آپ کشور ناہید کو تو جانتے ہیں ناں؟ اور ان کی وہ نظم بھی آپ کو یاد ہو گی جو صرف پاکستان میں ہی نہیں، باہر کے بہت سے ملکوں میں بھی ان خواتین کا ترانہ بن گئی ہے جو اپنے حقوق، اپنی آزادی اور اپنے آپ کو با اختیار بنانے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ وہ نظم ہے ''ہم گناہ گار عورتیں‘‘۔ کشور ناہید جس جلسے یا جس جشن ادب میں بھی جاتی ہیں ان سے یہی نظم سنانے کی فرمائش کی جاتی ہے۔ لیکن ان دنوں وہ ان خواتین کی ہی تنقید کا نشانہ بن گئی ہیں جن کے لیے انہوں نے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے۔ ہوا یوں کہ پچھلے دنوں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ''یوم خواتین‘‘ منایا گیا۔ یہ یوم اقوام متحدہ کی جانب سے مقرر کیا گیا ہے۔ اس دن شہر شہر خواتین جلسے کرتی ہیں، اور جلوس نکالتی ہیں۔ اس سال بھی ایسا ہی ہوا۔ خواتین نے جلوس نکالے، اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ لیکن انہی جلوسوں اور ریلیوں میں چند خواتین نے جو پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے‘ ان پر کچھ ایسے نعرے بھی درج تھے جو بعض مردوں اور عورتوں کو ناگوار گزرے۔ خیر، جہاں تک مردوں کا تعلق ہے ان کی پریشانی اور ان کا غصہ تو سمجھ میں آتا ہے‘ لیکن کشور ناہید جیسی حقوق نسواں کی علم بردار خاتون کی طرف سے ان نعروں پر اعتراض کرنا‘ اور ناک بھوں چڑھانا جلوس نکالنے والی خواتین کو اچھا نہیں لگا۔ اور انہوں نے کشور پر طعن و تشنیع کے تیر برسانا شروع کر دیئے۔ اب یہاں میں کشور کی حمایت کرنا نہیں چاہتا۔ صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کشور کی بات سمجھنے کی کوشش تو کیجئے۔ وہ صرف یہ کہہ رہی ہیں کہ اس پدر سری معاشرے میں عورتوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں‘ اور ہر شعبے اور ہر محکمے میں ان کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے‘ اس کے خلاف آواز ضرور اٹھائیے‘ لیکن اس کے لیے جامے سے باہر تو نہ نکل جائیے۔ بلا شبہ اس معاشرے میں عورت ہی سب سے زیادہ مظلوم و مقہور ہے۔ رسم و رواج، تہذیب اور روایات کے نام پر اس پر جو پابندیاں لگائی جاتی ہیں‘ وہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ ہمارے دیہی معاشرے میں جو ہو رہا ہے۔ اس کی خبریں ہر روز ہی ہمارے اخباروں کی زینت بنتی ہیں ۔ نو سالہ بچی ایک بوڑھے جاگیردار کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ خاندانی جھگڑے ہوتے ہیں تو کوئی لڑکا اس کی زد میں نہیں آتا بلکہ لڑکی ہی اس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ کہیں اسے ونی کر دیا جا تا ہے اور کہیں سوارا۔ لڑکا لڑکی اگر اپنی مرضی سے شادی کرنے کا گناہ کر لیتے ہیں تو لڑکا کسی نہ کسی طرح بچ جاتا ہے مگر لڑکی نہیں بچتی۔ اسے کاری (یا ڈیرہ غازی خاں کی زبان میں کالی) کہہ کر مار دیا جاتا ہے۔ اور مارنے والے اپنے رسم و رواج اور روایات کے نام پر بچ جاتے ہیں۔ کون بھولا ہو گا اس سانحے کو جب بلوچستان میں لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیا گیا تھا۔ اور یہ زندہ گاڑنے والے بڑے بڑے سیاست دان تھے۔ جب ان سے باز پرس کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ خم ٹھونک کر کھڑے ہو گئے کہ یہ ہماری روایات ہیں، ہم تو ایسا ہی کریں گے۔ لاہور میں عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کے دفتر میں پناہ لینے والی لڑکی کو اس کے خاندان والوں نے سب کے سامنے قتل کر دیا تھا اور کوئی ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ بلکہ ان اصحاب نے جنہیں ہم روشن خیال اور جمہوریت پسند کہتے ہیں یہ کہہ کر ان قاتلوں کی حمایت کی کہ یہ تو ہماری تہذیب ہے۔ اگر ہم ان قدامت پسند معاشروں سے باہر نکل کر اپنے شہری معاشروں پر نظر ڈالیں‘ تو یہاں بھی حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل شہروں میں بھی اتنا ہی ہوتا ہے جتنا دیہی معاشروں میں۔ یہ سارے جرائم ہمارے سامنے ہیں۔ اور کشور انہی جرائم کے خلاف لڑتی رہی ہیں۔ سوال تو صرف یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے یہ گھنائونے جرائم آخر ان جلوسوں کے کتبوں پر نظر کیوں نہیں آئے۔ ایسے نعرے کیوں نظر آئے جو صرف مردوں کو چونکانے اور کشور ناہید کو پریشان کرنے کے لیے لکھے گئے تھے؟
اب آ جائیے ایک دوسرے موضوع کی طرف۔ پنجاب اسمبلی کے اس اقدام کی طرف جہاں حکومت اور اس کے مخالف ارکان نے مل جل کر اپنی تنخواہوں اور دوسری مراعات میں اضافہ کر لیا تھا۔ یہ نرالی، انوکھی اور انہونی بات نئے پاکستان میں ہی ہو سکتی تھی۔ پنجاب اسمبلی نے اپنے ارکان کی تنخواہوں اور معاوضوں میں اضافے کا بل منظور کیا، اور وزیر اعظم ناراض ہو گئے۔ گورنر کو حکم ہوا کہ اس بل پر دستخط نہ کیے جائیں۔ اور وزیر اعلیٰ سے کہا گیا کہ یہ بل واپس لیا جائے۔ ٹویٹ کیا گیا کہ ہم تو بچت اور کفایت شعاری کی بات کر رہے ہیں اور آپ اس طرح اللے تللے کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی نئے پاکستان میں ہی ہو سکتا ہے کہ پنجاب میں صوبائی کابینہ کے اجلاس کی صدارت وزیر اعظم کرتے ہیں۔ صبح شام ان کا رابطہ پنجاب کی حکومت سے رہتا ہے لیکن انہیں کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ صوبا ئی اسمبلی کے تمام ارکان متفقہ طور پر یہ کام کرنے والے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پسندیدہ اور محبوب وزیر اعلیٰ نے بھی انہیں اس اقدام سے بے خبر رکھا۔ اب اس بل میں ترمیم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بل میں کیا ترمیم ہو گی؟ تنخواہ اور معاوضوں میں کتنی کمی کی جائے گی؟ اب تک کی جو خبریں ہیں ان کے مطابق تنخواہوں اور مراعات میں کچھ کمی کر دی جائے گی‘ اور وزیر اعلیٰ کے مفت گھر کی رعایت ختم کر دی جائے گی۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ دوسرے صوبوں میں بھی تو ارکانِ اسمبلی کو ایسی ہی تنخواہ اور معاوضہ ملتا ہے۔ اول تو سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں جو لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں وہ ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ لے کر وہاں آتے ہیں۔ کم سے کم ان کا دعویٰ یہی ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جو اصحاب الیکشن میں حصہ لیتے ہیں‘ وہ اگر امیر کبیر طبقے سے تعلق رکھنے والے نہ ہوں تب بھی بالائی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ضرور ہوتے ہیں۔ ان کی جاگیریں ہوتی ہیں یا بڑے بڑے کاروبار ہوتے ہیں۔ وہ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ اگر ان میں سے دو چار نچلے متوسط طبقے سے بھی آ جاتے ہیں تو ان کے پیچھے ان کی برادری یا ان کی پارٹی ہوتی ہے۔ ان کے لئے دو چار لاکھ روپے کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے۔ انہیں تو خود ہی کم سے کم تنخواہ اور معاوضے لینا چاہئیں۔ قوم کی خدمت اور کیا ہوتی ہے؟ لیکن ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ ہمارے ہاں شروع سے ہی یہ ہوتا آ رہا ہے کہ الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں آنے کے بعد ہمارے ارکان اسمبلی کے اثاثے کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یقین نہ ہو تو اپنی تاریخ پر نظر ڈال لیجئے۔ ان ارکان کی آمدنی کا ایک اور ذریعہ وہ فنڈ ہوتے ہیں جو انہیں اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کرنے کے لیے ملتے ہیں۔ حکومت میں آ نے سے پہلے عمران خاں صاحب بڑے زور شور سے فرماتے تھے کہ یہ فنڈ بلدیاتی اداروں کو ملنا چاہئے، کیونکہ اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کرنے کی ذمہ داری بلدیاتی ارکان کی ہوتی ہے‘ اسمبلیوں کے ارکان کی ذمہ داری قانون سازی ہے‘ انہیں قانون سازی کی طرف ہی توجہ دینا چاہیے۔ لیکن حکومت سنبھالتے ہیں ان کی نظریں بدل گئیں۔ انہوں نے یہاں بھی یو ٹرن لیا‘ اور اسمبلیوں کے ارکان کو ترقیاتی فنڈ دینے پر مجبور ہو گئے۔ اب آپ سوچ لیجئے کہ یہ ترقیاتی فنڈ کہاں کہاں اور کیسے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اور ہمارے ارکان اسمبلی یہ فنڈ حاصل کرنے کے لیے کیوں بے چین رہتے ہیں؟ اور کیا پنجاب اسمبلی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف نے مل جل کر اپنی تنخواہوں اور دوسری مراعات میں جو اضافہ کیا ہے‘ وہ عوام کی خدمت کے لیے ہے؟ اب عمران خاں صاحب خواہ کتنے ہی ناراض ہوتے رہیں، ان کی کون سنے گا۔ ممکن ہے عمران خاں کو بھی ان کی بات ماننا ہی پڑے۔ آخر انہیں بھی تو حکومت کرنا ہے‘ اور حکومت ان ارکان کو خوش کیے بغیر نہیں ہو سکتی۔