"MIK" (space) message & send to 7575

نکلتا جارہا ہے وقت ہاتھوں سے

کس میں دم ہے کہ ستاروں کو ہاتھ لگا آئے؟ کون ہے جو ہواؤں سے ہم رکاب رہتے ہوئے دنیا پر اُچٹتی سی نظر ڈالنے کی سکت اپنے اندر پیدا کرے؟ کس میں اس بات کا یارا ہے کہ جب چاہے اپنے آپ کو کسی بھی کام کے قابل پائے‘ جو کچھ بھی کرنا چاہے کر دکھائے؟ زندگی سوالوں میں گھری رہتی ہے۔ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی سوال پاؤں کی زنجیر بننے کو بے تاب دکھائی دیتا ہے۔ کوئی سوال بہت مشکل ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اُس کا جواب زندگی بھر نہ مل سکے گا۔ بعض اوقات سوال ایسے آسان ہوتے ہیں کہ ذرا سی کوشش سے جواب مل جاتا ہے اور زندگی کی گاڑی تیزی سے آگے بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ یا کم از کم محسوس تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم سب مرتے دم تک سوالوں کے جواب تلاش کرتے رہتے ہیں۔ سب سے بڑا سوال وقت کا ہے۔ قدم قدم پر محسوس ہوتا ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ بہت سخت۔ مقابلے کی فکر اُنہیں بھی لاحق رہتی ہے جو میدان میں اُترتے ہی نہیں! ایسے میں کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ جو واقعی مقابلہ کرنے نکلے ہوں اُنہیں کیا محسوس ہوتا ہو گا۔
کبھی کبھی ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وقت ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے۔ جب ایسا محسوس ہوتا ہے تب وقت کیا‘ ہر چیز ہی ہاتھوں سے نکلی جارہی ہوتی ہے۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ ہمیں کبھی کبھار ہی پوری شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ وقت ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے؟ وقت تو پل پل ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔ قدم قدم پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ بہت کچھ ہے جو ہمارے ہاتھوں میں نہیں‘ ہمارے بس میں نہیں۔ ایسا محسوس ہونا بھی چاہیے۔ وقت رُکتا نہیں۔ اِس کا پہیہ گھومتا ہی رہتا ہے۔ کسی سے پوچھا گیا آپ جنگل میں نہتے جارہے ہوں اور سامنے سے شیر آجائے تو کیا کریں گے؟ اُس نے کہا مجھے کیا کرنا ہے‘ پھر تو جو کچھ بھی کرنا ہے شیر ہی کو کرنا ہے۔ ہمارا اور وقت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ وقت شیر ہے اور ہم زندگی کے جنگل سے نہتے گزر رہے ہیں۔ اِس جنگل سے گزرتے ہوئے قدم قدم پر دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ شیر آکر دبوچ نہ لے۔ یہ دھڑکا بے جا ہے۔ دھڑکا تو اُس وقت لگا رہنا چاہیے جب شیر کو آنا ہو اور ہمیں دبوچنا ہو۔ یہ شیر یعنی وقت تو ہمیں روزِ اول سے دبوچے ہوئے ہے !
وقت کا معاملہ ہم سے ہمیشہ غیر معمولی توجہ کا طالب رہتا ہے۔ صرف یہی ایک معاملہ ہے جس میں ہمیں سنجیدہ ہونا ہے۔ یہ سنجیدگی دیگر تمام معاملات میں ہمیں سنجیدہ ہونے کی زحمت سے بچالیتی ہے۔ کوئی وقت کو بالکل اُسی طور تھام سکتا ہے جس طور کوئی شخص لگام پکڑ کر گھوڑے کو قابو میں کرتا ہے، اپنے مرضی کے مطابق چلاتا ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے کیونکہ در حقیقت وقت کو اِس طور کنٹرول کیا ہی نہیں جاسکتا۔ پھر بھی یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور مثالیں دے کر سمجھایا بھی جاسکتا ہے کہ وقت کو قابو میں کرنا اور قابو میں رکھنا بہت حد تک ممکن ہے کیونکہ یہ خالص نیت، لگن اور مشق کا معاملہ ہے۔ جو وقت عمومی سطح پر ہمیں شدید بدحواس رکھتا ہے اُسی وقت کے دامن سے بہت سے لوگ اپنی مرضی کی ہر چیز کشید کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ایسا کیونکر ممکن ہو پاتا ہے؟ خود بخود تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ اِس کے لیے منصوبہ سازی کرنا پڑتی ہے اور محنت کے گھنے جنگل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔
وقت سراسر غیر جانبدار ہے۔ یہ کسی کے حق میں بھی نہیں اور کسی کے خلاف بھی نہیں۔ جو لوگ وقت کے معاملے میں بالکل لاپروا ہوتے ہیں اُنہیں وقت خوب سبق سکھاتا ہے بلکہ سکھاتا ہی رہتا ہے۔ وقت کا ضیاع زندگی کا ضیاع ہے۔ جو لوگ وقت ضائع کرنے کے معاملے میں ''فراخ دِل‘‘ ہوتے ہیں وہ بالآخر ہر معاملے میں تنگی کا سامنا کرتے ہیں۔ ضائع ہوتا ہوا وقت اُنہیں کچوکے لگاتا رہتا ہے۔
دوسری طرف وہ ہیں جو وقت کی قدر محض جانتے ہی نہیں بلکہ اپنے عمل سے اِس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ وقت کی مؤثر تقسیم و تطبیق انسان کو بیشتر معاملات میں آسانیوں سے ہم کنار کرتی ہے۔ جس ماحول میں وقت کی ناقدری کے ہاتھوں تباہی سے دوچار ہونے والے دکھائی دیتے ہیں اُسی ماحول میں وقت کے قدر شناس آپ کو دوسروں سے نمایاں اور کامیاب نظر آئیں گے۔ جو وقت کو محض گزارنا چاہتے ہیں وقت اُنہیں گزار دیتا ہے اور جو وقت کی قدر جانتے، پہچانتے ہوئے اور اُس کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے چلتے ہیں اُنہیں وقت خوب نوازتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنی دانائی، تحمل اور محنت کی بدولت سنہرے مواقع ملتے رہتے ہیں اور وہ اُن سے مستفید ہوکر زندگی کا معیار بلند کرتے رہتے ہیں۔
یہ احساس بہت عجیب ہے کہ وقت ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے۔ اور اِس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ وقت کے ہاتھوں سے نکلتے اور ضائع ہوتے جانے کا احساس عمومی طور پر ہمیں کماحقہٗ جھنجھوڑنے میں ناکام رہتا ہے۔ ہاتھوں سے وقت کے نکلے جانے کا احساس انسان کو بدحواس بھی کرتا ہے اور دانش سے کام لینے کا ہنر بھی سکھاتا ہے۔ اگر کسی کی اچھی تربیت نہ کی گئی ہو اور وقت کے معاملے میں ڈھنگ سے سوچنا نہ سکھایا گیا ہو تو وقت کے کم ہوتے چلے جانے کا احساس اُسے تنگی کے احساس سے دوچار رکھتا ہے اور یوں ذہن میں وسعت پیدا نہیں ہو پاتی۔ ایسے لوگ قدم قدم پر خود کو ڈیڈ اینڈ پر پاتے ہیں، بند گلی میں محصور ہونے کا احساس اُنہیں اندر ہی اندر کھاتا رہتا ہے۔ وقت کی بہتر تقسیم و تطبیق اگر چھوٹی عمر سے سکھائی گئی ہو تو انسان عملی زندگی میں وقت کو بطریقِ احسن بروئے کار لانے کے قابل ہو پاتا ہے۔ یہ ہنر بڑی عمر میں مشکل ہی سے سکھایا جاسکتا ہے۔
منظم اور خردمند گھرانے اپنے بچوں کو عملی زندگی کے لیے بہترین طریقوں سے تیار کرتے ہیں۔ ایسے گھرانے اولاد کو وقت کی قدر و قیمت کے معاملے میں ہوش مند اور حساس بنانے پر پوری توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ ہر کامیاب گھرانے کے بچوں میں وقت کی قدر و قیمت کا احساس پوری شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ ایسے بچے اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنے پر بالکل یقین نہیں رکھتے۔ عملی زندگی میں یہ وصف اُن کے لیے انتہائی کارگر ثابت ہوتا ہے۔ وہ خود بھی پنپتے ہیں اور اپنے سے وابستہ افراد کو بھی بہت کچھ دیتے اور سکھاتے ہیں تاکہ وہ بھی ڈھنگ سے پنپ سکیں۔
اگر آپ بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ وقت ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے تو حیران ہونا چاہیے نہ پریشان۔ یہ فطری امر ہے اور کسی بھی فطری امر کے بارے میں صرف دانائی برتنی چاہیے۔ وقت کا بنیادی تقاضا ہے دانائی کو بروئے کار لانا۔ محض بدحواس ہونے سے وقت کے ضیاع کا محض احساس نہیں بڑھتا بلکہ وقت کا ضیاع بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ بدحواسی میں ہم وقت کو برتنا بھول جاتے ہیں اور ہمت ہار کر گوشہ نشین سے ہو جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں وقت سے مستفید ہونے کی ساری گنجائش ختم ہونے لگتی ہے۔ زندگی آپ سے ہوش مندی چاہتی ہے۔ ہوش مندی صرف یہ ہے کہ انسان وقت کو ممکنہ حد تک بہترین انداز سے بروئے کار لانے پر متوجہ ہو اور ماحول میں پائے جانے والے ایسے ہر معاملے سے خود کو الگ کرلے جو وقت کے ضیاع کی طرف لے جاتا ہو۔ وقت چونکہ گزرتا ہی جارہا ہے اور اُس پر ہمارا کچھ تصرف بھی نہیں اس لیے ناگزیر ہے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے لیے سوچیں، اپنے آپ کو گزرتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کی کوشش کریں اور وقت کو بطریقِ احسن بروئے کار لانے کی منصوبہ سازی کرتے رہیں۔ یہ چونکہ مرتے دم تک کا معاملہ ہے اِس لیے آپ کو پوری ذہنی تیاری کے ساتھ جینا ہے۔
وقت ہم سے صرف سنجیدگی چاہتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کو دیکھیے اور اُن سے سیکھئے۔ وقت کے معاملے میں انتہائی نوعیت کی سنجیدگی اپناکر ہی اُنہوں نے قابلِ رشک ترقی ممکن بنائی ہے۔ وقت کے معاملے میں دانائی اختیار کرنے سے ہٹ کر بھی کوئی آپشن ہوسکتا ہے تو سامنے لائیے، اپنائیے اور اُس کے بل پر اپنی زندگی کو بھرپور کامیابی سے ہم کنار کرکے دکھائیے۔ غور کیجیے گا تو وقت سے شروع ہوکر وقت ہی پر پہنچئے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں