"MIK" (space) message & send to 7575

سوچنے کی ضرورت ہے

کورونا کی وبا کے سبب دنیا بھر میں جو معاشی بحران رونما ہوا تھا اُس کے اثرات ابھی پوری طرح زائل بھی نہیں ہوئے تھے کہ اہلِ جہاں کو ایک بار پھر شدید بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ معاشی مشکلات پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں۔ دنیا بھر کی معیشتوں کے لیے الجھنیں برقرار ہیں۔ اِس کے نتیجے میں سبھی ایک بار پھر شدید دباؤ کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا تو پھر بھی کسی نہ کسی طور ڈھنگ سے جینے میں کامیابی سے ہم کنار ہے، ترقی پذیر اور پسماندہ دنیا میں اکثریت کو ایسی گونا گوں مشکلات کا سامنا ہے جن کے باعث زندگی صرف الجھنوں کا ''گلدستہ‘‘ ہو کر رہ گئی ہے۔ چار سال قبل جب کورونا کی وبا وارد ہوئی تھی تب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ دنیا اب ویسی نہیں رہ پائے گی جیسی ہزاروں سال سے رہی ہے۔ اس وبا کے ہاتھوں دنیا بھر میں جو معاشی تباہی واقع ہوئی اُس نے متعدد ممالک کو وسیع تر اور جامع حکمتِ عملی اختیار کرنے کی تحریک دی۔ اپنے آپ کو مستقبل میں ایسی ہی کسی کیفیت سے بچانے کے معاملے میں زیادہ ہوشمندی کا مظاہرہ ترقی یافتہ ممالک نے کیا کیونکہ وہ اب تک ہوشمندی ہی کی بدولت اپنا معاشی اور معاشرتی استحکام برقرار رکھتے آئے ہیں۔
کورونا کی وبا نے ہر ملک کے لیے لازم کردیا کہ مستقبل میں اپنے آپ کو زیادہ توانا رکھنے کی خاطر معاش اور معاشرت‘ دونوں سطحوں پر زیادہ سوچے اور ایسی حکمتِ عملی تیار کرے جس کے نتیجے میں ڈھنگ سے جینے کی راہ ہموار کرنے میں زیادہ الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آج ہم پوری دیانت اور غیر جانبداری سے جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ غریبوں کے لیے تو بظاہر جینے کی کوئی گنجائش بچی ہی نہیں۔ پسماندہ ممالک کا حال کورونا کی وبا سے پہلے بھی بُرا تھا۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ اُس وبا نے پوری کردی۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب قدم قدم پر پژمردگی ہے، بے حوصلگی ہے، بے دِلی ہے، بیزاری ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ معاملات کو سمجھنے اور بدلتی ہوئی دنیا سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے جو کچھ سوچنا اور کرنا ہے وہ دکھائی تک نہیں دے رہا۔ جس طور کسی معاشرے میں کم آمدنی والے شدید بے ذہنی کے ساتھ جیتے ہیں بالکل اُسی طور عالمی برادری میں کمزور ممالک بھی شدید بے ذہنی کا ''سہارا‘‘ لیتے ہوئے جی رہے ہیں۔ اُن کی حکومتیں کچھ سوچتی ہیں نہ عوام۔
دنیا بھر میں ایک بار پھر مہنگائی کی لہر آئی ہوئی ہے۔ کون سی چیز ہے جو مہنگی نہیں ہوتی جارہی۔ کیا امیر اور کیا غریب‘ تمام ہی ممالک ہر شعبے میں مہنگائی کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور اِس عذاب کو جھیلنے پر مجبور ہیں۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی حالت چونکہ زیادہ پتلی ہے اِس لیے اُن کے عوام کو مہنگائی کے ہاتھوں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ زندگی کو آسان بنانے والے کی دُھن میں سرگرداں رہنے والوں ہی کو کچھ اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس راہ کا سفر کتنا مشکل ہے۔ کورونا کے دوران وہ لوگ شدید مشکلات کا شکار ہوئے جو کفایت شعار ہیں نہ بچت کے عادی۔ اس وبا نے سارے کَس بَل نکال دیے۔ پوری بے ذہنی کے ساتھ جینے والے اب زندگی کا سامنا کرنے کی پوری تیاری کے ساتھ میدان میں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اب اگر ایسی کوئی وبا آئے تو سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے در در نہ بھٹکنا پڑے، ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔
معاشی بحالی کی راہ پر گامزن ہونے اور منزل تک پہنچنے کی تگ و دَو میں مصروف ہونے والوں نے طے کیا کہ جو کچھ اب تک کیا جاتا رہا ہے وہ اب نہیں کیا جائے گا۔ اس نئی سوچ نے بعض شعبوں کو شدید گراوٹ سے دوچار کیا ہے۔ ڈھائی سال قبل جب معاشی بحالی کی کوششیں شروع ہوئیں تب ہر ملک کو بیروزگاری اور مہنگائی‘ دونوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ معاشی سرگرمیاں ٹھپ رہنے سے اچھا خاصا جمود واقع ہوچکا تھا۔ اس جمود کو توڑنا حکومتی سطح پر بھی انتہائی دشوار عمل ثابت ہوا۔ عام آدمی تو بے چارہ کس قطار شمار میں ہے‘ وہ تو بس اُتنا ہی کرسکتا ہے جتنا حکومتی اقدامات کے نتیجے میں ممکن دکھائی دیتا ہے۔ پسماندہ ممالک کا حال اِس لیے زیادہ بُرا رہا کہ اِن کے عوام سوچنے کے قائل ہی نہیں۔ اُنہوں نے سوچنے اور جامع حکمتِ عملی ترتیب کی پوری ذمہ داری اپنی اپنی حکومتوں کو سونپ رکھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب بھی کوئی عالمگیر معاشی، سیاسی اور معاشرتی بحران نمودار ہوتا ہے تب پسماندہ ممالک کے عوام سب سے زیادہ نشانے پر ہوتے ہیں۔ اُن کی حکومتیں تھوڑا بہت سوچیں تو قدرے تحفظ ممکن ہو پاتا ہے۔ اگر حکومتیں بھی ٹھان لیں کہ جیسا چلتا ہے ویسا چلنے دو تو سمجھ لیجیے کوئی آرزو بچتی ہے نہ اُمید۔ یکے بعد دیگرے کئی معاشی اور مالیاتی بحرانوں کا سامنا کرنے کے بعد اب دنیا بھر میں نئی سوچ ابھری ہے۔ ہر سطح کی مالی حیثیت کے لوگ اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، کساد بازاری اور بے روزگاری کے پیشِ نظر ناگزیر ہے کہ مستقبل محفوظ بنانے پر توجہ دی جائے۔ اِس بدلی ہوئی سوچ کے نتیجے میں ہم اب ترقی یافتہ دنیا میں بھی ایسے معاملات دیکھ رہے ہیں جن کا آٹھ دس سال قبل تصور تک نہ تھا۔
کنزیومر اِزم نے چار پانچ عشروں کے دوران پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر جو اثرات مرتب کیے اُنہیں جھیلتے جھیلتے لوگ اب تنگ آچکے ہیں اور کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جس سے زندگی میں ٹھہراؤ آئے، یہ احساس ختم ہو کہ زندگی صرف کمانے اور خرچ کرنے کا نام ہے، یقینا اِس دائرے سے باہر بھی اچھی خاصی زندگی ہے اور ہماری منتظر ہے۔ ٹیکنالوجیز کی گرم بازاری نے زندگی کی رفتار تیز تو کردی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ مسائل بھی بڑھائے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا کے لوگ بھی محسوس کر رہے ہیں کہ زندہ رہنے کی قیمت کچھ زیادہ ہوچکی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں تمام بنیادی سہولتیں بخوبی میسر ہیں مگر اُن کے لیے بہت زیادہ ادا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ ہر شعبے میں درجۂ کمال کو پہنچے ہوئے ممالک کے لوگ عمومی سطح پر زیادہ کام کرنے پر مجبور ہیں اور اُنہیں یہ احساس بھی شدید الجھن میں مبتلا رکھتا ہے کہ بہت سے کم آمدنی والے ممالک میں لوگ زیادہ آسانی سے جی رہے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا آج بھی باقی دنیا کو بہت پرکشش دکھائی دیتی ہے۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جس پر زیادہ حیرت ہونی چاہیے۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے کروڑوں عوام ہر وقت یہی سوچتے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور ترقی یافتہ ممالک میں قدم رکھنے اور کچھ کر دکھانے کا موقع ملے۔ کمزور تر ممالک کے تیزی سے بگڑتے ہوئے حالات فرار کی سوچ کو تیزی سے پروان چڑھا رہے ہیں۔ لوگ اپنے ماحول سے اُکتائے ہوئے ہیں اور جلد از جلد نکل جانا چاہتے ہیں۔ بہر کیف‘ یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اب ترقی یافتہ ممالک میں بھی بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اُنہیں افرادی قوت کی ضرورت ہے اور وہ تارکینِ وطن کو قبول بھی کر رہے ہیں؛ تاہم ایسا نہیں کہ وہاں سب کے لیے ہر وقت دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ پسماندہ ممالک کے لوگ یہ تصور ذہن سے کھرچ کر پھینک دیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں پیسے درختوں پر لگے رہتے ہیں ، بس ہاتھ بڑھائیے اور توڑ لیجیے۔ ایسا پہلے بھی نہیں تھا تو بھلا اب کیوں ہونے لگا؟ امریکہ اور یورپ‘ دونوں خطوں کے عام آدمی کی زندگی بھی اُتنی ہی الجھی ہوئی ہے جتنی کمزور معاشی حیثیت والے ممالک کے عام آدمی کی الجھی ہوئی ہے۔
پسماندہ اور ترقی پذیر دنیا کے اہلِ دانش کا فرض ہے کہ لوگوں کو اپنی زمین سے محبت کرنا سکھائیں، اُنہیں سمجھائیں کہ اپنی صلاحیت، مہارت اور سکت سے اپنے معاشروں اور معیشتوں کو مضبوط کرنے پر متوجہ ہوں۔ ترقی یافتہ دنیا میں بہتر امکانات تلاش کرنے کی دوڑ نے ''برین ڈرین‘‘ کے باعث کمزور ممالک کو مزید کمزور کردیا ہے۔ وہ سوچ درکار ہے جس اپنی جڑیں مضبوط ہوں۔ کسی مضبوط معاشرے میں قدم جمانے کی خواہش سے مغلوب ہوکر اپنی مٹی اور اور اپنے لوگوں سے بیزار رہنا غیر منطقی طرزِ فکر کا نتیجہ ہے۔ اس حوالے سے فکر و نظر کی گہرائی درکار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں