کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم زیادہ پیچیدہ ہیں یا یہ عہد جس کا ہم حصہ ہیں۔ کوئی بھی طے نہیں کر سکتا کہ ہماری ذہنی پیچیدگیاں اس دنیا کو اُلجھا رہی ہیں یا اس دنیا کی الجھنیں ہمارے ذہنوں کو پریشان کرتی رہتی ہیں۔ کوئی بھی زمانہ ذہنی پیچیدگیوں سے پاک نہیں رہا۔ ہزاروں سال پہلے کے انسان کو سمجھنا ہو تو اُس دور کا ریکارڈ کھنگالیے۔ تاریخ کے اوراق آپ کو بتائیں گے کہ زندگی کبھی پیچیدگیوں سے پاک اور آسان نہ تھی۔ ہر دور نے انسان کے سامنے چند چیلنج رکھے ہیں اور ہر دور کے انسان نے اپنے عہد کو پیچیدہ بنانے میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا ہے۔
آج کا معاملہ بہت عجیب لگتا ہے۔ تاریخ کا ریکارڈ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان نفسی الجھنوں سے لڑتا آیا ہے اور نفسی الجھنیں پیدا کرنے میں بھی کبھی پیچھے نہیں رہا! یعنی تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی رہی ہے۔ آج کے انسان کا معاملہ بھی کچھ الگ نہیں‘ بلکہ اب تو ذہنی پیچیدگیاں انتہائی نوعیت کی ہو گئی ہیں۔ سب ایک کشتی کے سوار ہیں۔ یہ کشتی ہے لالچ کی‘ زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنے والی ذہنیت کی‘ خالص مادّہ پرست طرزِ فکر کی۔ کوئی بھی اس کشتی سے اُترنے کو تیار نہیں اور اس کشتی کو کنارے سے لگانا بھی کسی کو منظور نہیں۔ ایسے میں خرابیوں کو بڑھاوا نہ ملے تو اور کیا ہو؟ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ زندگی ہم سے بہت کچھ مانگتی رہتی ہے۔ اُس کی طلب کا دائرہ وسعت پذیر رہتا ہے۔ کیوں نہ ہو؟ آج ہمیں دنیا میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ اس تقاضے اور طلب ہی کا تو نتیجہ ہے۔ اگر دوسروں نے بہت کچھ چاہا اور اُسے پانے کیلئے بہت کچھ نہ کیا ہوتا تو ہمیں کیا ملتا؟ ہر عہد کے انسانوں نے اپنے سے پہلے والوں کی محنت سے مستفید ہوتے ہوئے خود محنت کی اور اس دنیا کا معیار بلند کیا۔ ہمیں جو دنیا ملی ہے وہ ہزاروں برس کی ذہنی کاوشوں اور بھرپور ذوقِ عمل کا نچوڑ ہے۔ آج ہر شعبے میں جو حیران کن پیش رفت دکھائی دے رہی ہے اور زندگی کو آسان بنانے والی جو چیزیں زندگی کا حصہ ہیں‘ وہ ہزاروں برس کی ریاضت کا نتیجہ ہیں۔ ہم اس اعتبار سے تو بہت خوش نصیب ہیں کہ ہزاروں برس کی محنت کا نچوڑ نصیب ہوا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں جو سہولتیں شہنشاہوں کو بھی میسر نہ تھیں‘ وہ آج عام آدمی کی زندگی کا حصہ ہیں۔ پھر ہمیں زندگی سے پیار کیوں نہ ہو‘ اپنے مقدر پر رشک کیوں نہ آئے؟
ایسے میں یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ آج بھی انسان زندگی کو کھلواڑ کی چیز سمجھتا ہے۔ ڈھنگ سے جینے کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی توفیق کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ معاشرے کی عمومی ذہنی سطح یہ ہے کہ جیسے تیسے سانسوں کی گنتی پوری کرکے یہاں سے چل دیجئے‘ بس۔ یہ زندگی کا بنیادی تقاضا نہیں اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ زندگی کا بنیادی تقاضا کبھی نہیں بدلتا۔ زندگی کی ناقدری اس قدر عام ہے کہ اس حوالے سے زیادہ حیران ہونے کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ لوگ بات بات پر بم کی طرح پھٹ پڑتے ہیں۔ مسائل کو حل کرنے کی ذہنیت پروان چڑھانے کے بجائے مسائل کو بنیاد بناکر معاشرے اور ماحول کو لتاڑنے اور ہر وقت رنجیدہ رہنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ تساہل‘ تغافل اور تجاہل کا نتیجہ ہے۔ جب ذہن کو زحمتِ کار نہیں دی جاتی تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
ہر دور کے انسان کی طرح آج کے انسان کیلئے بھی سب سے بڑا معاملہ معاش ہی کا ہے۔ کل کا انسان بھی پوری دنیا کو مٹھی میں لینے پر تُلا رہتا تھا اور آج کا انسان بھی اس روش سے ہٹ کر کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ بہت کچھ پانے کی تمنا بُری نہیں مگر اس کیلئے جو کچھ کرنا پڑتا ہے وہ اگر کرنا پڑے تو کوئی بُرا کیوں مانے؟ چند ایک معاملات میں تو ایسا ہو سکتا ہے کہ کسی کو بیٹھے بٹھائے کچھ مل جائے مگر اس بات کو کُلیے کے طور پر اپنایا نہیں جا سکتا۔ معاشرے کا عام چلن تو یہ ہے کہ محنت کیجئے اور پائیے۔ یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ آج کا انسان ہی پیچیدہ ذہن کا حامل ہے اور گزرے ہوئے زمانوں کے لوگ ایسے نہیں تھے۔ ہر دور کے عام آدمی نے ذہن سے کام لینے کو ترجیح دینے سے گریز ہی کیا ہے۔ ہر عہد میں عقلِ سلیم سے کام لینے والے خال خال ہی رہے ہیں۔ عمومی سطح پر ہر دور کے انسان نے زندگی جیسی نعمت کو سنجیدگی سے لینے کی زحمت کم ہی گوارا کی اور اس کے نتیجے میں آج ہم گزرے ہوئے تمام ادوار کے انسانوں سے زیادہ الجھے ہوئے ہیں۔
کوئی بھی الجھن اور کوئی بھی مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہوتا کہ اُس سے نجات پانے کیلئے زندگی کو داؤ پر لگا دیا جائے۔ ہم آئے دن سنتے ہیں کہ ذرا سی بات پر لوگ ایک دوسرے پر پِل پڑتے ہیں اور معاملات کو بہتر بنانے کے بجائے مزید الجھا دیتے ہیں۔ سوال ناسمجھی کا نہیں۔ ذہن سب کو عطا کیا گیا ہے اور اُسے بروئے کار لانے کی ذمہ داری بھی سب کی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔ مسئلہ یہ ہے تحمل سے کام لینے کی عادت کو پروان چڑھانے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ زندگی کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں جو ہم سے بھرپور تحمل کا متقاضی نہ ہو۔ یہ تحمل ہی تو ہے جو انسان کو کردار کی بلندی عطا کرتا ہے۔ تحمل ہی سے ہم زندگی کو برتنے کا سلیقہ سیکھتے ہیں۔ ہر معاملہ ایک خاص منطقی مرحلے سے گزر کر ہی حتمی اور قابلِ قبول شکل اختیار کرتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کا عمومی چلن یہ ہے کہ محنت کیجئے‘ انتظار کیجئے اور جو بھی نتیجہ سامنے آئے اُسے قبول کیجئے۔ کبھی کبھی محنت رائیگاں بھی جاتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسا بالعموم دو صورتوں میں ہوتا ہے۔ اول تو یہ ہے کہ انسان نے منصوبہ سازی کے بغیر محنت کی ہو اور دوم یہ ہے کہ حالات ہی ایسا پلٹا کھا جائیں کہ سب کچھ تلپٹ ہوکر رہ جائے۔ ایسے میں انسان اگر ناکامی سے دوچار ہو تو اپنے آپ کو لتاڑنے اور معاشرے کا رونا رونے کے بجائے نئی منزلوں کے بارے میں سوچنے کی طرف جائے تو اچھا ہے۔ ایسی ہر کیفیت ہم سے ڈٹے رہنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ میدان چھوڑ کر بھاگنا کسی بھی درجے میں مستحسن نہیں۔
ہم سب اس اعتبار سے بہت عجیب ہیں کہ جو کچھ کرنا ہے وہ نہیں کرتے اور وہی سب کچھ کیے جاتے ہیں جو نہیں کرنا ہے۔ بہت سے کامیاب انسانوں کو دیکھ کر بھی ہم نہیں سیکھتے کہ زندگی کا معیار بلند کرنا راتوں رات کا معاملہ ہوتا ہے نہ محنت کے بغیر ایسا ہو پاتا ہے۔ جس کسی نے بھی کامیابی پائی ہے اُس سے پوچھ دیکھیے۔ وہ بتائے گا کہ دن رات ایک کرنے پر کچھ مل سکا ہے۔ اس مرحلے سے سبھی کو گزرنا پڑتا ہے۔ ہاں‘ محنت کرنے سے قبل محنت کا ذہن بنانا پڑتا ہے‘ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ چاہے کچھ ہو جائے‘ میدان نہیں چھوڑنا۔ ماحول میں جو کچھ بھی ہو رہا ہوتا ہے وہ قدم قدم پر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔ بہت کچھ یعنی وہ سب کچھ جو ماحول کا تقاضا ہے۔ اس معاملے میں زندگی کے دامن میں کسی کیلئے کوئی رعایت نہیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ سنجیدہ نہیں ہوتے۔ پہلے شدید بے ذہنی کو اپناتے ہیں اور جب معاملات ہاتھوں سے نکلتے دکھائی دیتے ہیں تب رونے لگتے ہیں۔ خیر‘ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ اپنی بربادی کا احساس بھی نہیں ہوتا اور جب احساس نہیں ہوتا تب ملال بھی نہیں ہوتا۔ کسی بھی انسان کو اپنی بربادی کا ملال صرف اُس وقت ہوتا ہے جب وہ شعور سے کام لیتے ہوئے زندگی کو برتنے کا ہنر سیکھتا ہے۔ اگر دنیا کو اپنانے کا ذہن ہی پنپ نہ سکا ہو تو کسی بھی بات کا اُتنا ملال بھی نہیں ہوتا جتنا منطقی طور پر ہونا چاہیے۔ جون ایلیا نے خوب کہا ہے ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
یہ صرف اُن کا نہیں‘ پوری قوم کا المیہ ہے۔ اور معاملہ تعجب کا نہیں‘ تاسّف کا ہے۔ ہم عجیب نہیں‘ بے شعور ہیں۔ شدید بے ذہنی جب معاشرے کا عمومی چلن بن جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ زندگی کا ساتھ دیجئے‘ اسے شعور اور تحمل کے ساتھ اپنائیے۔