"MAC" (space) message & send to 7575

یہ بھی ہماری تاریخ ہے!

ظفر اقبال اکثر ریکارڈ کی درستی کرتے رہتے ہیں۔ آج ہم بھی اپنا ریکارڈ درست کرنا چا ہتے ہیں۔ ہم سے غلطی ہو گئی۔ ہم نے لکھ دیا کہ مغربی بنگال کے اعلیٰ پو لیس افسر اور اردو کے جدید شاعر ع رشید (مرحوم) نے منٹو کے افسانوں کا ترجمہ کیا تھا۔ بعد میں یاد آیا کہ انہوں نے منٹو کا نہیں بلکہ بنگالی زبان میں غالب کا ترجمہ کیا تھا اور یہ ترجمہ ہندوستانی بنگال اور بنگلہ دیش‘ دونوں جگہ بہت مقبول ہوا تھا۔ کلکتے کے مسلمانوں پر انہوں نے جو فلم بنائی تھی وہ بھی بہت پسند کی گئی تھی۔ اب ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ ہم بار بار ع رشید کا جو ذکر کر رہے ہیں‘ تو اس کی وجہ ہمارے دل کی وہ کسک ہے جو ہمیں پرانی باتیں یاد دلاتی رہتی ہے۔ یہ بائیس تئیس سال پہلے کی بات ہے جب ہم کلکتے گئے تھے‘ ڈاکٹر مبشر حسن،آئی اے رحمن اور ہندوستان کے چند امن پسند لوگوں نے مل کر پاکستانی اور ہندوستانی عوام کے درمیان دوستی، اخوت و محبت کی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے ایک فورم بنایا تھا۔ ہر دو سال بعد اس فورم کا ایک اجلاس پاکستان اور ایک ہندوستان کے کسی شہر میں ہوتا تھا۔ کلکتے کا اجلاس ہمارے لئے اس وجہ سے زیادہ یادگار ثابت ہوا تھا کہ ایک تو ع رشید جیسے دلچسپ اور عجیب و غریب شخص سے ملاقات ہوئی تھی۔ دوسرے ہمیں ستیہ جیت رے کا میوزیم دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ یہ وہ میوزیم ہے جس میں ستیہ جیت رے کی تمام فلموں کے سکرپٹ اپنی اصل شکل میں رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن پہلے ع رشید کی بات ہو جائے۔ تھے تو اعلیٰ پولیس افسر لیکن عادتیں ایسی تھیں کہ اگر کسی اور مقام اور کسی اور حکومت میں ہوتے تو ایک دن بھی پولیس تو پولیس، کسی بھی سرکاری نوکری میں نہیں رہ سکتے تھے۔ شام ہوئی اور نشے میں دھت۔ اب سب حکومت والے انہیں دیکھ رہے ہیں اور ہنس کر چپ ہیں۔ ع رشید فلم بنانے کے لیے انگلستان گئے اور بھول گئے کہ واپس ملازمت پر بھی جانا ہے۔ کئی مہینے لگا دیئے وہاں۔ واپس آئے تو محکمے کی طرف سے باز پرس کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیر اعلیٰ جیوتی باسو ان کے والد کے دوست تھے یا ان کے خاندان سے ان کے مراسم تھے۔ انہوں نے محکمے سے کہا ''اس شخص کو میرے حوالے کر دو‘‘ اور پھر جیوتی باسو نے ع رشید کو ایک کمرے میں بند کیا اور ان کی وہ خبر لی کہ پھر انہیں فلم بنانا یاد نہیں رہا۔ اور آج ہم جو اس زمانے کو یاد کر رہے ہیں تو خیال آتا ہے کہ ان دنوں کیا وضع داری اور رواداری تھی۔ کمیونسٹ پارٹی کی حکومت تھی۔ جیوتی باسو وزیر اعلیٰ تھے اور کلکتہ شہر کے میئر ایک مسلمان تھے۔ ہم سادگی اور کفایت شعاری کی بہت باتیں کرتے رہتے ہیں مگر ہم نے جو کفایت شعاری اور سادگی اس وقت کے مغربی بنگال میں دیکھی وہ کسی اور جگہ نہیں دیکھی۔ شہر کے میئر کا جو کھانا تھا وہ تو سادہ تھا ہی، لیکن وزیر ثقافت کی چائے نے تو ہماری آنکھیں ہی کھول دی تھیں۔ سستے سستے بیکری کے چند بسکٹ اور بنی بنائی چائے۔ اور یہ چائے جن پیالیوں میں پیش کی گئی وہ پیالیاں ہمارے گجرات کی سستی سے سستی اور عام پیالیوں سے بھی گئی گزری تھیں۔ ہم تو شاید یہ محسوس نہ کرتے مگر ہمارے وفد میں جو خواتین شامل تھیں، ان کی تو ہنسی رکنے میں نہیں آتی تھی۔ جی ہاں، وہ کیا زمانہ تھا۔ کلکتے کی سڑکوں پر ہندوستانی اور پاکستانی مل کر جلوس نکال رہے ہیں اور گا رہے ہیں ''ہم ہوں گے کامیاب... ہم ہوں گے کامیاب، ایک دن‘‘ یہ نصیرالدین شاہ کی ایک ابتدائی فلم کا گانا تھا۔ کیا جوش تھا، کیا جذبہ تھا اور کیا اعتماد تھا۔ اور اب خیال آتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن، شانتی اور دوستی کے اس جوش اور اعتماد کا وہی حشر ہوا جو اس فلم میں نوجوان نصیرالدین شاہ اور اس کے ساتھی کا ہوا تھا۔ ناکامی، ناکامی۔ کیوں؟ تاریخ کے ورق پلٹ لیجئے۔ اب تو ہم اس زمانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جب بھی ہمارا جی چاہتا تھا، دوڑے دوڑے ہندوستان چلے جاتے تھے اور اب اس کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب تو ہم ایک دوسرے کی زبان ہی نہیں سمجھتے۔ 
رخشندہ جلیل ہمارے معتبر نقاد اور استاد آل احمد سرور کی نواسی ہیں۔ انہوں نے اردو زبان اور ادب کی محبت میں اتنی کتابیں لکھی ہیں، اور اردو کتابوں کے اتنے انگریزی ترجمے کیے ہیں کہ اب تو ان کی گنتی بھی ہمیں یاد نہیں۔ انہوں نے انگریزی میں کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ دلی میں رہتی ہیں۔ ہندوستان بھر میں جہاں بھی ادبی اور ثقافتی جشن یا اجتماع ہوتے ہیں ان میں شرکت کرتی ہیں۔ ان کے اپنے ملک میں اور ملک سے باہر انہیں سب ہی جانتے ہیں۔ لیکن انہوں نے جو نئی کتاب لکھی ہے اس کا نام ہے But You Don,t Look Like a Muslim ۔ ابھی یہ کتاب ہم نے نہیں پڑھی ہے۔ لیکن اس کے نام سے ہی ظاہر ہو رہا ہے کہ اس میں ایک ہندوستانی مسلمان خاتون نے اپنی شناخت کے بارے میں اپنے دل کے پھپھولے کس طرح پھوڑے ہوں گے۔ اس سے پہلے ہم سعید نقوی کی کتاب Being the Other سے آپ کو متعارف کرا چکے ہیں۔ اب وہاں ایسی کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ وہاں یہ احساس اتنی شدت کیوں اختیار کر رہا ہے؟ اس کے لیے ہم پھر آپ کو اپنی تاریخ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیں گے۔ ہم پاک انڈیا فورم کو یاد کرتے ہیں‘ اور یاد کرتے ہیں اس فورم کے وہ اجتماع جو دونوں ملکوں کے شدید ترین اختلافات کے بعد منعقد ہوئے۔ کارگل کے بعد بنگلور (آج کا بنگلا لورو) میں جو اجتماع ہوا اس میں امن، شانتی اور دوستی کی باتیں تو ہوئیں مگر کارگل کے واقعے کو مسئلہ نہیں بنایا گیا تھا۔ اور ہاں، اس کے بعد امن کی آشا کی تحریک بھی تو چلائی گئی تھی۔ اس تحریک کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی گئیں لیکن کئی سال وہ کامیابی کے ساتھ چلتی رہی۔ اور پھر اس کا حشر بھی وہی ہوا جو پاک انڈیا فورم کا ہوا تھا۔آج کل ہندوستان میں الیکشن ہو رہے ہیں۔ کیا اس الیکشن کے نتیجے سے کوئی امید باندھی جا سکتی ہے؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پلوں کے نیچے سے پانی بہنے کا محاورہ بہت پرانا ہو چکا۔ اب تو لگتا ہے کہ پہاڑ بیچ میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ چلیے‘ ہم پھرآپ کو بائیس تئیس سال پہلے والے کلکتے کی سیر کرا دیں۔ 1997ء کا نیا سال ہم نے کلکتے میں منایا تھا۔ اتنی رونق اور اتنی رنگا رنگی ہم نے اپنے ہاں عید بقرہ عید پر بھی نہیں دیکھی جو اس رات وہاں دیکھی۔ سارے ہوٹل بھرے ہوئے۔ سڑکیں رنگوں میں نہائی ہوئیں۔ بچے رنگ برنگی ٹوپیاں اوڑھے گاتے، شور مچاتے اپنے ماں باپ کے ساتھ اہلے گہلے پھر رہے ہیں۔ کوئی بھید بھائو نہیں۔ سب خوش۔ سب نہال۔ ہولی دیوالی پر بھی ایسا ہی ہوتا ہو گا؟ مگر ہم نے وہ نہیں دیکھا؛ البتہ آج ہم ایسی خبریں پڑھتے ہیں کہ کھلے میدان میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روک دیا گیا۔ گئو ہتھیا کے نام پر جو ہو رہا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے؛ البتہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے واقعات ہریانہ، راجستھان اور اتر پردیش میں ہی کیوں ہوتے ہیں؟ جنوب میں کیوں نہیں ہوتے؟ اس کے لیے بھی تاریخ سے ہی رجوع کرنا ہو گا۔ اب آخر میں ایک واقعہ اور یاد آ گیا۔ ہم اور اکرام اللہ نئے سال کے خیر مقدم والی رات کی رونقیں دیکھتے ہوئے سڑک پر جا رہے تھے کہ سامنے انسانی ہاتھوں سے کھینچنے والا ایک رکشا نظر آ گیا۔ ہم تو اس کی طرف دھیان بھی نہ دیتے مگر رکشا والے نے آواز دے کر ہمیں روکا۔ کہنے لگا: شام سے کوئی سواری نہیں ملی ہے‘ اگر آپ اس رکشا میں بیٹھ جائیں گے تو میری کچھ مدد ہو جائے گی۔ اور ہم اس رکشا میں بیٹھ گئے۔ اس کے دونوں ڈنڈے یا بم ہاتھوں میں پکڑ کر ایک آدمی اسے کھینچ رہا تھا۔ کھینچ نہیں رہا تھا، دوڑ رہا تھا۔ لیکن یہ تین چار عشرے پہلے کی بات ہے۔ اب یقینا وہاں ایسا نہیں ہو گا بلکہ ہندوستان میں پہلی بار انڈر گرائونڈ ٹرین کا سفر ہم نے کلکتے میں ہی کیا تھا۔ جی ہاں، یہ بھی ہماری ہی تاریخ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں