"MIK" (space) message & send to 7575

کشاکش ہی کیوں؟

آج کی زندگی بیشتر کے لیے محض دردِ سر ہے۔ جنہیں ہر وقت شکوہ کُناں رہنے کی عادت پڑچکی ہو وہ ہر معاملے میں گِلے شکوے کرنے کی گنجائش نکال ہی لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انسان کو ہر وقت رونے کی عادت پڑتی ہی کیوں ہے۔ کیا گِلے شکوے کرتے ہوئے زندگی بسر کرنا لازم ہے؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ سوال کہ کیا اس طور بسر کی جانے والی زندگی کو حقیقی معنوں میں زندگی قرار دیا جاسکتا ہے۔ آج ہم میں سے بیشتر کے لیے زندگی محض جبر، جدوجہد، دباؤ اور کشاکش یعنی کھینچ تان کا نام ہے۔ مگر ایسا کیوں ہے؟ لوگ زندگی بھر ذہنی دباؤ کا رونا روتے رہتے ہیں۔ حالات کے بارے میں اُن کی زبان تک کبھی چند اچھے جملے نہیں آتے۔ جہاں چند افراد مل بیٹھتے ہیں‘ حالات کا رونا رونے لگتے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ حالات کسی کے لیے موافق نہیں؟ کیا واقعی حالات نے ہر انسان کو گھن چکّر بنا رکھا ہے؟ کیا زندگی نے کسی کے لیے معقول آسانی پیدا نہیں کی؟ یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے سوال ہر اُس انسان کے ذہن میں کلبلاتے رہتے ہیں جو معقول طرزِ زندگی یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ ہو، سوچتا ہو، منصوبہ سازی کرتا ہو۔ عمومی سطح پر لوگ حالات کا رونا روتے رہنے کو زندگی کا حاصل اور مقصد سمجھ بیٹھے ہیں۔ بیشتر کے ذہنوں میں یہ بے بنیاد تصور پایا جاتا ہے کہ کسی بھی مسئلے کو محض بیان کردینا کافی ہوتا ہے اور یہ بھی کہ ایسا کرنے سے اُس کے حل کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ عمومی یومیہ گفتگو میں حالات اور مسائل کا رونا رونے سے زندگی کے لیے کوئی آسانی پیدا نہیں ہوتی۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ عمومی یومیہ گفتگو میں لوگ اُنہی مسائل کا ذکر کرتے ہیں جو مشترکہ ''ورثہ‘‘ ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا رونا عام ہے جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ یہ مسائل سبھی کے لیے یکساں ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم سب جن مسائل سے دوچار ہیں اُنہی کا بار بار ذکر کرکے ایک دوسرے کو مزید پریشان کرتے رہتے ہیں!
آج ہمیں زندگی بہت مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری سوچ غلط ہے۔ بالکل نہیں! زندگی واقعی مشکل ہو چکی ہے۔ ہر طرف سے اس قدر دباؤ ہے کہ ڈھنگ سے سانس لینا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ مسائل کی تعداد اور پیچیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان پر ڈھنگ سے جینے کی منصوبہ سازی کے معاملے میں دباؤ اِس طور بڑھ رہا ہے کہ وسائل خواہ کتنے ہوں‘ کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تو ہم نے مانا کہ آج کی زندگی بہت مشکل ہے مگر صاحب! سوچئے کہ زندگی کب آسان تھی۔ کب ایسا تھا کہ کوئی بھی انسان بہت مزے سے اپنی مرضی کے مطابق جی لیتا تھا؟ گزرے ہوئے بیسیوں زمانوں میں سے ہر ایک کے مسائل الگ نوعیت کے تھے۔ ہر عہد اپنے ساتھ بہت سی آسانیاں اور بہت سی مشکلات لاتا رہا ہے۔ مادّی ترقی کا دائرہ ہر دور میں وسعت اختیار کرتا رہا ہے۔ انسان نے فطری علوم و فنون میں پیش رفت یقینی بنانے کی تگ و دَو کبھی ترک نہیں کی۔ ہزاروں برس کے عمل میں کروڑوں انسانوں کی اِس تگ و دَو ہی کے نتیجے میں آج ہم انتہائی پُرآسائش زندگی بسر کرنے کے قابل ہو پائے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہم نے زندگی کو آسان بنانے والے تمام وسائل کو مشکلات پیدا کرنے والے وسائل میں تبدیل کرلیا ہے۔ یہ سب کچھ اپنی مرضی سے ہوا ہے یعنی ملبہ محض حالات پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا۔ آج کی زندگی میں کھینچ تان بہت ہے۔ یہ کشاکش بڑھتی ہی جارہی ہے۔ یہ بھی فطری امر ہے کیونکہ وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ دنیا کی آبادی بڑھ گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں وسائل پر دباؤ بڑھنے کے ساتھ ساتھ فکر و نظر کی کجی اور پیچیدگی بھی بڑھی ہے۔ آج ذہن بہت زیادہ الجھے ہوئے ہیں اور یہ الجھن بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اگر کوئی سوچنے اور سمجھنے کے لیے تیار نہ ہو یا منفی طرزِ فکر کا حامل ہو تو یہ سب کچھ اُس کے لیے زندگی بھر سوہانِ روح بنا رہ سکتا ہے۔
اب ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان ایسا کیا کرے جس کے نتیجے میں زندگی آسان ہو۔ سبھی چاہتے ہیں کہ ڈھنگ سے جینا ممکن ہو، ہر طرح کا سکھ چین نصیب ہو۔ یہ سب کچھ محض خواہش کرلینے سے ممکن نہیں ہو جاتا۔ زندگی میں پائی جانے والی ساری کشاکش محض حالات کی پیدا کردہ نہیں۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ قدرت کے اصولوں کے منافی ہے۔ قدرت کسی کے لیے بے جا تکلیف کا اہتمام نہیں کرتی۔ انسان کا ایک انتہائی بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ اپنے معاملات بگاڑ کر حالات کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بس اِتنا کرلینا کافی ہے، زندگی کو آسان بنانے کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں! زندگی اپنے آپ میں مشکل ہے نہ آسان۔ ہر انسان کو قدرت کی طرف سے ایسا بہت کچھ عطا ہوتا ہے جس کی مدد سے وہ اپنے لیے آسانیوں کا اہتمام کرسکتا ہے۔ دوسری طرف یوں بھی ہے کہ قدرت کی عطا و بخشش کی ناقدری کے نتیجے میں انسان اپنے لیے ایسے حالات پیدا کرتا ہے جو اُسے صرف تباہی تک پہنچاتے ہیں۔ ایسے میں زندگی کی مشکلات اور بحرانوں کے حوالے سے زیادہ رونا رونے کی گنجائش نہیں۔ ہر انسان کو قدرت کی طرف سے یہ اختیار تو بخشا ہی گیا ہے کہ وہ اپنے لیے اپنی پسند کا راستہ منتخب کرے۔ وہ چاہے تو مشکلات سے آسانی کشید کر سکتا ہے اور نہ چاہے تو آسانیاں بھی مشکلات میں بدل سکتا ہے۔
کسی بھی معاشرے کو آگے بڑھنے کا راستہ اُس وقت ملتا ہے جب وہ اپنا احتساب کرتا ہے، اپنی کوتاہیوں کو شناخت کرکے اُنہیں دہرانے سے گریز کرتا ہے اور کچھ ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اُس کی لیاقت بھی بڑھے اور جوش و خروش یعنی کام کرنے کی لگن میں بھی اضافہ ہو۔ کیا پاکستانی معاشرہ اس وقت ایسا ہے؟ افسوس کہ ایسا نہیں ہے! ہم زمانے بھر کی نفسی پیچیدگیوں اور بُری عادتوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ متعدد معاملات میں لیاقت و استعداد ہونے پر بھی کچھ خاص نہیں کر پارہے کیونکہ زندگی میں نظم و ضبط کا فقدان ہے، منصوبہ سازی کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ کامیابی ترتیب سے ملتی ہے‘ انتشار سے نہیں۔ جن کے ذہن ترتیب سے ہم کنار ہوں وہی سوچ سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں۔ ذہن کا انتشار بنتے کام بھی بگاڑ دیتا ہے۔ زندگی کسی بھی انسان کے لیے دردِ سر ہے نہ کشاکشِ بے جا۔ زندگی تو بلیک بورڈ کے مانند ملتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کی زندگی کے بلیک بورڈ پر آج جو کچھ بھی لکھا ہوا ہے وہ متعلقہ فرد کا اپنا لکھا ہوا ہے۔ اگر کسی کی زندگی میں صرف الجھنیں ہیں، کھنچ تان ہے تو یہ سب اُس کا اپنا کیا دھرا ہے۔ ماحول چاہے جیسا بھی ہو، سب کے لیے کچھ نہ کچھ مواقع ضرور پیدا کرتا ہے۔ کسی بھی اچھے موقع کو شناخت کرنا ہوتا ہے تاکہ اُس سے کماحقہٗ استفادہ کیا جا سکے۔ کسی بھی صورتِ حال میں سب کچھ ناموافق نہیں ہوتا۔ تخریب کے بطن سے تعمیر کی صورت بھی نکلتی ہے۔ دنیا میں آج تک یہی ہوتا آیا ہے۔
ہم جس عہد میں زندہ ہیں اُس کے کئی پہلو بہت پیچیدہ ہیں۔ آج تیزی بہت ہے۔ جدت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ گزرے ہوئے کسی بھی زمانے کے مقابلے میں آج کے انسان پر تبدیل ہونے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ہے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ تبدیل نہ ہونا آپشن ہے ہی نہیں۔ یہ تو سراسر موت ہے‘ تباہی ہے۔ جن معاشروں نے اپنا آپ تبدیل نہیں کیا، بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت رکھنے والی طرزِ زندگی اپنانے کی طرف نہیں گئے اُنہیں آج ہم انتہائی قابلِ رحم حالت میں دیکھ رہے ہیں۔ ایسے معاشروں کے لیے ہر معاملے میں انتہائی نوعیت کی کھینچ تان مقدر بن چکی ہے۔ عالمی برادری میں ایسے معاشرے کہیں نہیں کھڑے۔ زندہ معاشروں میں کھینچ تان مثبت نوعیت کی ہوتی ہے یعنی بخوشی اپنائی جاتی ہے اور مثبت سوچ کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ہم زندگی کو جدوجہد سمجھیں یا نہ سمجھیں، یہ جدوجہد ہی ہے۔ اِس میں کھینچ تان بھی ہے اور اکھاڑ پچھاڑ بھی۔ ہمیں اِن صبر و ہمت آزما حقیقتوں کے ساتھ ہی زندگی بسر کرنی ہے۔ اور یقین جانیے کہ جینے کا سارا لطف اِس کشاکش ہی میں پوشیدہ ہے بشرطیکہ ہم سوچ مثبت رکھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں