"MIK" (space) message & send to 7575

یہ سراب نہیں تو کیا ہے؟

زیادہ سے زیادہ کا حصول‘ مادّی خوش حالی یقینی بنانے کی خاطر کسی بھی حد سے گزر جانا بلکہ کوئی حد مقرر ہی نہ کرنا‘ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے بس اُسی کو سب کچھ سمجھنا اور اُس سے آگے کسی بھی چیز یا حقیقت کو تسلیم نہ کرنا۔ یہ سب کچھ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ انسان ایسا ہی واقع ہوا ہے۔ وہ صرف دیکھی ہوئی چیزوں اور باتوں کو مانتا ہے۔ اِس سے آگے قدم رکھنا اُس کے لیے سوہانِ روح ہوتا ہے۔
کیا زندگی بس اِتنی ہے؟ ہر دور کے انسان نے صرف مادّی غلامی بلکہ عبادت کو ترجیح دی ہے۔ زر کی ہوس زندگی کا سارا رس نچوڑ لیتی ہے۔ ہر دور کے انسان نے یہ تماشا دیکھا ہے مگر پھر بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ سراب ہے ہی ایسا دلکش کہ انسان کو اِدھر اُدھر نہیں ہونے دیتا۔ زیادہ سے زیادہ مال و زر کے حصول کی ہوس انسان کو حقیقت پسندی کی طرف سے جانے سے روکنے میں کبھی کوتاہی کی مرتکب نہیں ہوتی۔ یہ اپنا کام کرتی رہتی ہے اور انسان کو اُس کے حصے کا کام کرنے سے روکتی ہے۔ اِس کا نتیجہ؟ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔
سراب کے پیچھے بھاگنے والوں کا انجام؟ صرف تباہی۔ تباہی صرف ظاہر کی نہیں بلکہ باطن کی بھی۔ دنیا کے پیچھے بھاگنے والوں کو یہ دنیا تو خیر ملتی ہی نہیں‘ اپنی دنیا بھی ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔ پھر بھی یہ روش ترک کرنے پر کم ہی آمادہ ہوتے ہیں۔ دنیا کی کشش ہے ہی ایسی کہ انسان اُس کا گرفتار ہو رہتا ہے۔ آج کی دنیا کشش کے اعتبار سے انتہائی نوعیت کی ہے۔ قدم قدم پر ایسا بہت کچھ ہے جو انسان کو الجھنوں سے دوچار کرتا‘ پریشان رکھتا ہے۔ مادّی سُکھ کا معاملہ انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ جو کچھ کبھی صرف خواب و خیال کا حصہ ہوا کرتا تھا وہ آج حقیقت بن کر ہمارے سامنے ہے اور وہ بھی انتہائی نوعیت کی کشش کے ساتھ۔ مادّے کی سطح پر کوئی بھی معاملہ کسی بھی اعتبار سے کمتر دکھائی نہیں دے رہا۔
انسان روئے ارض پر کب سے ہے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ ہاں‘ انسان نے باضابطہ زندگی جب سے بسر کرنا شروع کی تب سے اب تک کا معقول ریکارڈ موجود ہے۔ اس ریکارڈ کی مدد سے ہم بہت کچھ جان سکتے ہیں، درست اندازے لگاسکتے ہیں۔ ماہرین کا ایک اندازہ یہ ہے کہ آج ہم جو بھرپور ترقی دیکھ رہے ہیں وہ کم و بیش تین ہزار سال کی محنت کا نچوڑ ہے۔ انسان نے لکھنا پڑھنا بہت پہلے سیکھ لیا ہوگا تاہم اُسے بروئے کار لانے کا عمل تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل شروع ہوا۔ اِن ڈھائی یا تین ہزار برس کے دوران انسان نے جو کچھ کیا ہے وہ آج ہمارے سامنے ہے۔ یہ بھرپور مادّی ترقی واقعی ایسی ہے کہ اِس پر فخر کیا جانا چاہیے اور انسان فخر کر بھی رہا ہے۔
کیا اِتنا کافی ہے؟ کیا بھرپور مادّی ترقی ہی سب کچھ ہے؟ زندگی اِس سے آگے کچھ نہیں؟ کیا ہمارا وجود صرف ظاہر سے عبارت ہے؟ کیا ظاہر ہی کو سب کچھ مان کر زندگی ڈھنگ سے بسر کی جاسکتی ہے؟ کیا باطن کچھ نہیں ہوتا؟ یہ اور ایسے دوسرے بہت سے سوال دن رات اُن تمام لوگوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں جو ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھ دیکھ کر بیزاری محسوس کرتے ہیں۔ یہ خالص حسیت کا معاملہ ہے۔ اس عہد نے ہر اُس انسان کو شدید ذہنی کوفت سے دوچار کر رکھا ہے جو قوی الحس واقع ہوا ہے۔ محسوس کرنے کی صفت اگر پختہ اور شدید ہو تو انسان قدم قدم پر صرف تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اس معاملے میں اُس کا اپنے دل و دماغ پر کچھ اختیار بھی نہیں ہوتا۔ کوئی اگر محسوس کرسکتا ہے تو محسوس کرنے سے مجتنب کیسے رہے؟ یہ اُس کے بس کی بات ہی نہیں۔
آج ہمارے تمام معاملات پر مادّہ پرستی غالب آچکی ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ مادّی سُکھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اِس سے آگے کچھ بھی سوچنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں جارہا۔ جو کچھ نظر آرہا ہے بس اُسی کو دنیا اور کائنات سمجھ کر سکون کا سانس لے لیا گیا ہے۔
ظاہر کی سطح پر سب کچھ پانے کی دُھن میں انسان کو باطن بالکل یاد نہیں رہا۔ حالات و واقعات قدم قدم پر باطن کی یاد دلاتے ہیں مگر انسان اِس طرف متوجہ ہونے کے لیے تیار ہی نہیں۔ ظاہر کی چمک دمک اور کشش اِتنی زیادہ ہے کہ وہ باطن کے بارے میں سوچنے کی زحمت سے بھی خود کو نجات دلا چکا ہے۔ اس کا نتیجہ؟ صرف اور صرف خلا! فکر و نظر میں خلا‘ ذوق و شوقِ عمل میں خلا۔ انسان جب صرف ظاہر کا ہو رہے تو زندگی کی اعلیٰ ترین اقدار سے اُس کا رابطہ کٹ سا جاتا ہے۔ ظاہر خود بخود پروان چڑھتا جاتا ہے، باطن کو پروان چڑھانا پڑتا ہے اور وہ بھی بھرپور توجہ کے ساتھ۔
جب صرف مادّی سُکھ سب کچھ قرار پاتا ہے تب انسان بھیڑ میں بھی تنہا رہ جاتا ہے۔ دنیا کے پیچھے بھاگنا دراصل سراب کا تعاقب ہے۔ صرف زر و مال کے حصول کو زندگی کا مقصد بنانے والے بالآخر وسیع البنیاد تباہی کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اس معاملے میں کوئی بھی انسان اپنے سوا کسی کو بھی قصور وار قرار نہیں دے سکتا کیونکہ سب کچھ اُس کا اپنا کیا دھرا ہوتا ہے۔
ہمیں آئے دن ایسی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ کسی نے بدحواس ہوکر کوئی انتہائی قدم اٹھالیا اور یہ بھی نہ سوچا کہ اِس کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔ گھریلو جھگڑوں میں منطقی حدود سے گزر جانا عام بات ہے۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر کچھ بھی کہہ دیتے ہیں، کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ یہ سب کچھ وقتی جوش کے زیرِ اثر ہوتا ہے۔ جب معاملے کی گرد بیٹھتی ہے تب احساس ہوتا ہے کہ جذبات کے ایک ہی ریلے میں کیا کر ڈالا، کس حد سے گزر گئے۔ بھارت کے شہر بنگلور میں ایک آئی ٹی فرم کی خاتون سی ای او نے اپنے چار سالہ بیٹے کو مار ڈالا۔ سی ای او؟ یعنی شاندار زندگی، مادّی سطح پر سُکھ ہی سُکھ۔ تو پھر اپنے ہی بچے کا قتل؟ آئی ٹی کے شعبے میں غیر معمولی تعلیم و تربیت کی حامل اور دنیا کی نظر میں ایک انتہائی قابل خاتون ‘اور یہ انتہائی اقدام! ساری چمک دمک اور کامیابی ظاہری سطح پر تھی۔ اور باطن کی سطح پر؟ صرف کھوکھلا پن۔ معاملہ اتنا سا ہے کہ ''سُچنا سیٹھ‘‘ کی اپنے شوہر سے بنی نہیں۔ دونوں میں علیحدگی ہوچکی تھی اور طلاق کا آخری مرحلہ چل رہا تھا یعنی عدالت سے کسی بھی وقت باضابطہ طلاق کی دستاویز جاری کی جاسکتی تھی۔ سوال بچے کی تحویل کا تھا۔ عدالت نے بچے کو ماں کی تحویل میں دیا؛ تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ باپ مہینے میں ایک بار بیٹے سے مل سکتا ہے یعنی سُچنا اس بات کی پابند تھی کہ بیٹے کو باپ سے ملوائے۔ اُسے یہ قبول نہ تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ باپ کبھی بیٹے سے نہ ملے۔ نتیجتاً اُس نے بیٹے ہی کو ختم کر ڈالا!
ظاہر کی دنیا میں بہت کچھ پانے کے لیے جو تعلیم و تربیت درکار ہوتی ہے اُس کا اہتمام سبھی کسی نہ کسی حد تک کرتے ہیں۔ باطن کی تشفی کے لیے جو تعلیم و تربیت درکار ہے اُس کے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جارہی۔ اب مذکورہ کیس ہی دیکھ لیجیے۔ طلاق کے معاملات میں بچوں کی تحویل کی بنیاد پر جھگڑا عام بات ہے۔ ماں چاہتی ہے کہ بچے اس کے پاس رہیں اور یہی خواہش باپ کی بھی ہوتی ہے۔ بچے پیار کی بنیاد ہوتے ہیں‘ جھگڑے کی نہیں۔ سُچنا کے لیے اِتنا کافی نہیں تھا کہ بچہ اُس کی تحویل میں رہے۔ وہ باپ کو اُس کا اِتنا سا بھی حق دینے کو تیار نہ تھی کہ وہ بیٹے سے مل لیا کرے۔ فکر و نظر کی یہ کجی صرف اور صرف دنیا پرستی کا مظہر اور نتیجہ ہے۔
زندگی ظاہر اور باطن کے توازن کا نام ہے۔ ہم کسی بھی پہلو کو دوسرے پر ترجیح نہیں دے سکتے۔ جیب بھری ہو اور دل خالی رہے تو زندگی صرف برباد کہلائے گی۔ ذہن اور جسم کی مشقّت کو بیچا جاسکتا ہے‘ روح کی صداقت اور شفافیت کو نہیں۔ ظاہر و باطن میں مکمل توازن ناگزیر ہے۔ ایسا نہ ہو پائے تو ہم وہی کرتے ہیں جو سُچنا نے اپنی اولاد کے ساتھ کیا! سراب کے پیچھے بھاگنے کا ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں