"MIK" (space) message & send to 7575

کبھی کبھار سمجھ میں بھی آئیے

انفارمیشن ٹیکنالوجی میں فقیدالمثال پیش رفت نے بہت گُل کھلائے‘ بڑے ستم ڈھائے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ انٹرنیٹ کی آمد کے نتیجے میں ہمارے حواس پر سوار ہو جانے والے سوشل میڈیا کے ہاتھوں کیا کیا دیکھنے کو مل رہا ہے، بلکہ یوں کہیے کہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ جھیلنا بھی پڑ رہا ہے۔ سوشل میڈیا آج ہماری زندگی کا حصہ ہیں اور حصہ بھی ایسا کہ سب کچھ اِس کے حوالے ہوگیا ہے۔ بیشتر معاملات میں سوشل میڈیا کو اِس قدر آگے بڑھنے کا موقع اس لیے ملا کہ متعلقین نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ لوگ سوشل میڈیا کی غلامی میں ہیں۔ جب ذہن کو سوچنے اور سمجھنے پر مائل کرنے کے بجائے محض تماشائی بنے رہنے پر اکتفا کیا جائے گا تو ایسا ہی ہوگا۔ سوشل میڈیا کی غلامی کے جو خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں وہ برآمد ہوچکے۔ چند برس پہلے تک صرف نئی نسل سوشل میڈیا کی غلام تھی۔ یہ فطری امر تھا کیونکہ عنفوانِ شباب میں انسان بہت دیکھنا، سمجھنا اور کرنا چاہتا ہے۔ خواہش اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ کچھ نہ کچھ نیا معلوم ہوتا رہے۔ ایسی حالت میں انسان جو کچھ بھی دیکھتا ہے اُس سے متاثر ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کا معاملہ تھا ہی اِتنا عجیب کہ نئی نسل کا اِس کے سحر میں مبتلا ہونا کسی بھی درجے میں حیرت انگیز تھا نہ غیر متوقع۔ نئی نسل دنیا کو زیادہ سے زیادہ اور تیزی سے دیکھنا، سمجھنا چاہتی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ایسا کرنا بہت آسان ہوگیا۔ مشکل مگر یہ ہے کہ نئی نسل سوشل میڈیا کی طرف کچھ زیادہ چلی گئی ہے۔ وہ اب نشے کی سی لت کا شکار ہے۔
معاملہ نئی نسل تک رہتا تو کوئی بات نہ تھی۔ یہ دُکھ تو ہم جھیل ہی جاتے، کوئی نہ کوئی راہِ تدارک نکال ہی لیتے مگر ستم بالائے ستم کہ بڑے بھی سوشل میڈیا کے اسیر ہوچکے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں کیا چھوٹے اور کیا بڑے‘ سبھی سوشل میڈیا کے اسیران میں شامل ہیں۔ شب و روز اِس طور گزر رہے ہیں کہ اُن پر کسی کا اختیار دکھائی نہیں دیتا۔ لوگ سمارٹ فون کی پیدا کردہ بھول بھلیوں میں ایسے گم ہیں کہ اب اُن کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔ وقت ہمیں اُس موڑ پر لے آیا ہے جہاں ہمارا اپنے وجود پر اختیار گھٹتا جارہا ہے۔ خارجی عوامل باطن پر یوں اثر انداز ہو رہے ہیں کہ بیشتر معاملات میں انسان صرف دیکھتا رہ جاتا ہے اور سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ یہ سب کچھ دن رات ہو رہا ہے اور اِس بات کے آثار بھی نہیں کہ تدارک کی کوئی صورت فوری طور پر نکل پائے گی۔ سوشل میڈیا کے ہاتھوں سب سے بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ انسان کو کچھ زیادہ جاننے کا ہَوکا ہوگیا ہے۔ لوگ بہت کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ کیوں؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ انسان کو کتنا جاننا چاہیے؟ بہت کچھ؟ یا اُتنا جتنا ضروری ہو؟ یہ کون طے کرے گا کہ کسی بھی انسان کو کتنا جاننا چاہیے؟ کیا لوگ یہ طے کرنے کو تیار ہیں؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے دوسرے سوال ذہنوں میں گردش کرتے رہتے ہیں اور جواب چاہتے ہیں۔
سوشل میڈیا کی مہربانی سے انسان ایسا بہت کچھ جانتا ہے جو اُس کے کسی کام کا نہیں۔ لوگ دنیا بھر کی پوسٹیں دیکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔ اُنہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ اُن کے ذہن میں کتنی باتیں داخل ہو رہی یا سوشل میڈیا کے ذریعے انڈیلی جارہی ہیں۔ ہمارے ذہن معلومات کو ایک حد تک ہی ہضم کرسکتے ہیں۔ اگر اِن میں بہت کچھ داخل ہوتا رہے تو دھیرے دھیرے اِس کی حیثیت کباڑ خانے کی سی ہو جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کا حصول چونکہ بہت آسان ہے اِس لیے ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ ذہن میں کتنا کچھ جارہا ہے۔ یہ سب کچھ یونہی تو بیٹھا نہیں رہتا بلکہ ذہن میں کلبلاتا رہتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں ایسا بہت کچھ ہوتا رہتا ہے جو ہمارے کسی کام کا نہیں ہوتا بلکہ اُلٹا نقصان پہنچاتا ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ذہن میں موجود فضول معلومات ہماری سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت پر بُری طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ معلومات ہمیں کسی بھی معاملے میں معیاری فیصلوں تک پہنچنے سے روکتی ہیں۔ بعض معاملات میں ہمیں تیزی سے معقول و معیاری فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ ذہن فضول باتوں سے بھرا ہوا ہو تو انسان درست وقت پر درست فیصلہ نہیں کر پاتا اور یوں موقع ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اور حرج واقع ہوتا ہے۔
آج ایسے لوگوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے جو سوشل میڈیا کی مہربانی سے بہت کچھ جاننے بعد ''علامہ گیری‘‘ پر اُتر آئے ہیں۔ اِس بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا آئن سٹائن ہونا لازم نہیں کہ جب انسان کچھ جانتا ہے تو یہ بتانے کے لیے بھی بے تاب ہوتا ہے کہ وہ جانتا ہے۔ بہت سے غیر متعلق معاملات کے بارے میں حاصل کی ہوئی معلومات کو ہضم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ایسے میں انسان چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طور وہ معلومات دوسروں کے گوش گزار کرکے اپنے ذہن و دل کا بوجھ کم کرے۔ اِس کا نتیجہ خالص علامہ گیری کی صورت میں برآمد ہوتا ہے یعنی انسان بضد ہوتا ہے کہ اُس سے کچھ سنا اور سیکھا جائے۔ جب ذہن میں بہت سی فضول یا غیر متعلق معلومات بھری ہوں تو انسان اُنہیں ترتیب سے نہیں رکھ سکتا اور معقول نتائج بھی اخذ نہیں کرسکتا۔ ایسے میں اُس کے پاس لے دے کر صرف یہ آپشن بچتا ہے کہ کسی نہ کسی طور دوسروں کو اُن سے ''مستفید‘‘ کرے اور اپنے آپ کو ''عالم العصر‘‘ ثابت کرے۔ دس‘ پندرہ سال پہلے معاملہ یہ تھا کہ لوگ ٹی وی نیوز چینلز پر حالاتِ حاضرہ کے پروگرام دیکھ دیکھ کر خود کو علامہ سمجھ بیٹھتے تھے اور از خود نوٹس کے تحت سب کو اپنی حاصل کردہ ''معلومات‘‘ سے مستفید کرنے نکل پڑتے تھے۔ ایسے لوگ ایک بار شروع ہوجاتے تو پھر رُکنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ لوگ اُنہیں de-activate کرنے کا بٹن ڈھونڈتے رہ جاتے تھے! آج معاملہ یہ ہے کہ لوگ دن رات سوشل میڈیا کی بانہوں میں جھولتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کی جانے والی پوسٹیں دیکھ دیکھ کر لوگ از خود نوٹس کے تحت یہ طے کرلیتے ہیں کہ اب وہ چونکہ بہت کچھ جان گئے ہیں اِس لیے دوسروں کو بھی کچھ معلوم ہونا چاہیے۔ ہر طرح کی فضول اور غیر متعلق معلومات سے دوسروں کو بہرہ مند کرنے کی دُھن میں لوگ جب ''لب کُشا‘‘ ہوتے ہیں تو ع
وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی
والی کیفیت پیدا ہو رہتی ہے۔ ایسے میں ''علم و فضل‘‘ کا ایسا دریا بہتا ہے کہ بہت سے سامعین یوں غرقاب ہوتے ہیں گویا تاریک راہوں میں مارے گئے ہوں۔ کچھ جان لینے کے بعد دوسروں کو بتانے کا ہَوکا بعض لوگوں میں اس قدر ہوتا ہے کہ روکے سے بھی خود کو نہیں روک پاتے اور یوں اُن کے ہاتھوں بہت سوں کی سماعتوں کا تیا پانچا ہوکر رہتا ہے۔ آج ہمارے ماحول میں ایسے لوگ کم نہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سی متعلق اور غیر متعلق معلومات اخذ کرتے ہیں اور پھر ''شکار‘‘ پر نکل پڑتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ اُنہوں نے جان لیا ہے وہ دوسرے بھی جان لیں۔ اُنہیں اِس بات سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ کوئی اُن کی طرف سے فراہم کی جانے والی ''چشم کُشا‘‘ معلومات حاصل اور ہضم کرنے کا خواہش ہے بھی یا نہیں ؎
دریا کو اپنی موجوں کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
فی زمانہ وقت سے زیادہ قیمتی چیز کوئی نہیں اور المیہ یہ ہے کہ لوگ وقت ہی کو سب سے بڑھ کر ضائع کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کی فضول یعنی غیر متعلق معلومات ذہن میں بھر کر خطابت کا شوق پورا کرنے والوں کو سمجھایا نہیں جاسکتا کہ ؎
سو فلسفوں کی دُھول بصد شوق اُڑائیے
لیکن کبھی کبھار سمجھ میں بھی آئیے
''شکاریوں‘‘ کو پند و نصائح کے ذریعے شکار سے روکا نہیں جاسکتا۔ صیّاد سے بچنے کا اہتمام صید یعنی شکار کو خود ہی کرنا ہوتا ہے۔ از خود نوٹس کے تحت علامہ کے منصب پر فائز ہونے والوں سے ہوشیار کہ یہی ہیں جو آپ کا وقت اور زندگی‘ دونوں برباد کرنے کے ''مشن‘‘ پر ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں