جینے کے لیے امید لازم ہے مگر امید پر جینا لازم نہیں۔ پُرامید رہنا چاہیے کہ حالات بالآخر اچھے ہو جائیں گے اور مشکلات ختم ہوکر رہیں گی تاہم اس امید کا دامن تھام کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے میں کسی بھی سطح کی دانش مضمر نہیں۔ کوئی بھی صاحبِ عقل اس روش کو مثالی تو کیا‘ معمولی درجے میں درست بھی قرار نہیں دے سکتا۔ نجات دہندہ کا انتظار انسان کے مزاج کا حصہ ہے۔ کم و بیش ہر انسان چاہتا ہے کہ اچانک کچھ ایسا ہو جائے جس سے اُس کی تمام مشکلات ختم ہو جائیں‘ کہیں سے کوئی آئے اور ہر مسئلہ حل کردے۔ بہت سی فلموں میں کوئی انتہائی مشکل کیفیت پیدا کرکے کسی نجات دہندہ کو دکھایا جاتا ہے۔ کسی بھی فلمی کہانی میں کسی نجات دہندہ کا کہیں سے آنا اور تمام مسائل حل کر دینا ہر فلم بین کو اچھا لگتا ہے کیونکہ یہ اُس کی بھی تمنا ہوتی ہے۔ ہال میں موجود ہر فلم بین کے دل میں یہ خواہش تو موجود رہتی ہی ہے کہ کوئی آکر اُس کی تمام پریشانیوں کا ''دی اینڈ‘‘ کر دے۔ جب وہ سنیما کے پردے پر اپنی خواہش کو رُو بہ عمل دیکھتا ہے تو خوش ہو اٹھتا ہے۔ وقتی طور پر ہی سہی‘ اُس کے دل کو ذرا سی راحت مل تو جاتی ہے۔ تھوڑی سی رقم خرچ کرکے اتنی سی خوشی بھی مل جائے تو سَودا برا نہیں لگتا!
کسی نجات دہندہ کا انتظار انسان کو بے عملی کی طرف لے جاتا ہے۔ اور بے عملی تو بعد کی منزل ہے‘ پہلے مرحلے میں تو وہ ''بے فِکری‘‘ کا ہو رہتا ہے یعنی سوچنے کی زحمت سے چھُٹ جاتا ہے۔ سوچنا ہر انسان کا بنیادی معاملہ ہے۔ ڈھنگ سے سوچے بغیر وہ اپنا کوئی بھی مسئلہ حل کرنے کی سمت نہیں بڑھ سکتا۔ فکر و نظر کا مرحلہ طے کرکے ہی وہ معاملات کی درستی کیلئے کچھ کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ جو کچھ بھی سوچا گیا ہو‘ اسے عملی شکل دینا آسان ہوتا ہے۔ اگر سوچا ہی نہ جائے تو سمجھ لیجئے گئی بھینس پانی میں۔ نجات ہندہ کے منتظر رہنے والے ایک فاش غلطی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے تمام معاملات کو درست کرنے کیلئے مطلوب صلاحیت و سکت کے حامل ہونے پر بھی عملاً غیر موثر ہو رہتے ہیں۔ نجات دہندہ کا منتظر رہنے کا یہ سب سے بڑا نقصان ہے۔ بہت سوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ اپنے شعبے میں اچھی خاصی مہارت رکھتے ہیں مگر پھر بھی اُن کی کارکردگی مطلوب معیار کے مطابق نہیں ہوتی۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اُن کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ تصور جاگزیں رہتا ہے کہ کہیں سے کوئی آئے گا اور تمام پریشانیاں دور کرکے چلا جائے گا یا پھر اچانک کچھ ایسا ہو جائے گا‘ حالات ایسا پلٹا کھائیں گے کہ زندگی دفعتاً آسان ہو جائے گی۔ کوئی ہماری کتنی ہی مدد کرے‘ ہمارے لیے کسی بھی درجے میں نجات دہندہ ثابت ہو سکتا ہو‘ بالآخر معاملات کا بوجھ تو ہمی کو اٹھانا ہوتا ہے۔ یہ دنیا اچھے لوگوں سے کبھی خالی نہیں رہی اور سچ تو یہ ہے کہ اکثریت اچھے ہی لوگوں کی ہے۔ کسی بُرے انسان کا تصور کیجئے اور پھر یہ سوچئے کہ اگر سب اُس جیسے ہو جائیں تو دُنیا چل پائے گی؟ یقینا نہیں کیونکہ برے لوگوں کی اکثریت اس دنیا کا پہیہ جام کرنے میں دیر نہیں لگائے گی۔
کسی نوجوان کو بیٹنگ کی کتنی ہی تربیت دی جائے‘ بڑے اور تجربہ کار بیٹرز اسے بیٹنگ کے بہترین اور کامیاب ترین گُر بھی سکھائیں اور میچ کے دوران یہ تمام تربیت کار گراؤنڈ کے باہر بیٹھے ہوں تب بھی اُس نوجوان کو میدان کے بیچوں بیچ وکٹ پر پہنچ کر باؤلر کا سامنا تو خود ہی کرنا ہوگا۔ جو کچھ اُسے سکھایا گیا ہوگا وہ کام ضرور آئے گا مگر اپنی تربیت کو بروئے کار لانا اُسی کی ذمہ داری ہے۔ سکھانے والوں کا کام میدان کے سِرے تک تھا۔ میدان میں تو جو کچھ کر دکھانا ہے وہ بیٹر ہی کو کر دکھانا ہے۔ کوئی بھی بیٹر محض اس امید کی بنیاد پر زیادہ سکور نہیں کر سکتا کہ حریف ٹیم کے باؤلر غلطی کرتے رہیں۔ باؤلر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہو تو بیٹنگ کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔ سکھانے والوں کو سیکھنے والوں میں کاری گری کیساتھ ساتھ اعتماد بھی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ بھرپور اعتماد مشق و مشقّت کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔ سیکھنے کے عمل میں مشق کی اہمیت اچھی خاصی ہے۔ اس صورت تربیت کار بھی دیکھ لیتا ہے کہ اس کی محنت کس حد تک رنگ لائی ہے۔
کسی بھی معاشرے میں اکثریت ان کی ہوتی ہے جو عمومی سطح پر کھوکھلی خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں‘ بلا جواز یا بے بنیاد طور پر کچھ زیادہ پُرامید رہتے ہیں۔ اس نوعیت کی خوش فہمی اور پُرامیدی انسان کو بے عمل بنا دیتی ہے۔ اگر یہ کیفیت دائمی نوعیت کی ہو تو انسان صرف منتظر رہنا پسند کرتا ہے کہ کہیں سے کوئی آکر مسائل حل کرے یا حالات ایسا پلٹا کھائیں کہ سب کچھ اپنے حق میں پلٹنے لگے۔ صرف آسرے پر جینے کا چلن کسی بھی درجے میں مستحسن ہے نہ مفید۔ کسی بھی دانا سے ایسے کسی بھی مشورے کی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ کہیں سے اچانک مدد مل جانے کا تصور انسان کو بے فکر و بے عمل بناکر دم لیتا ہے۔ حالات کے بدل جانے سے اگر تھوڑی بہت آسانی پیدا ہو جائے تو اسے مستقل کیفیت نہ سمجھا جائے۔ ایسا کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور بالعموم کبھی نہ کبھی سبھی کے ساتھ ہوتا ہے۔ حالات کے بدلنے سے وقتی طور پر ملنے والی آسانی اور کامیابی کو کُلیے کی شکل و حیثیت دے کر فکری ساخت کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ڈھنگ سے جینے کیلئے آسانیوں کا انتظار کرنے کے بجائے مشکلات کو آسانی میں تبدیل کرنے پر توجہ دیجئے۔ یہ مشورہ شخصی ارتقا سے متعلق موضوعات پر لکھنے اور بولنے والی ہر شخصیت کا ہے۔ کسی بھی ماحول میں بیشتر کا عمومی چلن بے ذہنی پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ کامیاب شخصیات کے حالاتِ زندگی سے سبق سیکھنے پر ذرا بھی توجہ نہیں دیتے۔ اُنہیں بظاہر اس بات سے کچھ غرض نہیں ہوتی کہ کسی نے بھرپور کامیابی کس طور حاصل کی ہے۔ صرف کامیابی دیکھی جاتی ہے‘ اُس کی پشت پر موجود بے مثال محنت کے بارے میں نہیں سوچا جاتا۔ کسی بھی کامیاب انسان کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیجئے تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اُس نے طویل مدت تک محنت کی اور پھل پایا۔ تھوڑی بہت مدد کرنے والے ہر ماحول میں ہوتے ہیں۔ آج بھی دنیا بھر میں اکثریت ان انسانوں کی ہے جو دوسروں کی مدد کرکے خوش ہوتے ہیں۔ سوال صرف انہیں تلاش کرکے ان سے ایسی مدد طلب کرنے کا ہے جو وہ کر سکتے ہوں۔ ہاں‘ کسی سے غیرمعمولی یا فیصلہ کن کردار کی توقع ہرگز نہ رکھیے۔ کوئی اگر زیادہ مدد نہ کر پائے تو اُس کے بارے میں بدگمان ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ سب کی اپنی مجبوریاں اور حدود ہوتی ہیں۔ کوئی آپ کی مدد کرتے وقت اپنے معاملات بھی تو دیکھے گا۔ یہ بالکل ایسا معاملہ ہے کہ مکان خود بنائیے اور اُس کی سجاوٹ کیلئے مدد لیجئے۔ کوئی آپ کو مکان تو بناکر دینے سے رہا۔
محض آسرے پر زندہ رہنا انسان کو محدود کر دیتا ہے۔ آسرے کی زندگی انسان کو کنویں کا مینڈک بنا دیتی ہے اور کبھی کبھی تو اس سے بھی نچلا درجہ مقدر ہوکر رہ جاتا ہے۔ جب کوئی اپنی صلاحیت و سکت بروئے کار لانے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوتا تو زندگی کے رنگ پھیکے پڑنے لگتے ہیں۔ ہمارا ہر معاملہ وقت سے جُڑا ہوا ہے۔ ہم جو کچھ بھی سوچتے اور کرتے ہیں اس میں وقت کی نزاکت کا پورا ادراک ناگزیر ہے۔ وقت اور محل دونوں ہی کی اہمیت یکساں ہے یعنی ایک طرف تو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ہمارا کوئی بھی قدم صحیح وقت پر اُٹھے اور محل یعنی موقع بھی غلط نہ ہو۔ موقع کا مطلب ہے کسی بھی امر کے واقع ہونے کا مقام۔ زندگی کا سارا حُسن اور ساری خوشبو فکر و عمل کی ہم آہنگی اور موزونیت سے عبارت ہے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر تقاضا کرتی ہے کہ کسی کے منتظر رہنے کے بجائے ہم فکر و عمل سے رشتہ جوڑیں اور جب جو کرنا ہے کر گزریں۔