"MIK" (space) message & send to 7575

اور یادداشت واپس آگئی

پرانی لالی وُڈ اور بالی وُڈ فلموں کی کہانیوں میں ایک موڑ بہت مقبول تھا۔ ہیرو یا ہیروئین کی یادداشت اچانک واپس آجاتی تھی اور ایسا کسی گانے یا مکالمے کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ کوئی پیانو پر گیت گاتا تھا اور ہیرو یا ہیروئین کا حافظہ بیدار ہو جاتا تھا، اُسے سب کچھ یاد آجاتا تھا اور کہانی فیصلہ کن موڑ پر پہنچ جاتی تھی۔ ہمارے ملک کی کہانی میں بھی ایسا موڑ آچکا ہے۔ ریاست کو اچانک بہت کچھ یاد آگیا ہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ موڑ خود آیا ہے یا کسی نے کسی طور کچھ یاد دلایا ہے۔ بہر کیف‘ ریاست نے غیر قانونی تارکینِ وطن سے نجات پانے کا تہیہ کرلیا ہے۔ اہلِ وطن مطمئن ہیں کہ ع
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
غیر قانونی تارکینِ وطن ہمارے ہاں کئی عشروں سے سکونت پذیر ہیں۔ اِن میں سوویت لشکر کشی کے دور میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہونے والے افغان پناہ گزین اور اُن کی اولاد نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔ سابق سوویت یونین کی لشکر کشی کے نتیجے میں افغانستان میں جو اکھاڑ پچھاڑ ہوئی اور جتنی تباہی پھیلی اُس کے نتیجے میں کم و بیش تیس لاکھ افغان باشندوں نے پاکستان میں پناہ لی۔ پاکستان کے لیے یہ بہت بڑا معاملہ تھا۔ خیبر پختونخوا کو معاشی اور معاشرتی حوالے سے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ تیس لاکھ افغان باشندوں کے آباد ہونے سے مقامی آبادی پر شدید ثقافتی اثرات بھی مرتب ہوئے۔ معیشت اور معاشرت کی پیچیدگیوں نے سرحد (خیبر پختونخوا) حکومت اور عوام دونوں کیلئے ایسی الجھنیں پیدا کیں جن کے نتیجے میں بہت کچھ تبدیل ہوگیا اور وہ بھی سخت ناموافق اثرات کے ساتھ۔
مجبور ہوکر پاکستان کا رخ کرنے والے افغان باشندے پھر یہیں کے ہو رہے۔ جنگ سے تباہ حال وطن میں واپس جانے والے خال خال تھے۔ بعد میں تو ایسی خواہش رکھنے والے بھی خال خال ہی دکھائی دیے۔ افغانستان کم و بیش چالیس سال سے شدید ناموافق حالات کا شکار ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد طالبان نے اقتدار سنبھالا؛ تاہم اُن کے دور میں بھی خرابیاں خاطر خواہ حد تک کم نہ ہو پائیں۔ نائن الیون کے بعد افغانستان ایک بار پھر اِس قابل نہ رہا کہ وہاں آباد ہوا جائے۔ طالبان کے دور میں افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا عمل شروع ہوا تھا؛ تاہم نائن الیون کے بعد یہ عمل ایسا موقوف ہوا کہ یہاں موجود افغان پناہ گزینوں نے واپس نہ جانے کی ٹھان لی۔ سوویت لشکر کشی کے بعد ابتدائی مرحلے میں سرحد و بلوچستان تک محدود رہنے والے افغان پناہ گزین وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلتے چلے گئے۔ اُنہوں نے یہاں معاشی اور معاشرتی بنیادیں مضبوط کرلیں۔ بڑے کاروبار بھی کیے اور مختلف چھوٹے موٹے کام بھی اپنے ہاتھ میں لیے۔ رفتہ رفتہ کراچی میں بھی افغان پناہ گزینوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ یہاں بہت سے کام افغان ہی کرتے ہیں۔ بہت سے بڑے تجارتی علاقوں میں افغان باشندوں نے منہ مانگی قیمت چکاکر دکانیں خرید رکھی ہیں۔ کئی علاقوں میں افغان تاجر نمایاں حیثیت کے حامل ہیں اور ان کی معاشی سرگرمیوں سے مقامی افراد کے لیے مشکلات بڑھی ہیں۔ بعض اشیا کی خرید و فروخت میں اُن کی حیثیت اجارہ دارانہ دکھائی دیتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں مقامی لوگوں میں افغان باشندوں کیلئے ناپسندیدگی کے جذبات بھی پروان چڑھتے رہے۔ کراچی میں معاملات بہت زیادہ بگڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں غیر قانونی افغان تارکینِ وطن نمایاں حیثیت کے ساتھ موجود ہیں۔ سہراب گوٹھ کے علاقے میں افغان بستی بھی موجود ہے جسے بہت حد تک ''علاقہ غیر‘‘ کی سی حیثیت حاصل ہے۔ کراچی میں لُوٹ مار کے بیشتر واقعات میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ لُوٹ مار کے بیشتر واقعات میں بھی ملوث افراد کی اکثریت غیر مقامی ہے۔ جرائم میں ملوث ہونے کے باعث بھی اہلِ کراچی میں افغان باشندوں کے ساتھ ساتھ بعض ملکی قومیتوں کے حوالے سے احساسِ تنافر بڑھا ہے۔ ایسی خبریں ایک زمانے سے گردش کر رہی ہیں کہ بہت سے افغان باشندوں نے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کر رکھے ہیں اور اُن کی بنیاد پر بیرونِ ملک ملازمتیں بھی حاصل کی ہیں۔ اصولی طور پر کسی بھی پناہ گزین کو مقامی معاشی سرگرمی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ دنیا بھر میں حکومتیں اِس اصول پر سختی سے کاربند رہتی ہیں تاکہ پناہ گزینوں کی معاشی اور دیگر سرگرمیوں سے مقامی آبادی کے لیے مشکلات پیدا نہ ہوں۔ یورپ میں پناہ گزینوں کو معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکنے کا نظام زیادہ سختی سے رُو بعمل ہے۔ امریکہ میں یہ معاملہ کچھ ڈھیلا ڈھالا ہے۔ بھارت جیسا ملک بھی اپنے مخصوص مفادات کے تحت پناہ گزینوں کو قبول کرتا ہے؛ تاہم اُنہیں معیشت کی مین سٹریم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ بھارت اور افغانستان کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں۔ بھارت نے مخصوص حالات میں افغان پناہ گزینوں کو (اگرچہ بہت محدود تعداد میں) قبول کیا؛ تاہم اُنہیں کھل کر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت کبھی نہیں دی۔
ہمارے ہاں یہ معاملہ انتہائی درجے کی لاپروائی سے عبارت رہا۔ کسی بھی حکومت نے افغان پناہ گزینوں کو مین سٹریم میں داخل ہونے سے نہیں روکا۔ ضیاء الحق مرحوم کے زمانے میں افغان پناہ گزینوں کو کیمپوں تک محدود رکھنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ اِس کے نتیجے میں کراچی سمیت سندھ بھر میں افغان باشندوں کے ہاتھوں اچھی خاصی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ ملک بھر کی آبادی کی طرح افغان باشندے بھی بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں کراچی کا رُخ کرنے کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں وہ آزادانہ نقل و حرکت کرتے رہے ہیں۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے رفتہ رفتہ معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مختلف النوع جرائم میں بھی ملوث ہوتے چلے گئے۔ کراچی میں جرائم پر قابو پانے کے معاملے کو کبھی خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی۔ کراچی پولیس میں غیر مقامی افراد کی تعداد نمایاں ہے جس کے باعث شہرِ قائد کو حقیقی معنوں میں محفوظ اور پُرسکون بنانے کے حوالے سے خاطر خواہ لگن نہیں پائی جاتی۔ اب معاملات چونکہ بہت خطرناک شکل اختیار کرچکے ہیں اِس لیے مقامی انتظامیہ اور صوبائی بیورو کریسی کو کچھ ہوش آیا ہے۔ شہر کے متعدد علاقوں میں آباد غیر قانونی افغان تارکینِ وطن کی اکثریت مختلف پیشے اختیار کیے ہوئے ہے اور محنت کرکے کھاتی ہے؛ تاہم اُن میں موجود جرائم پیشہ عناصر معیشت کے ساتھ معاشرت اور قومی سلامتی کے لیے بھی انتہائی نوعیت کا خطرہ بن چکے ہیں۔ گزشتہ چند سال میں جرائم کے مقامی نیٹ ورکس میں افغان باشندوں کی تعداد خاصی بڑھی ہے۔ کراچی میں سرگرم جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھوں شہریوں کی جان پر بن آئی ہے۔ لوگ شدید عدمِ تحفظ کا شکار ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے اِس حوالے سے فیصلہ کن انداز کے آپریشن اب تک نہیں کرسکے۔ فیصلہ کن آپریشنز کی تیاری سے متعلق خبریں آنے سے جرائم پیشہ گروہوں میں بدحواسی بڑھ رہی ہے اور وہ مشتعل ہوکر اپنی طاقت منوانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ شہر بھر میں وارداتوں کی تعداد پریشان کن حد تک بڑھ گئی ہے۔ اس حوالے سے جس سیاسی عزم کی ضرورت ہے وہ اب تک دکھائی نہیں دیا ہے۔
غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے، بالخصوص ایسی حالت میں کہ وہ معیشت و معاشرت کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن گئے ہیں۔ کوئی بھی ملک اپنے ہاں غیر قانونی تارکینِ وطن کو ایسی حالت میں برداشت نہیں کرتا کہ وہ خطرے کا درجہ رکھتے ہوں۔ اس حوالے سے مربوط سوچ اور جامع و بے داغ پالیسی کے تحت ہمہ گیر نوعیت کی حکمتِ عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ شہر میں آباد غیر مقامی افراد کے عمائدین سے مشاورت کے ذریعے بہت کچھ طے کیا جاسکتا ہے تاکہ فیصلہ کن آپریشنز کے نتیجے میں شہر کسی بھی نوعیت اور درجے کے انتشار کا شکار نہ ہو۔ اس معاملے میں پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ہے‘ مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں