وقت کا کام گزرنا ہے‘ گزرتا جا رہا ہے۔ اس کی قلت کا احساس بھی عام ہوتا جارہا ہے۔ چار‘ پانچ عشرے قبل تک زندگی خاصی پُرسکون یعنی سست رفتار تھی۔ کسی بھی معاملے میں بے جا تیزی کو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ زور معیار پر دیا جاتا تھا‘ مقدار پر نہیں۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ وقت زیادہ لگتا ہو تو لگ جائے مگر بات بننی چاہیے۔ اب کسی کو اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں کہ بات بنتی بھی ہے یا نہیں۔ سب ہر معاملے میں تیزی کو اپنانے‘ زندگی کا حصہ بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ عجلت پسندی عمومی مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ بیشتر کی زندگی میں ایسی تیزی در آئی ہے جو معاملات کو بگاڑتی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں کسے کتنا فائدہ یا نقصان پہنچ رہا ہے‘ اس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کرنے والے خال خال ہیں۔ ایک دوڑ سی جاری ہے اور سبھی دوڑ رہے ہیں۔
ہم نے تیزی کیوں اپنائی ہے؟ کیا آج کے انسان کو ناگزیر طور پر تیزی اپنانی ہے‘ جو کچھ بھی کرنا ہے بہت تیزی سے کرنا ہے؟ کیا عجلت پسندی اب فکری ساخت کا حصہ بن چکی ہے؟ یا یہ محض فیشن کے درجے میں ہے؟ یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے سوال ہر اُس انسان کے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں جو نمایاں حد تک سکون سے اور قدرے فطری انداز سے زندگی بسر کرنے کا خواہش مند ہو۔ ماحول انسان کو بہت سے معاملات میں وہ سب کچھ کرنے پر مجبور کرتا ہے جو دوسرے کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے نوجوان واضح فطری رجحان نہ ہونے پر بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی ایسے شعبے میں اعلیٰ تعلیم پاتے ہیں جو محض مقبولیت سے ہم کنار ہو۔ اس کے نتیجے میں بہت محنت کرنے پر بھی انسان زیادہ لگن کے ساتھ کیریئر کی راہ پر بڑھ نہیں پاتا۔ کسی زمانے میں ہر نوجوان ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا کرتا تھا۔ پھر انجینئرنگ کا غلغلہ بلند ہوا تو سب نے انجینئر بننے کی ٹھانی۔ اس کے بعد میڈیا میں کیریئر بنانے کا رجحان پروان چڑھا۔ ساتھ ہی ساتھ آئی ٹی میں بھی خواہ مخوا دلچسپی لینے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔
تیزی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جن کے لیے کسی بھی اعتبار سے تیز رفتاری لازم نہیں وہ بھی ماحول میں پائی جانے والی تیزی سے متاثر ہوکر تیزی کو اپناتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سوچنے کی زحمت گوارا کرنے والے کم ہیں کہ تیزی سے آخر حاصل کیا ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں تیزی فطری ہے کیونکہ وہاں وقت ہی سب کچھ ہے۔ ویسے تو ہر معاشرے کے لیے وقت ہی سب کچھ ہے؛ تاہم ترقی یافتہ معاشروں میں وقت کو اہمیت دینے کے معاملے میں خاصی غیر لچکدار سوچ پائی جاتی ہے۔ وہاں کسی بھی ایسے شخص کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا جو اپنا وقت ضائع کرتا ہو اور دوسروں کے وقت کا ضیاع یقینی بنانے والے حالات پیدا کرتا ہو۔ وہاں لوگ کام پر بروقت پہنچتے ہیں اور اوقاتِ کار کے دوران فضول گفتگو یا کسی اور سرگرمی میں حصہ نہیں لیتے۔ سب کچھ نظم و ضبط کے تحت ہوتا ہے اور وہ بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ۔ ایسے میں تیزی بُری نہیں لگتی کیونکہ وہ بارآور ہوتی ہے۔ اگر سب اپنا اپنا کام بہت تیزی سے کر رہے ہوں اور مطلوب نتائج یقینی بنارہے ہوں تو تیزی کسی کو بُری نہیں لگنی چاہیے۔
ہمارے ہاں حتمی نتائج کے بارے میں زیادہ سوچنے بلکہ اُنہیں اولین ترجیح دینے کا کلچر تاحال پیدا نہیں ہوا۔ ترقی یافتہ معاشروں میں تیزی اس لیے ہے کہ مطلوب نتائج کا حصول اسی طور ممکن ہے۔ ہمارے ہاں اب تک صرف تیزی کو اپنایا گیا ہے‘ کسی بھی شخص کی صلاحیت و سکت کے بارآور ہونے کے بارے میں سوچنے کا رجحان پیدا نہیں ہوسکا۔ ترقی یافتہ معاشروں میں پائی جانے والی تیزی صرف اور صرف ''باٹم لائن‘‘ کو زیادہ ثمر بار اور مفید بنانے کے لیے ہے یعنی کسی بھی انسان سے کام لیتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسے جو وسائل اور جو وقت (ٹائم فریم) دیا گیا اس کے مطابق کام ہوا یا نہیں۔ آجر مطلوب نتائج چاہتے ہیں اور اجیر بھی اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ مطلوب نتائج یقینی نہ بنائے جاسکے تو انہیں فارغ کرنے میں دیر نہیں لگائی جائے گی۔
ہم اب تک نقالی کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ ہمیں اس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں کہ ہر معاملے میں (بے جا) تیزی کو حرزِ جاں بنانے سے حاصل کیا ہو رہا ہے۔ یہ خالص بھیڑ چال کا معاملہ ہے یعنی جیسا سب کر رہے ہیں‘ ویسا ہی کرو۔ یہ سوچنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی جارہی کہ اتنی اور ایسی تیزی کا کیا اچار ڈالنا ہے۔ ہمارے ہاں اب تک ایسا ورک کلچر پیدا نہیں ہوا جس میں باٹم لائن کو سب کچھ گردانا جائے۔ اجیر چاہتے ہیں کہ آجر اُنہیں جدید ترین آلات اور مشینری وغیرہ فراہم کریں۔ آجر چاہتے ہیں کہ مطلوب نتائج ملیں۔ وہ اس کے لیے لازم سمجھی جانے والی مشینری اور آلات فراہم کرنے کو بالعموم تیار رہتے ہیں مگر اجیر سنجیدہ ہیں نہ پُرعزم۔ بڑے صنعتی یونٹس میں پائے جانے والے ورک کلچر کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ترقی یافتہ معاشروں کی نقالی میں تیزی اپنائی جارہی ہے، اور بس۔ ایسے میں بہتر نتائج کا حصول کیونکر ممکن بنایا جاسکتا ہے؟
یہ بات تو سبھی جانتے اور مانتے ہیں کہ زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ کم و بیش ہر معاشرے میں ورک کلچر وہ نہیں رہا جو صدیوں سے چلا آرہا تھا۔ تین‘ چار صدیوں کے دوران درجنوں معاشروں نے اپنا مزاج بدلا ہے۔ جن معاشروں نے اپنے آپ کو بہت زیادہ اور تیزی سے بدلا وہ آج ترقی یافتہ ہیں اور باقی دنیا کے لیے مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ ترقی پر کسی قوم، نسل یا خطے کا اجارہ نہیں۔ جو محنت کرتا ہے وہ پھل پاتا ہے۔ مغرب کے انتہائی ترقی یافتہ معاشروں کی طرح ایشیا کے بھی بعض معاشروں (جاپان، چین، ملائیشیا وغیرہ) نے خود کو بدلا اور ایسا کرنے کا پھل بھی پایا۔ پس ماندہ معاشروں کا یہ حال اس لیے ہوا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بدلنے کی راہ پر کبھی گامزن ہی نہیں ہوئے۔ ان معاشروں نے کبھی اس حقیقت پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ تیزی سمیت کسی بھی معاملے میں ترقی یافتہ معاشروں کی محض نقالی سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ اگر آگے بڑھنا ہے تو جدید دور کے معقول ترین ورک کلچر کو اپنانا ہے۔ اس ورک کلچر میں اہمیت نتائج کی ہے نہ طریقِ کار کی۔ تیزی بہت ضروری سہی‘ لازم ہرگز نہیں۔ معقول رفتار کے ساتھ کام کرنے اور زندگی بسر کرنے کی صورت میں انسان اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فروغ کی گنجائش پیدا کر سکتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر انسان کو میسر وقت سکڑ رہا ہے کیونکہ ہر شعبے میں غیر معمولی ٹیکنالوجیکل پیش رفت نے انسان پر کام کا دباؤ بڑھادیا ہے۔ معیاری زندگی بسر کرنے کے لیے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے اور کم وقت میں بہتر نتائج یقینی بنانا پڑتے ہیں۔ ایسے میں کہیں کہیں بہت تیزی سے بھی چلنا پڑتا ہے لیکن جہاں تیزی لازم نہ ہو وہاں تیز چلنے سے انسان گر بھی جاتا ہے۔ بس اِسی نکتے کو اچھی طرح سمجھنا ہے۔ سوال تیزی یا سستی کا نہیں‘ متوازن رفتار کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا ہے۔ جب انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ معقول رفتار ہی سے چلنے کی صورت میں منزل تک آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے تب وہ کام کے معاملے میں بھی بے جا تیزی اپنانے سے گریز کرتا ہے۔
ہمارا معاشرہ دیگر ترقی پذیر معاشروں کی طرح مغرب کی اندھی تقلید کے گڑھے میں گِرا ہوا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کے اپنے طور طریقے ہوتے ہیں جو اُن کے مخصوص حالات سے مطابقت رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے تابع بھی ہوتے ہیں۔ جہاں ورک کلچر کا بنیادی تقاضا تیزی ہو وہاں ایسا کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔ ہمارے معاشرے کو ایسی تیزی کی فی الحال ضرورت نہیں۔ Look busy, do nothing قسم کی تیزی اپنانے سے کوئی اپنے لیے کچھ حاصل کر پاتا ہے نہ دوسروں کے لیے ہی منفعت کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ معیاری زندگی سنجیدگی چاہتی ہے۔ سنجیدگی انسان کو معقول رفتار سے چلنا سکھاتی ہے۔ ہمارے لیے سنجیدگی بھی ناگزیر ہے اور معقول رفتار بھی۔ اسی صورت ہم اطمینان بخش زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔