معاشرے یک نسلی بھی ہوتے ہیں اور کثیر النسلی بھی۔ کسی بھی معاشرے کے مسائل کا مدار اِس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کتنے اور کیسے لوگوں سے مل کر بنا ہے۔ کثیر النسلی معاشرے پیچیدہ ہوتے ہیں کیونکہ اُس میں سوچ کا فرق بہت پایا جاتا ہے۔ ایسے معاشروں میں اہم ترین معاملات پر کامل اتفاقِ رائے بہت مشکل سے پیدا ہو پاتا ہے۔ نسلوں کے مزاج کا فرق سوچ سے بھی ظاہر ہوتا ہے اور عمل کی سطح پر بھی یہ چھپتا نہیں۔
معاشرے جب پنپتے ہیں تو قوم میں تبدیل ہوتے ہیں۔ قوم کا وجود ریاست کو جنم دیتا ہے اور یوں ایسے باضابطہ، مضبوط اور منظم معاشرے معرضِ وجود میں آتے ہیں جو صرف باصلاحیت ہی نہیں ہوتے بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار بھی لاتے ہیں۔ ایسے معاشرے اپنی جغرافیائی، نظریاتی، اخلاقی اور تہذیبی حدود کا تحفظ یقینی بنانے کے معاملے میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ صلاحیت اور سکت تمام معاشروں میں ہوتی ہے۔ فرق پیدا ہوتا ہے صلاحیت و سکت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے سے۔ ہر کامیاب معاشرے میں آپ کو نظم و ضبط اور قانون کی عمل داری و پاس داری بہت نمایاں دکھائی دے گی۔ نظم و ضبط کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی صورت میں منظم اور ٹھوس سوچ پروان چڑھتی ہے۔
ہر عہد میں متعدد معاشرے بند گلی سے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر ناکام معاشرہ بند گلی کی طرح ہی ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں کا حصہ گردانے جانے والے لوگ اپنے آپ کو بند گلی میں محسوس کرتے ہیں، اُن کے فکر و عمل میں گھٹن کا احساس صاف دکھائی دیتا ہے۔ وہ قدم قدم پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی اُنہیں روک رہا ہے، کوئی دیوار ہے جو دکھائی تو نہیں دے رہی؛ تاہم موجود ہے اور پیش رفت سے روک رہی ہے۔ ترقی کے لیے درکار جدوجہد اور پیش رفت تو بہت دور کا معاملہ رہا، ایسے معاشروں کے لوگ عمومی یعنی گزارے کی سطح پر بھی جینے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوتے۔
بند معاشروں کو ناکام بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ ناکامی ہی تو ہے کہ کسی معاشرے سے وابستہ افراد کم و بیش ہر معاملے میں خود کو زنجیروں میں جکڑا ہوا پائیں۔ ایسے معاشروں میں صلاحیت و سکت کو برباد ہوتے دیر نہیں لگتی۔ جب ماحول میں مختلف النوع گھٹن پائی جاتی ہو تو کام کرنے، کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کی لگن کا گراف گرتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں عام آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ خواہ مخواہ جی رہا ہے کیونکہ زندگی کا کوئی واضح مقصد دکھائی نہیں دیتا اور اگر کوئی کسی نہ کسی طور اپنے لیے کسی مقصد کا تعین کر بھی لے تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اُس مقصد کا حصول بنانے کی تگ و دَو کیسے کی جائے۔ مختلف ادوار میں معاشرے ناکامی سے دوچار ہوکر بند گلی کی سی حیثیت بھی اختیار کرتے رہے ہیں اور بند گلی میں پھنسے ہوئے محسوس ہونے والے معاشروں نے اپنے آپ کو دوبارہ زندہ کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔ سوال عزم اور تگ و دَو کا ہے۔ ہاں‘ کسی بھی پسماندہ یا ناکام معاشرے میں عزم کی بحالی اور تگ و دَو کے لیے لگن کا پیدا کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے کیونکہ قدم قدم پر ایسے افکار و تصورات پائے جاتے ہیں جو اصلاح کی کوشش کرنے والوں کی راہ مسدود کرنے پر کمر بستہ دکھائی دیتے ہیں۔ الجھنوں اور ناکامیوں سے دوچار معاشروں میں معقول انداز سے جینے کی کوشش کرنے والوں کی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی عام ہے۔ جن کے جذبے سرد پڑچکے ہوتے ہیں وہ اصلاح کی کوشش کرنے والے ہر انسان کی حوصلہ شکنی کو اپنا سب سے بڑا فریضہ سمجھتے ہیں۔ ایسے ماحول میں ڈھنگ سے کچھ بھی کرنا انتہائی درجے کی آزمائش کے درجے میں ہے۔
اپنے معاشرے کو آپ کہاں دیکھتے ہیں؟ کیا ہمارا معاشرہ بند گلی جیسا نہیں؟ حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ مان لیا جائے کہ ہم بند گلی کا معاشرہ ہیں۔ آج ہمارے ہاں بھی معقول انداز سے زندگی بسر کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ اول تو ڈھنگ سے جینے کا عزمِ مصمم یقینی بنانا انتہائی دشوار ہے۔ دوسرا‘ یہ کہ اگر کوئی اس مرحلے سے گزر بھی جائے تو اُسے سراہنے والے برائے نام ہیں۔ مدد کرنے والے تو اور بھی کم ہیں۔ اکثریت ''جیسا ہے، جہاں ہے‘‘ کی بنیاد پر زندگی بسر کرنے کی عادی ہوچکی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ کچھ بھی تبدیل نہ ہو اور زندگی کسی نہ کسی طور بسر کی جاتی رہے۔ جب کچھ بھی تبدیل نہیں ہوتا تب جمود کی گہرائی و گیرائی خطرناک بلکہ تباہ کن حد تک بڑھ جاتی ہے۔
ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ معاشرے بند گلی سے کس طور نکلتے ہیں۔ ہم اپنے معاشرے کو دیکھ کر سمجھ سکتے ہیں کہ اصلاحِ احوال کا عمل کتنا پیچیدہ، طویل اور صبر آزما ہوسکتا ہے۔ آج کا ہمارا معاشرہ جہاں کھڑا ہے وہاں سے دو چار قدم آگے بڑھنا بھی انتہائی دشوار ثابت ہو رہا ہے۔ ایسے میں یہ کس طور فرض کرلیا جائے کہ ہم کبھی اُن معاشروں کے ساتھ کھڑے ہوسکیں گے جو ہم سے سینکڑوں قدم آگے ہیں؟ آج ہمیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ زندگی محض تھم نہیں گئی بلکہ ختم ہی ہوچکی ہے۔ خیالات پر انجماد طاری ہے۔ عمل کا جذبہ ماند پڑچکا ہے۔ تاریکی گہری ہوتی جارہی ہے اور روشنی کا ہر منبع اپنی سکت کھو رہا ہے۔ یہ سب کچھ انتہائی مایوس کن ہے۔ کسی بھی معاشرے کے لیے نئی نسل ہی سب کچھ ہوتی ہے کیونکہ اُسی سے تمام امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔ اگر وہی مایوسی میں مبتلا ہوجائے تو؟ پھر تو اصلاحِ احوال کے لیے کچھ کرنا تو چھوڑیے، سوچنا بھی محال ٹھہرے گا۔ معاشرے بند گلی سے کیسے نکل پاتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے آپ کو تاریخ کا ریکارڈ کھنگالنا پڑے گا، پسماندہ معاشروں کے بارے میں پڑھنا پڑے گا، اُن کی پستی کے اسباب سمجھنا ہوں گے اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ خود تبدیل ہوئے یا کسی اور معاشرے نے اصلاحِ احوال کی حقیقی گنجائش پیدا کی۔ تاریخ شاہد ہے کہ معاشرے اپنے ہی ہاتھوں تباہ ہوتے ہیں اور پھر اپنے ہی ہاتھوں بحالی اور احیا کی طرف آتے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ جب انتہائی پستی کا شکار ہوتا ہے تب اُسی کے اندر سے چند قوتیں ابھرتی ہیں جو جمود کو توڑنا چاہتی ہیں، کچھ کر دکھانے اور اصلاحِ احوال کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو بے تاب ملتی ہیں۔ اقوامِ عالم کا ڈھائی‘ پونے تین ہزار سال کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ جب بھی کوئی معاشرہ پستی کی شرمناک حدوں کو چھوتا ہے تب اُسی کے اندر سے ایسے لوگ ابھرتے ہیں جو جمود کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور فکر و عمل کی سطح پر نئے جذبے اور لگن کے ساتھ کچھ کرنے کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے کو پستی سے نکالنے کے لیے سب سے پہلے تو اُن حالات سے شدید بیزاری کا پیدا ہونا لازم ہے جن کے ہاتھوں وہ معاشرہ جمود اور پیچیدگیوں کا شکار ہے۔ بیزاری کی نوعیت اور شدت ہی طے کرتی ہے کہ اصلاحِ احوال کے لیے درکار جذبہ کس حد تک پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ معاشرے کو بند گلی سے نکالنے میں کلیدی کردار اہلِ دانش کا ہے۔ جنہیں قدرت نے سمجھنے اور سوچنے کی لیاقت اور لگن عطا فرمائی ہے وہ جب اپنے فریضے کو پہچانتے ہوئے آگے آتے ہیں اور خالص مادّی منفعت کی سطح سے بلند ہوکر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تب بند گلی سے باہر نکلنے کی راہ دکھائی دیتی ہے۔ عہدِ جدید میں اگر یورپی معاشروں کی تاریخ پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ وہاں جب جمود حد سے گزر گیا، مذہبی پیشواؤں نے اپنی تجوریاں بھرنے کے عمل میں بادشاہوں تک کو نہ بخشا تب اہلِ دانش سامنے آئے۔ جب اہلِ علم و فن نے اپنی ذمہ داری محسوس کی تب کچھ کر گزرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ پانچ صدیوں کے دوران یورپی معاشروں میں ایسے ہزاروں اہلِ دانش پیدا ہوئے جنہوں نے ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر اصلاحِ احوال کے لیے اپنی زندگیاں وقف کیں اور سوئے ہوؤں کو جگاکر ہی اِس دنیا سے رختِ سفر باندھا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جن سے اجتماعی اصلاحِ احوال کے لیے کوئی بڑا کردار مطلوب ہے وہ سطح نوعیت کی مادّہ پرستی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں ع
جانے اِس قید سے اب کیسے نکلنا ہو گا