پاکستان اس وقت سخت مشکل حالات سے دوچار ہے۔ ہر موڑ پر کوئی الجھن کھڑی ملتی ہے۔ ایک طرف معاشی خرابیاں ہیں اور دوسری طرف معاشرتی پیچیدگیاں۔ اہلِ سیاست کو اِن میں سے کسی بھی معاملے میں کچھ بہتر بنانے سے کچھ غرض نہیں۔ اُن کی آپس کی لڑائیاں ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ تمام سٹیک ہولڈرز عوام کو بھولے بیٹھے ہیں۔ کوئی جیے یا مرے‘ اُنہیں بظاہر غرض ہے تو صرف اِس بات سے کہ اُن کا مفاد سیدھا ہوتا رہے۔ وہ صرف اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔
عام آدمی کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے۔ وہ سمجھ ہی نہیں پارہا کہ کسی بھی معاملے کے دو سروں کو ملائے تو کیسے ملائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بہت کچھ واقع ہو جاتا ہے۔ معاشی معاملات کی الجھن کم ہو پاتی ہے نہ معاشرتی معاملات کی۔ چَکّی کے اِن دو پاٹوں کے بیچ عام آدمی بُری طرح پِس رہا ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ وہ سنبھل کر ٹھیک سے اُٹھ بھی نہیں پاتا کہ پھر گر جاتا ہے۔ حالات کی روش سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دے رہی۔
جب معاملات اِتنے بگڑے ہوئے ہوں تو انسان کے لیے بہتر زندگی کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ جب حال ہی بے حال ہو تو مستقبل کے بارے میں کیا سوچا جائے؟ پھر بھی عام آدمی کو امکانات تلاش کرتے رہنا ہے۔ یہ ناگزیر ہے۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال سے نکلنے کے لیے لازم ہے کہ انسان امکانات کے بارے میں سوچتا رہے، اُن کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں! اِس دنیا میں جو کچھ بھی ہوا ہے وہ امکانات تلاش کرنے سے ہوا ہے۔ ڈھونڈنے والوں کو نئی دنیا بھی ملتی ہے۔ اگر کوئی اپنے حالات سے تنگ ہے تو محض پریشان ہونے، ملول رہنے اور دل مسوس کر رہ جانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ حالات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، اُنہیں بدلنے کی سنجیدہ کوشش کرنا پڑتی ہے۔ حالات انتہائی درجے کی خرابیوں سے دوچار ہیں۔ عام آدمی کے لیے ڈھنگ سے جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ زندگی بوجھ لگ رہی ہے۔ اور لگ کیا رہی ہے‘ بوجھ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ مسائل کی نوعیت بدل رہی ہے اور شدت بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں کسی کے پاس بھی نِچلا بیٹھ رہنے کا آپشن نہیں۔ ہو ہی نہیں سکتا! حالات چاہے کچھ بھی ہوں‘ ہمیں جینا ہے۔ ایسے حالات میں ڈھنگ سے جینا مگر اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہم بدحواس ہو رہنے کا آپشن نہ اپنائیں بلکہ امید کا دامن تھامے رہیں اور اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی راہ پر گامزن رہیں۔
جو لوگ حالات کا جبر سہہ رہے ہوتے ہیں اُن سے اگر کہا جائے کہ ہمت سے کام لیں اور مسائل سے گھبرانے کے بجائے اُن کا حل تلاش کرنے پر متوجہ ہوں تو جواب ملتا ہے جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے، مشورہ دینے والوں کو اندازہ نہیں ہوسکتا کہ جو لوگ حالات کے جبر کا سامنا کر رہے ہیں وہ کس کرب سے دوچار ہیں۔ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے اور حالات کی سختی کا اندازہ تو اُنہی کو ہوسکتا ہے جو حالات کی زد میں ہیں۔ مگر صاحب! سوال یہ ہے کہ حالات کے جبر سے‘ اُس کی زد میں آنے سے کون بچا ہوا ہے۔ کوئی فرد، کوئی گھرانہ، کوئی برادری، کوئی معاشرہ، کوئی ملک حالات کی خرابی سے محفوظ نہیں۔ سب کو مسائل کا سامنا ہے اور سب کے مسائل الگ الگ ہیں۔ ہر قبر کا حال اُس قبر کا مُردہ ہی جانتا ہے! کوئی اِس گمان میں نہ رہے کہ سارے غم اُس کے حصے میں آئے ہیں۔ پریشانیوں، دُکھوں اور الجھنوں سے بچا ہوا کوئی بھی نہیں ہے۔ پاکستان واحد ملک نہیں‘ درجنوں ملکوں کا حال ہم سے بھی بُرا ہے۔ ترقی یافتہ و خوش حال ممالک کے بھی اپنے مسائل ہیں۔ ہم بالعموم اِس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ ترقی یافتہ ممالک اگر ترقی برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو صرف اِس لیے کہ اُنہوں نے اپنے مسائل حل کرنے کا سلسلہ ختم نہیں کیا، امکانات کی تلاش جاری رکھی ہوئی ہے۔ ہمیں اُن کے مسائل اس لیے دکھائی نہیں دیتے کہ وہ اُن کا حل پہلے سے سوچ رکھتے ہیں اور عمل کے لیے تیاری کی حالت میں رہتے ہیں۔
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں لوگ مسائل کو سامنے پاکر کچھ سوچنے کے بجائے محض پریشان ہو اُٹھتے ہیں اور محض پریشان ہونے ہی کو مسائل کا حل گرداننے لگتے ہیں۔ ہمارے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم امکانات کی تلاش کسی بھی صورت ترک نہ کریں۔ مہنگائی ہو یا کوئی اور پریشانی‘ ہمیں اپنے آپ کو بہتر حالات کے لیے تیار کرنا اور تیار رکھنا ہے۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم خیال لوگوں کو تلاش کرکے اُن سے رسم و راہ بڑھائی جائے، اُن کے تجربے سے استفادہ کیا جائے اور جہاں بھی ضروری ہو اُن سے مدد لی جائے۔ شخصی ارتقا سے متعلق موضوعات پر لکھنے اور بولنے والے ہم خیال لوگوں سے میل جول بڑھانے پر بہت زور دیتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے انسان کے مزاج میں حالات سے نبرد آزما ہونے کا عزم پروان چڑھتا چلا جاتا ہے۔ یکساں مزاج اور مثبت سوچ کے حامل افراد ایک دوسرے کو کامیابی کی راہ پر بڑھتا ہوا دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بالعموم کسی کا بُرا نہیں چاہتے اور کسی جواز کے بغیر کسی سے بات بگاڑنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اگر کوئی مسائل کا شکار ہو اور منفی سوچ رکھنے والوں کی صحبت اختیار کرے تو مسائل شدت اختیار کرلیتے ہیں کیونکہ منفی سوچ رکھنے والے خود بھی مایوسی کا شکار ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی مایوس ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے اُن سے ڈرتے اور ڈراتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی کو عمل پسند طرزِ فکر و عمل کا حامل دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہ لوگ آپ کو مشکلات دور کرنے کا حوصلہ کیا دیں گے، یہ تو آپ سے آپ کا حوصلہ اور ولولہ بھی چھین لیں گے۔
مشکلات میں گھرے ہوئے انسانوں کو جدوجہد کرنے والوں سے رابطے بڑھانے چاہئیں، اُن سے سیکھنا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو مشکلات سے کس طور نکالتے ہیں، شدید الجھنوں کے درمیان بھی امکانات ڈھونڈ نکالنے میں کس طرح کامیاب ہوتے ہیں۔ آپ کو حالات کا دریا پوری ہوش مندی اور جاں فشانی سے پار کرنا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہمت نہ ہاری جائے، امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور ہم خیال لوگوں کی صحبت سے کماحقہٗ استفادہ کیا جائے۔ پُرامید رہنا انسان کے لیے ناگزیر ہے کیونکہ اُمید ہی کچھ کرنے کا حوصلہ برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ جو لوگ حالات سے اچھی طرح نبرد آزما ہوتے ہیں اُن سے سیکھتے بھی رہیے۔ حالات کی سختی انسان کے دل و دماغ میں ویرانی سی پیدا کرنے پر تُلی رہتی ہے۔ یہ فطری امر ہے کیونکہ مسائل انسان کو تھوڑا بہت بدحواس تو کرتے ہی ہیں۔ یہ بدحواسی بڑھنی نہیں چاہیے اور اِس کے ہاتھوں ولولے کا تیا پانچا تو بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ حواس قابو میں رہیں تو انسان ماحول کو سمجھنے اور اُس کے تقاضے نبھانے میں کامیاب رہتا ہے۔ حالات کی سنگینی انسان کو اپنے پیاروں سے بھی تھوڑا سا دور رکھتی ہے۔ آپ اپنے گھرانے کی اُمید ہیں اور آپ کے لیے آپ کا گھرانہ بھی بہت بڑا سہارا ہے۔ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے کرتا ہے۔ اگر وہ خوش نہیں تو آپ بھی خوش نہیں رہ سکتے۔ دیکھتے رہیے کہ گئے گزرے حالات میں بھی کون ہے جو اپنے اہلِ خانہ سے محبت کر رہا ہے اور اُن کی بہود کو ترجیحات میں سرِفہرست رکھتا ہے۔
آج ہم جہاں کھڑے ہیں وہاں ہر شخص کو کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔ زندگی قدم قدم پر امتحان لینے پر تُلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ بہت سوچنے پر بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان اپنے اور اپنے متعلقین کے معاملات بہتر بنانے کے لیے کیا کرے۔ اِس ہمہ جہت جنگ میں ہمیں فتح یاب ہونا ہے اور اِس کے لیے دل و دماغ کو قابو میں رکھنا بنیادی شرط ہے۔ کہیں بھی ہمت ہار کر رُکنا نہیں ہے۔ بہاروں کے سائے ضرور ملیں گے مگر کانٹوں پر چل کر۔ قدرت کی طرف سے کسی بھی انسان کے لیے حقیقی راحت کا سامان آزمائش سے گزرنے ہی پر کیا جاتا ہے۔ راضی برضا رہتے ہوئے جاں فشانی سے زندگی بسر کیجیے گا تو بے مثال راحت بھی پائیے گا۔