امکانات کا افق وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ امکانات یعنی وہ سب کچھ جو کیا جاسکتا ہے۔ آج کیا ہے جو نہیں کیا جاسکتا؟ انسان وہاں کھڑا ہے جہاں کچھ بھی ناممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ زندگی کا پورا ڈھانچا ہی تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ کل تک جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا وہ آج ہماری زندگی کا حصہ ہے اور حصہ بھی ایسا کہ اسے زندگی سے الگ کرنے کا تصور بھی نہ کیا جاسکے۔
قدم قدم پر ورطۂ حیرت میں ڈالنے والی مادّی ترقی یقینی بنائی جاچکی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب تو کسی بات پر حیرت بھی نہیں ہوتی۔ ڈیڑھ‘ دو صدیوں قبل جن سہولتوں کا تصور تک نہ کیا جاسکتا تھا اور جو جادوئی دنیا کا حصہ معلوم ہوتی تھیں وہ آج ہماری زندگی کا حصہ ہیں مگر ہمیں برائے نام حیرت نہیں ہوتی۔ جو کچھ زندگی میں شامل ہو جائے اُس پر حیرت کیسی؟ کوئی معاملہ کتنا ہی بڑا ہو، جب معمولات کا حصہ بن جاتا ہے تو اُس کا بڑپّن زیادہ حیران نہیں کرتا۔ آج مادّی ترقی کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ زندگی میں اِتنی زیادہ سہولتیں ہیں کہ اب ہم نے سہولتوں کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ علم و فن کے مختلف شعبوں میں ڈھائی‘ تین ہزار سال کی محنتِ شاقّہ کا نتیجہ آج ہر انسان کے سامنے ہے اور حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ بعض سہولتیں تھیں تو سہی مگر سب کے لیے نہیں۔ اُنہیں صرف اشرافیہ ہی حاصل کرسکتی تھی۔ آج معاملہ یہ ہے کہ اشرافیہ کا کوئی رکن جس طیارے میں سفر کرتا ہے اُسی طیارے میں ٹھیلے پر پھل بیچنے والا بھی سفر کرسکتا ہے۔
ہم اُس عجیب موڑ پر کھڑے ہیں جہاں سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے اور ہم سمجھ بھی رہے ہیں مگر حیران کن بات یہ ہے کہ بہت کچھ سمجھ میں بالکل نہیں آ رہا۔ ہر انسان کی زندگی کا مادّی پہلو سلجھ گیا ہے، آسان ہوگیا ہے مگر روحانی پہلو شدید الجھن کا شکار ہے، اضطراب میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ڈھائی‘ تین سو سال پہلے کے کسی انسان کو آج کی دنیا کا نظارہ کرایا جائے تو وہ ایسی شاندار مادّی ترقی دیکھ کر ششدر رہ جائے گا اور یہ سمجھے گا کہ اُسے کسی جادو نگری میں نئی زندگی بخشی گئی ہے! کیا ایسا انسان آج کی دنیا میں بسنے والوں کو خوش نصیب نہیں گردانے گا کہ اُنہیں ایسی شاندار مادّی ترقی سے مستفید ہونے کا موقع ملا ہے؟ یقینا وہ ایسا ہی سوچے گا۔ یہ تو ہوا تصویر کا ایک رُخ۔ معاملہ یہ ہے کہ آج کا انسان جہاں بہت سے معاملات میں غیر معمولی سہولتوں کا حامل ہے وہیں اُس کی زندگی میں بہت سی ایسی پیچیدگیاں بھی ہیں جن کا گزرے ہوئے زمانوں کے انسانوں نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ حق تو یہ ہے کہ چار‘ پانچ عشروں پہلے کے انسان بھی بہت سی ایسی سہولتوں کے بارے میں زیادہ اندازہ نہیں لگا پاتے تھے جو آج ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ آج جو لوگ 70 یا 80 سال کے ہیں اُن کی آنکھوں کے سامنے دنیا ایسی بدلی ہے کہ وہ خود بھی کبھی کبھی یقین نہیں کر پاتے۔ ذرا سوچئے کہ ڈھائی‘ تین سو سال پہلے کے کسی آدمی کو آج کی دنیا کی سیر کرائی جائے تو اُس کا کیا حال ہوگا۔
شاندار بلکہ فقیدالمثال مادّی ترقی کیا ہے؟ صرف نعمت؟ ایسا دکھائی تو نہیں دیتا۔ معمولاتِ زندگی کو آسان سے آسان تر بنانے والی اشیا و خدمات کی کمی نہیں۔ آج ہمیں ایسا بہت کچھ میسر ہے جو ہماری معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں میں آسانی یقینی بناتا ہے۔ رابطے محض آسان نہیں ہوئے ہیں بلکہ زندگی کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں۔ آج ہر انسان چوبیس گھنٹوں میں سے ہر پل قابلِ رسائی ہے یعنی اُس سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں ایسی سہولت کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ المیہ یہ ہے کہ جن آسانیوں پر فدا ہو جانے کو جی چاہتا ہے اُنہی آسانیوں نے زندگی کو مشکل بنا ڈالا ہے۔ آج ہر انسان الجھے ہوئے ذہن کیساتھ جی رہا ہے۔ اس معاملے میں وہ مجبورِ محض ہے یعنی معاملات کی پیچیدگی پر اُس کا بس نہیں چلتا۔ ایک لہر ہے جس میں وہ بہتا چلا جارہا ہے۔ اُس کا اپنے بیشتر معاملات پر کچھ زیادہ اختیار باقی نہیں رہا۔
ہر دور کے انسان کو ماحول نے شدید الجھنوں سے دوچار رکھا ہے۔ جو کچھ خارجی یعنی حقیقی دنیا میں رونما یا واقع ہوتا ہے وہ باطنی دنیا پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ نفسی یا فکری ساخت بھی حملوں کی زد میں رہتی ہے۔ ماحول میں جو کچھ بھی ہو رہا ہوتا ہے وہ فکری ساخت کا حصہ بنتا جاتا ہے اور انسان اِس معاملے میں کچھ خاص نہیں کر پاتا۔ ہم بہت سی چیزوں کے اثرات لاشعوری سطح پر قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم کسی معاملے میں ایسے ردِعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ کچھ دیر بعد خود ہمیں بھی حیرت ہوتی ہے کہ کیا واقعی یہ ہمارا ردِعمل تھا! ایک صدی پہلے کا انسان بہت حد تک خوش نصیب تھا کہ اُس کے وقت پر اُس کا اجارہ تھا۔ وہ خاصی نمایاں حد تک اپنی مرضی سے زندگی بسر کرسکتا تھا اور کرتا تھا۔ 1950ء یا 1960ء کے عشرے تک بھی معاملات ایسے الجھے ہوئے نہیں تھے کہ انسان گھن چَکّر ہو کر رہ جاتا۔ اِن دو عشروں کے جو لوگ آج زندہ ہیں وہ سوچتے تو ہوں گے کہ تب اُن کی زندگی میں کچھ خاص دردِ سر نہیں تھے اور ماحول مجموعی طور پر بہت پُرسکون تھا۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ دو‘ ڈھائی سو سال پہلے کے انسان کی زندگی میں بہت سی مشکلات کے باوجود کس قدر سکون رہا ہو گا۔ ہر عہد کے لوگ اپنے متعلقہ ماحول کے مطابق جیتے رہے ہوں گے۔ تب اگر چند مشکلات تھیں تو سب کے لیے تھیں۔ جب کوئی مشکل سب کے لیے ہوتی ہے تو مشکل نہیں رہتی کیونکہ یہ سوچ کر دل کو قرار آ ہی جاتا ہے کہ تقدیر نے کوئی ظلم نہیں ڈھایا، کسی کو رعایت نہیں دی، سب کو ایک معیار پر رکھا ہے۔
آج کی زندگی کو کیا کہا جائے گا؟ آسانیوں کا مرقّع؟ یا مشکلات کا انبار؟ فی زمانہ ہر انسان بیشتر معاملات میں الجھا ہوا ہے۔ الجھن ذہنی سطح پر ہے۔ شاندار مادّی ترقی نے ہوس بھی بڑھادی ہے۔ انسان کو ڈھنگ سے جینے کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ اُس سے کہیں زیادہ کا خواہش مند ہے۔ ہر عہد کا انسان ایسا ہی تھا مگر اب یہ معاملہ بڑھتے بڑھتے ذہنی مرض کی حدود میں داخل ہوچکا ہے۔ یہ بات سمجھنے میں آج کے انسان نے شدید غلطی کر دی ہے کہ ماحول میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ سب کا سب اُس کا یا اُس کے لیے نہیں ہوتا۔ ہر گھر میں چند بنیادی چیزیں ہونی چاہئیں جن سے زندگی آسان ہو مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سوچے سمجھے بغیر گھر بھی بہت کچھ بھرلیا جائے۔ ایسی حالت میں تو ڈھنگ سے جینے کی گنجائش برائے نام بھی نہیں رہتی۔ زندگی کو آسان اور پُرسکون بنانے کا تعلق مادی ترقی سے نہیں بلکہ فکری ارتقا سے ہے۔ آپ نے ایسے بہت سے گھر دیکھے ہوں گے جن میں آسائش کی اشیا کم ہوتی ہیں مگر زندگی کا سفر خاصے پُرسکون انداز سے طے ہو رہا ہوتا ہے جبکہ دوسری بہت سے گھر دنیا بھر کی اشیا و خدمات سے بھرے پُرے ہوکر بھی کسی بھی درجے میں پُرسکون زندگی کے حامل قرار نہیں دیے جاسکتے۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُرسکون بنانے کا تعلق بنیادی طور پر اِس امر سے ہے کہ ہم زندگی کے بارے میں کس نوعیت کی طرزِ فکر و عمل کے حامل ہیں۔ زندگی کو نعمت سمجھنے کی صورت میں انسان جو کچھ کرتا ہے وہ اُس انسان کے اعمال سے بہت مختلف ہوتا ہے جو زندگی کو بوجھ سمجھتا ہے۔ جگرؔ مراد آبادی نے کہا تھا ؎
یہ عشق نہیں آساں بس اِتنا سمجھ لیجے
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
بہت سوں کے نزدیک آج کی زندگی بھی آگ کا دریا ہے اور اِس میں ڈوب کے آگے بڑھنا ہے۔ ایک خاص تناظر میں یہ بات بہت حد تک درست ہے؛ تاہم ہر معاملے میں زندگی کو بوجھ سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ جو کچھ بھی میسر ہے اُس کے ذریعے اپنی مرضی کی زندگی کشید کرنا ہی تو اصل ہنر ہے۔ جس نے یہ ہنر سیکھا وہ آگ کے دریا سے کامیاب پار ہوا۔