ہم 1998ء میں انڈونیشیا گئے تھے۔ یہ جزیرہ بالی تھا۔ دنیا بھر کے سیاحوں کی جنت۔ ان دنوں وہاں ایک ڈالر آٹھ سو انڈونیشی روپے کا تھا۔ اس سے چند ہفتے پہلے تک وہاں ایک ڈالر ہزار روپے سے بھی زیادہ کا تھا۔ بیس ڈالر کا نوٹ بدلوانے پر انڈونیشی نوٹوں کی اتنی بھاری گڈی مل جاتی تھی کہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اسے کہاں رکھا جائے۔ ساری جیبیں بھر جاتی تھیں نوٹوں سے۔ اب تو معلوم نہیں، لیکن ان دنوں لا کھ لاکھ اور پانچ پانچ لاکھ روپے کے نوٹ بھی ہوتے تھے۔ ایک پنج ستارہ ہوٹل میں ہم دو آدمیوں نے پانچ لاکھ روپے کی چائے پی تھی۔ اور ایک لاکھ روپے ٹپ میں دیئے تھے۔ چھ لاکھ روپے خرچ ہو گئے تھے دو پیالیوں پر۔ اپنا اور اپنے ملک کی عزت کا سوال تھا۔ انڈونیشی مہمان کو وہاں لے جانا تھا۔ معاف کیجئے، ہم یہ باتیں اس لئے نہیں لکھ رہے ہیں کہ خدا نخواستہ ہمارا بھی حشر وہی ہونے والا ہے۔ خدا نہ کرے ایسا ہو۔ ہمیں تو یہ سوچ کر ہی جھرجھری آ جاتی ہے۔ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں سارے جسم پر۔ ہم تو یاد دلانا چاہتے ہیں اپنے نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والوں کو کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے روپے کے مقابلے میں بھی ڈالر آسمان کی طرف پرواز کرتا چلا جا رہا ہے۔ مہنگائی دم لینے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ سٹیٹ بینک ہمیں خوش خبری سنا رہا ہے کہ اگلے سال مہنگائی اور بڑھے گی۔ اور جن کے پاس ہمارے خزانے کی کنجی ہے وہ ڈرا رہے ہیں کہ نئے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے سے وہ رعایت چھین لی جائے گی جو نواز شریف کی حکومت نے دی تھی۔ اس کے بعد ہمارا کیا ہو گا؟ سبزی ترکاری والا تو لیموں کا بھائو بھی تین چار سو روپے کلو تک لے جائے گا۔ غریب مزدور اور تنخواہ پر گزارہ کر نے والا کیا کرے گا۔ اب آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ انڈونیشیا کے باشندے اس صورت میں کیا کرتے تھے؟ ہاں، ہمیں ان سے یہ سوال کرنا چاہیے تھا۔ مگر وہاں ہم ان کے مہمان تھے اور مہمان ایسے سوال نہیں کیا کرتے؛ البتہ ہم نے یہ دیکھا کہ وہاں ہر مرد اور ہر عورت‘ سب محنت کر رہے ہیں۔ بازاروں میں، فٹ پاتھوں پر ہر قسم کا سامان بیچنے والی عورتیں ہیں۔ اور ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ وہ عورتیں میلے سے کپڑوں میں نظر آتی تھیں۔ توبہ، توبہ اللہ نہ کرے‘ ہمیں اس صورت حال کا سامنا کر نا پڑے۔ لیکن ہم نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والوں کو جب دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اس کی فکر ہی نہیں ہے۔ وہ اربوں روپے کے نئے سے نئے منصوبے بناتے رہتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ روکڑا کہاں سے آئے گا۔ اب نوجوانوں کے لئے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پچاس لاکھ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا وعدہ تو وہ بھول گئے۔ اب انہیں قرض پر لگایا جائے گا۔ اس پر ہمیں مرحوم ابن حنیف یاد آ گئے۔ کتابوں کی دکان چلاتے تھے۔ مزاج تھا پڑھنے لکھنے کا مگر خدا جانے کیسے کاروبار میں پڑ گئے تھے۔ نقصان پر نقصان ہو رہا تھا۔ ایوب خاں کا زمانہ تھا۔ اعلان ہوا کہ چھوٹے کاروباری طبقے کو بیس ہزار روپے قرض دیا جائے گا تاکہ وہ اپنا کاروبار سنبھال سکیں۔ ابن حنیف نے بھی قرض لے لیا۔ دکان نہ چلنا تھی نہ چلی۔ آدمی شریف تھے۔ اب ان کے سر پر قرض کا بوجھ بھی سوار ہو گیا۔ کوئی اور ہوتا تو دکان بند کرکے بیٹھ جاتا کہ لو، جو کرنا ہے کر لو‘ مگر وہ ابن حنیف تھے۔ دکان کو لات ماری اور اخبار میں نوکری کر کے قرض ادا کیا۔ اب خدا کرے نوجوانوں کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ ویسے کاروبار کرنا ہر ایک کی بس کی بات نہیں ہے۔ خیر، ابھی تو نوجوانوں والے منصوبے کی تفصیل ہی ہمارے سامنے نہیں آئی۔ اس لیے ابھی کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا۔
ہمیں ترس آنے لگا ہے ان وزیروں پر جنہیں یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ صبح شام ٹی وی پر نظر آئیں اور حکومت کے مخالفوں کو چور اور ڈاکو کہہ کر اپنا فرض ادا کرتے رہیں۔ ہمیں تو یہاں پرانے زمانے کے گراموفون ریکارڈ یاد آ رہے ہیں۔ جب ریکارڈ (یا توے) میں سوئی پھنس جاتی تھی تو ایک ہی آواز بار بار آتی رہتی تھی۔ میرا نام کالو قوال، میرا نام کالو قوال۔ ہمارے وزیر بالخصوص اطلاعات کی مشیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان تو جیسے ٹیلی وژن میں پھنس کر رہ گئی ہیں۔ انہیں تو خواب میں بھی ٹی وی سکرین ہی نظر آتی ہو گی۔ ہمارے تو کان ترس گئے ہیں کوئی نئی اور طبع زاد بات سننے کو۔ اس حکومت یا اس جماعت میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ایک بھی نئی بات کہہ دے۔ اب رہے شیخ رشید‘ تو انہیں ہر روز کچھ نہ کچھ کہنا ہی ہوتا ہے۔ ایک نشست سے تو وہ وزیر بنے ہیں۔ اگر اس پر بھی وہ خاموش رہیں گے تو انہیں وزیر کون مانے گا۔ اب چاہے حکومت کے وزیر کتنا ہی کہتے رہیں کہ یہ حکومت کا موقف نہیں ہے‘ مگر شیخ رشید اپنی سی کہتے رہیں گے۔ انہیں حکومت میں جو رہنا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم تو خیر معصوم ہیں۔ بھو لے بھالے ہیں۔ انہیں تو جو بھی کچھ سمجھا دے وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ بچوں کی طرح خوش ہو جاتے ہیں۔ کسی نے بتایا کہ سمندر میں جو کھدائی ہو رہی ہے اس سے گیس اور تیل نکل آئیں گے۔ بس، پھر کیا تھا۔ ہمارے وزیر اعظم نے اعلان کر دیا کہ آئندہ پچاس سال تک ہمیں کہیں اور سے گیس اور تیل منگوانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ کتنا سہانا خواب تھا۔ لیکن جب خواب سے جاگے تو معلوم ہوا کہ جو سنا وہ افسانہ تھا۔ نہ وہاں گیس تھی اور نہ تیل۔ اب کنواں بند کیا جا رہا ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ سمندر میں کھدائی کا کام تو پچھلی حکومتوں کے زمانے سے ہو رہا ہے۔ ان حکومتوں نے تو ایسے بغلیں نہیں بجائی تھیں۔ وجہ وہی ہے کہ انہیں پچھلی حکومتوں اور پچھلے سیاست دانوں کو برا بھلا کہنے سے فرصت ملے تو ملک و قوم کی بھلائی کا سوچیں۔ جب آپ کے پاس مستقبل کے لیے کچھ ہے ہی نہیں تو پھر دن رات اسی منتر پر گزارہ ہو گا کہ پہلے والے سب کھا گئے‘ ہمارے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ بلاول بھٹو نے افطار پر مخالف جماعتوں کو اکٹھا کیا۔ اس کی وجہ بھی حکومت کا رویہ ہی ہے۔ اگر اپنی انا کا بوجھ اپنی پیٹھ پر سے اتار دیتے اور ان جماعتوں سے کہتے کہ آئو مل کر ملک کو اس بحران سے نکالیں تو کون ہے جو اس آواز پر لبیک نہ کہتا۔ لیکن ہمارے تکبر اور غرور کا حال تو یہ ہے کہ ہم قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی جاتے ہیں تو ایسے جیسے پوری قوم پر احسان کر رہے ہوں۔ لیجئے، ہم چلے تھے انڈونیشی روپے اور ڈالر سے اور جانے کہاں پہنچ گئے۔ سنا ہے‘ بلکہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی زبانی سنا ہے کہ اگلے ہفتے حکومت کچھ ایسے اقدامات کر رہی ہے جس سے ملک کا معاشی بحران دور کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہمارا روپیہ اپنی اصلی قیمت پر واپس آ جائے گا؟ کیا مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہو جائے گا؟
اب آخر میں ہم آپ کو یہ خوش خبری سنا دیں کہ پیٹر او بورن نے 2014ء میں Wounded Tiger کے نام سے پاکستانی کرکٹ کی جو ضخیم تاریخ لکھی تھی اس کا اردو ترجمہ ہو گیا ہے۔ یہ تر جمہ نجم لطیف نے کیا ہے‘ اور اس کا نام رکھا ہے ''وکٹ سے وکٹ تک‘‘۔ پاکستان کرکٹ کی تاریخ۔ اس کتاب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کرکٹ کے اعلیٰ حکام اور سابق کھلاڑیوں کی یادوں سے بھرپور ایک ثقافتی اور سیاسی دستاویز ہے۔ یہ ترجمہ ایسے موقع پر شائع کیا گیا ہے جب سب کی آنکھیں ورلڈ کپ پر لگی ہوئی ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم کرکٹ کے بارے میں صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ جب پاکستانی ٹیم کہیں کھیل رہی ہو تو ہم میچ دیکھ لیتے ہیں۔ اس لئے اس کتاب کے بارے میں ہم اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔
جب آپ کے پاس مستقبل کے لیے کچھ ہے ہی نہیں تو پھر دن رات اسی منتر پر گزارہ ہو گا کہ پہلے والے سب کھا گئے‘ ہمارے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ بلاول بھٹو نے افطار پر مخالف جماعتوں کو اکٹھا کیا۔ اس کی وجہ بھی حکومت کا رویہ ہی ہے۔