لوگ غلط تو نہیں کہتے۔ گھر کی مرغی دال برابر۔ انسان کی فطرت ہے ہی ایسی کہ جو چیز آسانی سے میسر ہو اُس کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتا، اُس کی قدرو قیمت محسوس کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ ہمارا بھی یہی معاملہ ہے۔ قدرت نے ایک عظیم نعمت ہمارے لیے اُتاری ہے مگر ہم اُس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ہم سوچتے ہی نہیں کہ یہ نعمت ہے تو ہم کچھ ہیں۔ یہ نعمت ہے پاکستان! کسی بھی اِنسان کے لیے اپنے وطن سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔ وطن چاہے جیسا بھی ہو‘ وطن ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان کو زیبا نہیں کہ وطن کے بارے میں کوئی بھی بدگمانی رکھے، اُسے بُرا سمجھے، اُس سے متنفّر ہو۔ کیا پاکستان مثالی ملک ہے؟ نہیں! حقیقی مثالی ملک کوئی بھی نہیں۔ ہم میں سے بیشتر یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ؎
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا ؍ کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا
ہم انوکھے نہیں! ہم بھی اِسی دنیا کے رہنے والے ہیں۔ ہمارے حصے میں بھی وہی سب کچھ آیا ہے جو دوسروں کے حصے میں لکھا گیا ہے۔ ہمیں جو خطّۂ ارض رہنے کو ملا ہے وہ چند معاملات میں کمزور سہی مگر بہت سے معاملات میں مضبوط بھی ہے۔ وطن میں جو کچھ اچھا ہے وہ تلاش کیا جاتا ہے، بُرے کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بُرے کے بارے میں زیادہ نہیں سوچا جاتا اور وطن کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاتا۔ کس ملک میں اُس کے مکینوں کے لیے کتنی مشکلات ہیں یہ تو خدا ہی جانتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ پاک سرزمین رہنے کے لیے ویسی بُری نہیں جیسی تصور کی جاتی ہے۔ زندگی کہاں مشکل نہیں؟ ہم ترقی یافتہ معاشروں کو مثال بناکر جیتے ہیں مگر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ وہاں ڈھنگ سے جینا بہت دشوار ہے۔ امریکہ اور یورپ کی مثال سامنے رکھیے کہ وہاں معیاری زندگی بسر کرنے کے لیے گھر کے ہر فرد کو کام کرنا پڑتا ہے۔ مجموعی ماحول ہی کچھ ایسا ہے کہ کام نہ کرنے والوں کو قابلِ احترام نہیں سمجھا جاتا۔ معاشی خود مختاری انفرادی سطح پر ناگزیر سمجھی جاتی ہے۔ جو مسائل دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں وہی پاکستان میں بھی پائے جاتے ہیں مگر اِس کے باوجود بہت سے معاملات میں ہم اب تک بہتر حالت میں ہیں۔ تعلیم و تربیت، عملی زندگی کی ابتدا، کیریئر کو پروان چڑھانے کا معاملہ، بود و باش، کھانا پینا‘ سبھی کچھ دنیا بھر میں الجھا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہے۔ کسی بھی ترقی پذیر معاشرے میں جو پیچیدگیاں ہوا کرتی ہیں وہ ہمارے ہاں بھی ہیں۔ ہمیں اِن پیچیدگیوں سے الرجی محسوس کرنے کے بجائے اِن کے ساتھ رہنے کی عادت پروان چڑھانی ہے تاکہ اِن سے نپٹنے کی تیاری میں مشکلات پیش نہ آئیں۔
ورلڈ آف سٹیٹ اسٹکس (عالمِ اعداد و شمار) نے ایک سروے میں بتایا ہے کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ اس سروے میں 139 ممالک میں بود و باش اور کھانے پینے کے معاملات کا جائزہ لیا گیا۔ نائیجیریا، شام اور لیبیا جیسے شورش زدہ ممالک بھی پاکستان سے مہنگے ہیں۔ مصر دوسرے نمبر پر ہے جبکہ بھارت کا تیسرا نمبر ہے۔ ایک زمانے سے ہمارے ہاں بنگلہ دیش کی فقیدالمثال ترقی کا راگ الاپا جارہا ہے۔ وہ اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ سری لنکا جیسا ڈیفالٹ ملک بھی اڑتیسویں نمبر پر ہے۔ اس سروے کے مطابق دنیا کا مہنگا ترین ملک سوئٹزر لینڈ ہے۔ یہ سروے کسی بھی اعتبار سے غلط نہیں۔ اپنے بارے میں زیادہ بدگمان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے ہاں جن معاملات میں الجھنیں پائی جاتی ہیں وہ بھی ہماری اپنی کوتاہیوں سے بگڑے ہیں۔ دنیا بھر میں ڈھنگ سے جینے کے لیے جن معاملات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اُن کے بارے میں ہمارے ہاں سرسری طور پر سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔
ایک زمانے تک ہمارے ہاں یہ راگ الاپا جاتا رہا کہ پڑوسی ممالک میں زندگی بہت آسان ہے۔ اس معاملے میں بھارت اور بنگلہ دیش کی مثال نمایاں طور پر دی جاتی تھی۔ بھارت کے بارے میں یہ تصور عام تھا اور اب بھی بہت حد تک عام ہے کہ وہاں عام آدمی بہت مزے سے جی رہا ہے۔ کچھ ایسا ہی تصور بنگلہ دیش کے بارے میں بھی رہا ہے۔ اگر دلیل مانگئے تو کہا جاتا ہے کہ اِن ملکوں کی معیشت مضبوط ہے، زرِ مبادلہ کے ذخائر قابلِ رشک حد تک (پاکستان سے) زیادہ ہیں۔ بھارت کے بارے میں یہ تاثر اب تک عام اور مقبول ہے کہ اُس نے آئی ٹی اور اُس سے جُڑے شعبوں میں پورے خطے کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب وہ علاقائی سپر پاور میں تبدیل ہوچکا ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر کی حد تک تو معاملے کو تسلیم کیا جا سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر غیر معمولی ہوں تو عام آدمی کو کیا مل رہا ہے؟ عام آدمی کو اس بات سے کیا غرض کہ قومی معیشت کہاں کھڑی ہے۔ اُسے تو اپنے گھر کی فکر لاحق رہتی ہے۔ وہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا سستی ملا کریں، رہائش سستی ہو اور یوٹیلیٹی بل بھی ہوش رُبا رقم کے نہ آئیں۔
ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران بھارت میں گروسری آئٹمز پاکستان سے مہنگے رہے ہیں۔ سبزیاں اور پھل بھی پاکستان میں سستے ہیں۔ نئی دہلی، ممبئی، کولکتہ، چنئی، احمد آباد اور دیگر بڑے بھارتی شہروں میں خشک راشن، سبزیوں اور پھلوں کے دام چیک کرلیجیے تو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم پر خدا کا کرم کس حد تک ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے ہاتھوں لگائے جانے والے لاک ڈاؤن میں بھی پاکستان کے حالات بہت اچھے رہے اور لوگوں نے ایک دوسرے کا بھرپور خیال رکھا۔ بھارت اور خطے کے دیگر ممالک میں کم آمدنی والے افراد لاک ڈاؤن کے دوران شدید مالی مشکلات کا شکار رہے۔ پھر ایک بات تجزیہ کار اکثر بھول جاتے ہیں۔ بھارت میں ایک طرف تو پاکستان سے زیادہ مہنگائی ہے اور دوسری طرف وہاں کمانا پاکستان کے مقابلے میں بہت مشکل ہے۔ چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر باقی ملک تو چھوٹے چھوٹے شہروں اور دیہات میں آباد ہے۔ وہاں معاش کے ذرائع خاصے کم ہیں۔ چار پانچ بڑے شہروں پر آبادی کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے میں عام آدمی کے لیے ڈھنگ سے زیادہ کمانا دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ یہی حال بنگلہ دیش کا ہے جہاں چند بڑے شہروں پر غیر معمولی دباؤ ہے۔ ہیرا پھیری دیکھے کہ افرادی قوت برآمد کرکے حکومت معیشت کو مضبوط بنانے کا کریڈٹ لے رہی ہے۔ پاکستان رہائش کے اعتبار سے بھی سستا ترین ملک ہے۔ ہمارے ہاں پلاٹس اور مکانات کی قیمت اب بھی اِتنی زیادہ نہیں ہوئی کہ اُن کے کرائے جینا حرام کریں۔ بھارت کے بڑے شہروں میں املاک کی قیمتیں آسان سے باتیں کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ کراچی میں 80 گز کا عام سا اپارٹمنٹ 60 سے 80 لاکھ روپے تک میں مل جاتا ہے۔ ممبئی میں ایسی ہی لوکیشن کا اتنا ہی بڑا اپارٹمنٹ چار سے پانچ کروڑ روپے کا ہے! اندازہ لگایا جاسکتا ہے ممبئی میں رہائشی یونٹس اور دکانوں، دفاتر کے کرایوں کا کیا حال ہوگا۔ پاکستان مجموعی طور ایک ایسا ملک ہے جس میں جینا کسی بھی اعتبار سے بہت زیادہ دشوار نہیں۔ ملک بھر میں کہیں بھی کمانا بہت بڑا ایشو نہیں۔ چھوٹے شہروں میں بھی لوگ اچھا کمالیتے ہیں۔ بڑے شہروں میں کمائی زیادہ ہوتی ہے اس لیے اُن کی آبادی بڑھتی جارہی ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان میں اندرونی نقلِ مکانی آسان ہے اور کمانا بھی دشوار نہیں۔
ہمیں قدرت نے وہ خطۂ ارض بخشا ہے جو نعمتوں سے مالا مال ہے یعنی خود بھی ایک نعمت ہے۔ علاقائی تناظر میں دیکھیے تب بھی اور عالمی معاملات کے تناظر میں جائزہ لیجیے تب بھی پاکستان خدا کے کرم سے ہٹ کر کچھ دکھائی نہیں دے گا۔ ہم دنیا کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور دنیا کی رنگینیاں دیکھنے کے بعد ہمیں اپنا ملک پھیکا پھیکا سا لگتا ہے۔ عشروں پہلے ریڈیو پاکستان سے اقبال علی کا گایا ہوا وطن کا گیت نشر ہوا کرتا تھا جس کے بول تھے ؎
میرے پاکستان! تجھ کو اللہ رکھے؍ میں تجھ پہ قربان‘ تجھ کو اللہ رکھے
یہ ہر پاکستانی کے دل کی دعا ہونی چاہیے۔ آج علاقائی اور عالمی سطح پر جو سیاسی، معاشی اور معاشرتی معاملات پائے جارہے ہیں اُن کا تقاضا ہے کہ وطن کو ٹوٹ کر چاہا جائے۔