میں نہیں جانتا قبلہ قبلی۔ بات یہ ہے میرے بھائی شبلی کہ ہم اپنے کیے کی نہیں دوسروں کے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ عمران خاں نے ہندوستان کے الیکشن کے بارے میں بات کی اور بھڑوں کا چھتا چھیڑ دیا۔ انہوں نے کہا: ہندوستان کے الیکشن میں اگر مودی کامیاب ہوا تو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں زیادہ مدد ملے گی۔ اب شاہ محمود قریشی اس کی کتنی ہی وضاحتیں کرتے رہیں اور کتنا ہی کہتے رہیں کہ عمران خاں کے اس بیان کو سیاق و سباق سے الگ کر کے دیکھا جا رہا ہے مگر بات نہیں بن رہی ہے۔ بات منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی والا معاملہ ہو گیا ہے۔ پاکستان میں اس کا جو رد عمل ہوا وہ تو اپنی جگہ، ہندوستان میں وہ ان کے الیکشن کا موضوع بن گیا ہے۔ کانگریس کو نریندر مودی کے خلاف اسے استعمال کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ دلی کے وزیر اعلیٰ کیجری وال نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ نریندر مودی کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اویسی نے کہا ہے کہ پاکستان کو ہمارے معاملے میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن اسے ایک اور پہلو سے بھی تو دیکھا جا سکتا ہے۔ عمران خاں کے اس بیان سے نریندر مودی کو فا ئدہ نہیں ہوا بلکہ الٹا نقصان ہی ہوا ہے۔ وہ بیٹھے بٹھائے پاکستانی بن گیا۔ حالانکہ اسی نریندر مودی نے اپنے ملک میں پاکستان اور پاکستا نیوں کو گالی بنا دیا ہے۔ بلکہ کہنا تو یہ چاہیے کہ پاکستانیوں کو ہی نہیں مسلمانوں کو بھی گالی بنا دیا ہے۔ صبا نقوی ہندوستان کی معروف صحافی ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب کے حوالے سے مضمون لکھا کہ صرف مسلمانوں کو دہشت گرد کہنا صحیح نہیں ہے۔ دوسرے مذہب کے لوگ بھی دہشت گردی کرتے رہے ہیں۔ اور دہشت گردی کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں دہشت گرد نہیں کہا جاتا۔ یہ بات انہوں نے اپنی طرف سے نہیں لکھی بلکہ ایک امریکی مصنف کی کتاب کے حوالے سے لکھی ہے۔ کتاب میں گاندھی جی کے قتل سے لے کر اندرا گاندھی، راجیو گاندھی کے قتل اور سری لنکا میں ہونے والے ایسے واقعات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ صبا نقوی کا یہ مضمون چھپنا تھا کہ ان کے خلاف توپوں کے دہانے کھل گئے۔ انہیں ایسی ایسی سنائی گئیں کہ توبہ ہی بھلی۔ چلیے، مانے لیتے ہیں کہ عمران خاں کے بیان سے نریندر مودی کو فائدہ نہیں، الٹا نقصان ہوا ہے لیکن کیا اس موقع پر ہمیں ایسا بیان دینا چاہیے تھا؟ سوال یہ ہے۔
اب صبا نقوی کا ذکر آیا ہے تو ان کے والد اور ہندوستان کے جانے پہچانے صحافی سعید نقوی کی کتاب کا ذکر بھی ہو جائے۔ یہ کتاب پہلے انگریزی میں چھپی تھی کہ سعید نقوی انگریزی کے صحافی ہیں۔ ان کے مضامین ہندوستانی اخباروں کے علاوہ پاکستانی اخبار میں بھی چھپتے ہیں۔ انگریزی میں کتاب کا نام ہے:Being The Other:; The Muslim in India. اب اس کا اردو ترجمہ بھی چھپ گیا ہے۔ اردو میں کتاب کا نام ہے ''وطن میں غیر ہندوستانی مسلمان‘‘ یوں تو یہ کتاب ایک اعتبار سے سعید نقوی کی آپ بیتی کہی جا سکتی ہے لیکن اسے آزادی کے بعد ہندوستانی سماج کی بدلتی ہوئی صورت حال کی سرگزشت بھی کہا جا سکتا ہے۔ اب تک وہاں کے مسلمانوں کو جس طرح ہندوستان کی اجتماعی زندگی سے الگ کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، روزمرہ کے واقعات کے حوالے سے، اس کتاب میں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ وضاحت کی گئی ہے کہ رفتہ رفتہ وہاں مسلمان ''غیر‘‘ کیسے ہو گئے۔ یا کیسے غیر بنا دیے گئے۔ گویا وہاں کے مسلمان ہندوستانی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی اس معاشرے کا حصہ نہیں ہیں۔ اب یہاں اس کتاب سے ایک اقتباس پڑھ لیجے۔ سعید نقوی لکھتے ہیں:
''میں اس کی تاریخ نہیں بتا سکتا کہ قطعی طور سے ایسا کب ہوا؟ لیکن ایسا رفتہ رفتہ متعدد سالوں کے دوران ہوا کہ میرے گردوپیش کے لوگ میری شناخت ''مسلم‘‘ (غیر) کی حیثیت سے کرنے لگے۔ یہ ایک نئی کیفیت تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی مجھے ''غیر‘‘ کے خانے میں ڈالنے کی روش کی ابتدا تھی۔ فراق گورکھپوری نے اس کیفیت کو ایک شعر میں بیان کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ضرورت دانائی کی تھی، لیکن ہم پُر ہجوم دنیا میں تنہا بڑے ہو رہے ہیں۔ 1990ء میں مشہور ایڈیٹر اور کتاب Lucknow Boy کے مصنف اور میرے سکول کے زمانے کے کم سے کم ساٹھ برس کے دوست آنجہانی ونود مہتہ نے مجھے دعوت دی کہ میں ان کے میگزین کے لیے ''مسلم نقطۂ نظر‘‘ (Muslim Perspective) کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کروں۔ میں نے انہیں گھور کر دیکھا۔ کیا تم وہی ونود ہو؟ ہم بچپن سے ایک دوسرے کے خاندان کو جانتے ہیں۔ ایک جیسا کھانا، ایک جیسی کتابیں، ایک جیسی فلمیں دیکھنا پسند کرتے تھے۔ ایک ہی میدان میں کھیلتے تھے اور سنیچر کے دن سانس روک کر ازابیلا تھوبرن کالج (آئی ٹی کالج) کی سجی بنی لڑکیوں کو حضرت گنج کی سڑکوں پر گزرتے دیکھتے تھے۔ اگر ہم اختلاف کرتے بھی تھے تو اس کا تعلق ادبی موضوعات سے ہوتا تھا۔ ہم بحث کرتے تھے کہ کن کتابوں کا پڑھنا زیادہ دلچسپ ہو گا۔ اب ایڈیٹر کی حیثیت سے ونود نے مجھے ''غیر‘‘ کی صف میں کھڑا کر دیا۔ میرے خیال میں ونود اس روش کا پالن کر رہے تھے جوآزادی کے بعد ابھری تھی۔ اگر اس ملک کے سیکولرازم اور مساوات کے دکھاوے کو برقرار رکھنا ہے تو اسے ''غیر‘‘ کی ضرورت ہے‘‘۔
یہ تو اس کتاب کا چھوٹا سا اقتباس ہے لیکن کتاب میں ہندوستانی مسلمانوں کے غیر بنائے جانے کی ایک ایک تفصیل بیان کی گئی ہے۔ کتاب میں کشمیر کے مسئلے پر جس غیر جانبدارانہ انداز میں بات کی گئی ہے وہ بھی ہم پاکستانیوں کے لیے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کا ایک نیا پہلو سامنے لاتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حالات تو ہمیں ارون دتی رائے کے ناول میں بھی نظر آتے ہیں‘ لیکن اس کتاب میں جس نظر سے اسے دیکھا گیا ہے وہ آزادی کے بعد اس ریاست میں ہونے والی تبدیلیوں کی سچی اور کھری تاریخ ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جس طرح جموں میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا‘ یہ کتاب اس کی ایک ایک تفصیل بیان کرتی ہے۔ ہم پاکستانیوں کے لیے یقینا یہ حیرت کی بات ہے کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے ایک صحافی، اور وہ بھی مسلمان صحافی کشمیر کے بارے میں ایسی سچی اور کھری باتیں کر رہا ہے۔ ارون دتی کا تو ناول ہے۔ اور حکمراں طبقے ناولوں اور افسانوں میں تو ایسی باتیں گوارا کر لیتے ہیں، لیکن کسی تاریخی اور سوانحی دستاویز میں انہیں برداشت کرناکم سے کم ہم پاکستانیوں کے لیے اچنبھے کی بات ہے۔ کتاب میں شملہ کانفرنس میں ذوالفقار علی بھٹو اور نو عمر بے نظیر سے ملاقات کا احوال بھی بیان کیا گیا ہے۔ ایک سینئر صحافی اور کئی اخباروں کے ایڈیٹر کی حیثیت سے سعید نقوی آزادی کے بعد پیش آنے والے جن واقعات کے عینی شاہد ہیں‘ ان کا تفصیلی ذکر بھی اس کتاب میں موجود ہے۔ لیکن ان کا اصل موضوع ہندوستانی سماج میں مسلمانوں کا غیر یا اجنبی ہونا ہی ہے۔ بابری مسجد منہدم کرنے اور اس مسجد کو رام مندر بنانے کی سازش میں کون کون شریک تھا؟ سعید نقوی نے ان کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس میں صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر ہی شامل نہیں تھے بلکہ اس وقت کے کانگریسی وزیر اعظم نرسمہا رائو بھی اس میں شریک تھے۔ اس کتاب میں سعید نقوی نے ہندوستان میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے پس پشت کام کرنے والی طاقتوں کا پردہ بھی چاک کیا ہے۔ کس علاقے میں یہ فساد کیسے پھوٹا؟ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ کون اسے ہوا دے رہا تھا؟ اور کون اس سے فائدہ اٹھا رہا تھا؟ بلکہ ایسے واقعات سے اب بھی کون فائدہ اٹھا رہا ہے؟ کتاب ان واقعات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ آج وہاں کی سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں مسلمانوں کی ضرورت کیوں نہیں رہی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت اتنی بڑھا دی گئی ہے کہ صرف ایک چھوٹے سے پڑھے لکھے طبقے کو چھوڑ کر باقی عام آدمی بھی مسلمانوں کو اپنا نہیں سمجھتا۔ وہ انہیں غیر اور اجنبی ہی سمجھتا ہے۔ اب آپ اس سے ہی اندازہ لگا لیجئے کہ امیتابھ بچن نے ایک فلم میں مسلمان کا کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اب یہ ہندو سماج کا خوف ہے یا اپنی نفرت؟ یہ آپ خود ہی سوچ لیجئے؛ البتہ ان حالات میں وہاں رومیلا تھاپر یا ان جیسی کچھ باشعور ہستیاں بھی تو موجود ہیں۔ اور وہاں کے کئی سو ادیب اور فن کار عام آدمی سے الیکشن میں بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کی اپیل بھی تو کر سکتے ہیں۔ چلیے، وہاں کے مسلمانوں اور اس علاقے کے لیے یہ بھی بہت بڑی نعمت ہے۔