIK" (space) message & send to 7575

آپ فرمائیے کیا خریدیں گے؟

مادّی ترقی کا موجودہ ماڈل مغرب کا دیا ہوا ہے۔ مغرب نے جو کچھ بھی پایا ہے مادّی ترقی کے اِس ماڈل کی بدولت ہی پایا ہے اور دنیا کو بھی وہ یہی سکھا رہا ہے کہ اگر کچھ پانا ہے‘ ترقی یقینی بنانی ہے‘ خوش حالی کی منزل تک پہنچنا ہے تو صرف مادّی ترقی کے حوالے سے سوچنا چاہیے۔ مادّی ترقی یعنی دنیا سے محبت کا بھرپور اظہار۔ دنیا سے محبت ضرور کرنی ہے کہ ہمیں یہاں رہنا ہے اور بہت کچھ کرنا ہے۔ انسان جہاں بسے اُس جگہ سے محبت ناگزیر ہے وگرنہ اُس کا حق ادا کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ دینی تعلیمات بھی دنیا سے رغبت رکھنے سے نہیں روکتیں مگر ہاں‘ دینی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ دنیا ہی کو سب کچھ یا حتمی منزل نہ سمجھ لیا جائے۔ یہ دنیا کمرۂ امتحان ہے، یہاں ہم جو کچھ کریں گے اُس کا حساب آخرت میں دینا ہے۔ اگر ہم دنیا سے رغبت نہ رکھیں، اِسے نظر انداز کرتے رہیں، دُھتکارتے رہیں تو ڈھنگ سے کچھ بھی نہ کر پائیں گے۔ دین سے وابستہ جو لوگ دنیا سے شدید بے رغبتی سکھاتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا بلکہ اِس کی تمام رنگینیوں سے اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے مستفید ہونا ہے اور کوشش یہ کرنی ہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کا بھی بھلا ہوتا رہے۔ دنیا سے فدا ہونے کی اجازت دین نہیں دیتا مگر یہ بھی نہیں کہتا کہ دنیا سے جی اُچاٹ رکھتے ہوئے جیا جائے۔ اس دنیا سے محبت بھی کرنی ہے‘ مل جل کر رہنا بھی ہے اور اپنے افکار و اعمال کو متوازن بھی رکھنا ہے۔ ہاں‘ دنیا کو سب کچھ سمجھ کر اِس پر نچھاور نہیں ہو جانا۔
کم و بیش پانچ صدیوں کے دوران مغرب نے دنیا کو مادّی ترقی کے حوالے سے جو کچھ دیا ہے وہ یقینا اِس قابل ہے کہ اُسے سراہا جائے کیونکہ مغرب کی محنت کے نتیجے میں ہر شعبے میں پیش رفت سے اپنا اور دوسروں کا بھلا زیادہ آسانی سے ممکن ہوسکا ہے؛ تاہم مغرب کے تیار کردہ مادّی ترقی کے ماڈل کی بنیادی خرابی یہ ہے کہ اس میں آخرت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مغرب کے اہلِ دانش اور اہلِ فن نے پانچ صدیوں تک جو محنت کی ہے وہ عمل نہیں بلکہ ردِعمل کا نتیجہ ہے۔ یورپ دس‘ بارہ صدیوں تک شدید نوعیت کی پاپائیت کے نرغے میں رہا ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب پاپائے روم تمام امور پر متصرف تھا اور بادشاہوں کو بھی اُس کے سامنے گدا کی طرح پیش ہونا پڑتا تھا۔ پاپائیت نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور ٹھونکا کہ جو مذہب کی رکھوالی پر مامور ہے‘ وہ خدا کا خاص بندہ ہے‘ اُس کا نائب ہے اور مامور من اللہ ہے۔ تمام اختیارات اُسی کی ذات میں مرتکز ہیں۔ ہر پادری اپنے علاقے کے معززین اور اہلِ حکومت سے بڑھ کر تھا۔ کلیسا نے سبھی کچھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ حکومتیں اور سلطنتیں اُس کی مرضی سے بنتی اور بکھرتی تھیں۔ کلیسا کی نظر میں جب حکمرانوں کی کوئی حیثیت نہ تھی تو سوچا جاسکتا ہے کہ عام آدمی کا کیا حال رہا ہوگا! جو بھی پاپائیت کے خلاف آواز بلند کرتا تھا اُسے کسی نہ کسی بہانے موت کی نیند سلادیا جاتا تھا۔ جن لوگوں کی طرف یہ خطرہ لاحق ہوتا تھا کہ وہ پاپائیت یا کلیسا کی حاکمیت کو چیلنج کریں گے اُنہیں جادوگر یا جادوگرنی قرار دے کر دنیا سے رخصت کردیا جاتا تھا۔ کلیسا کی چیرہ دستیوں کے خلاف کھڑے ہونے والوں کا بھیانک انجام دیکھ کر عام آدمی سہما رہتا تھا، اُس کی زبان پر کلیسا کے خلاف ایک بھی لفظ نہیں آ پاتا تھا۔
جب اسلام اپنے عہدِ زرّیں سے گزر رہا تھا تب یورپ اور باقی ماندہ مغرب جہالت، بدعقیدگی اور شدید پسماندگی کے قعرِ مذلّت میں گرا ہوا تھا۔ اصلاحِ احوال کی کوئی صورت دکھائی نہ دیتی تھی۔ لوگ ہمت ہار چکے تھے۔ کلیسا جو کچھ بھی کہتا اور کرتا تھا وہی حرفِ آخر سمجھا جاتا تھا۔ اُس کے فیصلوں کو من و عن اور بلا چون و چرا تسلیم کرلیا جاتا تھا۔ یہ مذہبیت کی انتہائی شکل تھی۔ مذہبی طبقے کی بالا دستی ہر معاشرے میں رہی ہے؛ تاہم جیسی ''عہدِ ظلمات‘‘ میں یورپی معاشروں میں دکھائی دی ویسی کہیں بھی نظر نہیں آئی۔ پاپائے روم نے زمین پر خدا کی سی حیثیت اختیار کررکھی تھی۔ وہ زندگی اور موت کا مالک بن بیٹھا تھا۔ یہ سلسلہ تیرہویں اور چودھویں صدی میں کمزور پڑ جانے کے باوجود پندرہویں صدی تک چلتا رہا۔
کوئی بھی طبقہ جب حد سے زیادہ طاقتور ہو جاتا ہے تو شدید ردِعمل کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ پاپائیت کے خلاف بھی شدید ردِعمل رونما ہوا۔ یہ ردِعمل اہلِ علم و فن کی طرف سے تھا۔ اُنہوں نے طے کیا کہ لوگوں کو جہالت اور پسماندگی کے اندھیروں سے نکال کر ترقی اور خوش حالی کے اجالوں کی طرف لے کر جانا ہے۔ مذہب کے علمبرداروں نے عوام کو طرح طرح کی پابندیوں سے جکڑ رکھا تھا۔ ایسے میں ردِعمل مذہب ہی کے خلاف ہونا تھا۔ عوام پاپائیت سے متنفر تو تھے ہی۔ اُنہوں نے جب دیکھا کہ علم و فن کی شمع روشن کرنے والے رہبری کے لیے میدان میں نکل آئے ہیں تو مذہبیت کے اندھیروں کو تج کر دنیا کو اپنانے کی طرف چل پڑے۔
یورپ میں دانش کی جو روشنی پھیلی وہ چونکہ مذہبیت اور آخرت کے کھوکھلے تصور کے نام پر اندھیر مچانے والوں کے خلاف تھی اس لیے سب سے زیادہ ردِعمل آخرت کے تصور ہی کے خلاف برپا ہوا۔ نشاۃِ ثانیہ کا آغاز یورپ سے ہوا اور پھر یہ سلسلہ امریکہ تک پہنچا۔ دونوں خطوں کے اہلِ علم و فن نے مل کر ایسا ماحول تیار کیا جس میں دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے کی راہ ہموار کی گئی اور عام آدمی کو باور کرایا گیا کہ یہ دنیا ہی سب کچھ ہے، آخرت کوئی چیز نہیں، مرنے کے بعد کہیں نہیں جانا بلکہ گَل سڑ جانا ہے۔ مذہب کے علمبرداروں کے ہاتھوں انسانیت سوز سلوک سے دوچار رہنے والوں نے موقع غنیمت جانا اور روئے ارض پر اپنے قیام کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ بنانے کی خاطر خالص مادّیت کو اپنالیا۔ فطری علوم و فنون کے پیشواؤں نے ابتدائی مرحلے ہی پر باور کرادیا تھا کہ یہ دنیا اور کائنات ہی سب کچھ ہے، اِس سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں۔ خالص فطری علوم و فنون میں ممکن بنائی جانے والی فقیدالمثال پیش رفت نے عام آدمی کو ایسے سُکھ سے ہم کنار کیا جس نے اُسے یقین دلایا کہ یہ دنیا ہی سب کچھ ہے، جنت اگر ہے تو یہیں ہے، یہی ہے۔
مادّی ترقی کا جو ماڈل مغرب نے پیش کیا ہے اُس میں دنیا ہی سب کچھ ہے یعنی یہ کہ جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے اور زندگی کو آسان بناسکتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ تناسب سے حاصل کرنے کی تگ و دَو میں مصروف رہیے۔ اِسی کو کنزیومر اِزم کہتے ہیں یعنی زیادہ سے زیادہ کمائیے، زیادہ سے زیادہ خرچ کیجیے، مادّی سکھ یقینی بنانے والی تمام اشیا و خدمات حاصل کیجیے، بس۔
ذاتی اور اجتماعی ترقی و آسودگی یقینی بنانے کے معاملے میں مغرب کی تقلید کرنے والے اپنے آپ کو بالآخر بند گلی میں پاتے ہیں۔ اِس دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ کر زندگی بسر کرنے کا ایسا ہی انجام ہوا کرتا ہے۔ مغرب نے اخلاقی اقدار بھی اُسی قدر اپنائی ہیں جتنی اِس دنیا میں قیام کو آرام دہ بنانے کے لیے کافی ہیں۔ شخصی آزادی کے نام پر عام آدمی کے ذہن میں ایسا افسوں پھونکا گیا ہے جس نے آخرت کا تصور ہی کھرچ ڈالا ہے۔ جھوٹ نہ بولنا، پورا تولنا، وعدہ خلافی نہ کرنا، وقت کسی طور ضائع نہ کرنا‘ یہ سب کچھ بالکل درست مگر اخلاقیات صرف اِن بنیادی باتوں کے گرد نہیں گھومتی۔ مغرب نے یہ تصور دیا ہے کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچتی ہو اور اعتراض نہ ہو تو پھر سب کچھ جائز ہے!
مغرب نے دنیا کو پانے کے لیے جو کچھ کھویا ہے وہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے۔ آج مغرب میں ناجائز رشتے بالکل برحق سمجھ لیے گئے ہیں۔ شادی کے بندھن میں بندھے بغیر بچے پیدا کرنے میں ذرّہ بھر قباحت محسوس نہیں کی جارہی۔ مذہب کے علمبرداروں نے چاہے کچھ کیا ہو، انسان کے اخلاق درست رکھنے کے لیے مذہب تو لازم ہی ہے۔ زندگی صرف کمانے اور خرچ کرنے کا نام نہیں۔ مادّی سکھ سب کچھ نہیں۔ یہ نکتہ مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن سے بھی ظاہر ہے۔ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے کی روش نے مغرب کو روح سے محروم کردیا ہے۔ اب وہ محض جسد ہے، اور کچھ نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں