خلیل جبران اور رابندر ناتھ ٹیگور پھر گڈمڈ ہو گئے۔ عمران خاں صاحب نے ٹیگور کا قول خلیل جبران سے منسوب کر دیا۔ اور ہم بیٹھے ان کی تصحیح کر رہے ہیں‘ حالانکہ اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ عمران خاں صاحب نے جب ہوش سنبھالا تو لاہور میں خلیل جبران ہی مشہور تھے۔ خدا حکیم حبیب اشعر کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے‘ انہوں نے پورا کا پورا خلیل جبران ہی اردو میں ترجمہ کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے خلیل جبران کے اقوال زریں ہر ایک کی زبان پر چڑھ گئے ہیں‘ حالانکہ ہمارے عربی زبان و ادب کے عالم محمد کاظم کہتے تھے کہ عربی ادب میں خلیل جبران کا کوئی خاص مقام نہیں ہے‘ لیکن چونکہ اس کے چونکا دینے والے اقوال ہمیں بہت اچھے لگتے ہیں‘ اس لئے جبران صاحب ہی ہمیں یاد آتے ہیں۔ اب رہ گئے رابندر ناتھ ٹیگور، تو شاید آج کے نوجوانوں کو تو یاد نہ ہو، مگر ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ کسی زمانے میں ہم نے ٹیگور کے مقابلے میں نذرالاسلام کو لا کھڑا کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا‘ جب مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ٹیگور اپنی تمام خوبیوں کے باوجود ہندو تھا اور ہندوستانی تھا۔ اور نذرالاسلام اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود مسلمان تھے۔ اب جہاں تک عمران خاں کا تعلق ہے وہ ہمارے سیاست داں ہیں۔ اور ہمارے سیاست داں عام طور پر کتابوں سے ذرا کم ہی واسطہ رکھتے ہیں۔ اول تو انہیں سیاسی مہم جوئی سے فرصت نہیں ملتی۔ دوسرے کتاب خواہ مخواہ دماغ پر بوجھ ڈالتی ہے۔ اس لئے سنی سنائی پر بھروسہ کرتے ہیں اور جو یاد آ جائے کہہ ڈالتے ہیں۔ وہ تو ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے‘ جو کتابیں پڑھتے بھی تھے‘ اور کتابیں لکھتے بھی تھے۔ ان کا مقابلہ تو کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ کتابوں کے رسیا ایک اور سیاست داں بھی تھے۔ وہ تھے میاں ممتازدولتانہ۔ ان کی لائبریری دیکھنے کے قابل تھی۔ ایک بہت ہی وسیع و عریض کمرے میں فرش سے چھت تک کتابوں سے بھری الماریاں تھیں۔ ہر موضوع پر وہاں کتاب موجود تھی۔ اور ابھی ابھی خیال آیا کہ آخر یہ ہزاروں کتابیں گئی کہاں؟ ان کی آٹھ دس کنال کی کوٹھی تو خاک میں مل گئی۔ اور اس جگہ چھوٹے چھوٹے مکانوں کی ایک کالونی بن گئی ہے۔ کیا وہاں دولتانہ صاحب کی کوئی یادگار بھی باقی ہے؟ یہ کوئی نہیں بتاتا۔
یہ ہم پرانے زمانے کی بات کر رہے ہیں۔ اس زمانے میں کچھ اور بڑے سیاست داں بھی تھے جن کا رشتہ کتابوں کے ساتھ تھا۔ اس وقت ان سب کے نام یاد نہیں آ رہے ہیں‘ لیکن نئے زمانے تک آتے آتے بے نظیر بھٹو ہی یاد آتی ہیں‘ جنہوں نے نہ صرف کتابوں سے رشتہ رکھا بلکہ کتاب لکھی بھی۔ وہ کتابیں پڑھتی تھیں۔ اب آ جائیے آج کی سیاست پر۔ ذرا ادھر ادھر نظر دوڑائیے۔ آپ کو ایسے کتنے سیاست داں دکھائی دیتے ہیں جو کتابیں پڑھتے ہیں اور وہ کتاب لکھنے کی ہمت بھی کرتے ہیں؟ یہ ہم صف اول کے سیاست دانوں کی بات کر رہے ہیں۔ ہمارا تعلق چونکہ ادب سے ہے اس لیے اس وقت سب سے پہلے ہمیں میاں رضا ربانی یاد آ رہے ہیں۔ انہوں نے افسانے لکھے ہیں۔ انگریزی میں افسانے لکھے ہیں۔ ان کے انگریزی افسانوں کے مجموعے کا نام ہے Invisible People۔ بعد میں ''اوجھل لوگ‘‘ کے نام سے اس کا اردو ترجمہ بھی چھپ گیا ہے۔ اسی جماعت کے مولا بخش چانڈیو نے بھی دو کتابیں لکھی ہیں۔ ایک سندھی میں اور دوسری اردو میں۔ ڈاکٹرنفیسہ شاہ بھی اسی پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی انگریزی کتاب کو بہت سراہا گیا ہے۔ اب اسی پارٹی میں آپ فخر زماں اور اسلم گورداس پوری کو بھی شامل کر لیجئے۔ اسلم گورداس پوری شاعری کرتے ہیں۔ مگر فخر زماں شاعری‘ ناول اور ڈرامے بھی لکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کا انگریزی ناول بھی چھپا ہے۔ ہمیں جو نام یاد آتے جا رہے ہیں‘ ہم ان کا ذکر کر رہے ہیں‘ لیکن اس جماعت اور اس کی تحریک نے بے شمار شاعر پیدا کئے۔ ایسے شاعر جن کے تخلیق کردہ نعرے آج بھی جلسوں اور جلوسوں میں لگائے جاتے ہیں۔ یہ تو تھے پیپلز پارٹی کے سیاست داں۔ کیا نواز لیگ کے سیاست دانوں نے بھی کوئی کتاب لکھی ہے؟ ہمیں تو یاد نہیں؛ البتہ تحریک انصاف کے حامد خاں کی کتاب ہمیں یاد ہے۔ لیکن حامد خاں نے یہ کتاب تحریک انصاف میں شامل ہونے سے پہلے لکھی تھی۔ قانونی حلقوں میں اس کتاب کی بھی بہت وقعت ہے۔ لیکن کیا حامد خاں واقعی تحریک انصاف میں شامل ہیں؟ نظر تو نہیں آتے۔ اب آج کل سیاست دانوں کی جو نسل سامنے آئی ہے، اس کی بات بھی ہو جائے۔ یوں لگتا ہے کہ اس نسل کو تو بولنے اور اپنے مخالفوں کو برا بھلا کہنے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ ان کے پاس کتاب پڑھنے کا وقت ہی کہاں ہے۔ وہ جب بولنے پر آتے ہیں کسی توقف کے بغیر بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔ دوسروں کی بالکل ہی نہیں سنتے۔ کسی حد تک غالباً عمران خاں صاحب بھی۔ اس معاملے میں وہ بالکل ہی معصوم آدمی ہیں۔ وہ جو سن لیتے ہیں وہ بول دیتے ہیں۔ انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور کو کہاں پڑھا ہو گا۔ وہ ٹیگور جنہیں ان کی نظم گیتانجلی پر نوبیل انعام ملا تھا‘ اور سر کا خطاب بھی۔ اور جب 1919ء میں جلیانوالہ باغ میں انگریزوں نے قتل عام کیا تھا‘ تو ٹیگور نے سر کا خطاب واپس کر دیا تھا۔ ہمارے کسی مسلمان شاعر نے یہ خطاب واپس نہیں کیا تھا۔ شاعری، افسانہ، ناول، ڈرامہ اور رقص، حتیٰ کہ تعلیم میں بھی، کونسی صنف ایسی ہے جس پر ٹیگور کی چھاپ نہیں ہے۔ لیکن یہ لکھنے پڑھنے کا معاملہ ہے۔ کچھ لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ عمران خاں صاحب نے اسلامی تاریخ کی کچھ نہ کچھ کتابیں ضرور پڑھی ہوں گی۔ اسلامی تاریخ کے جس زمانے کا وہ ذکر کرتے ہیں‘ اس زمانے میں ریاست کا وہ تصور نہیں تھا جو آج ہے۔ وہ قبائلی معاشرہ تھا‘ اور ایک مثالی معاشرہ۔ ایسا مثالی معاشرہ جہاں دشمنوں کو بھی معاف کر دیا جاتا تھا۔
اب بولنے کی بات آئی ہے تو شیخ رشید احمد بھی یاد آ گئے ہیں۔ وہ مخالفوں کے خلاف بلا تکان بولتے ہیں۔ نہیں بولتے تو اپنی ریلوے کے بارے میں۔ پچھلے دس مہینوں میں ریل گاڑیوں کے چوالیس حادثے ہو چکے ہیں اور انہیں اس کی پروا نہیں ہے۔ پرسوں کے حادثے میں ریل گاڑی کا ڈرائیور اور اس کا اسسٹنٹ مر گئے‘ اور شیخ صاحب کہہ رہے ہیں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ وہ تو ریل گاڑی کے کسی بھی حادثے پر خواجہ سعد رفیق سے استعفے کا مطالبہ کرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ اخلاقیات زمانے کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔
اوپر ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر آیا ہے۔ اس حوالے سے یہاں ایک کتاب یاد آ گئی۔ بھٹو ایک ایسی شخصیت ہیں جس پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اور لکھی جاتی رہیں گی۔ وہ پاکستانی مصنفوں کا موضوع بھی ہیں، اور غیر ملکی مصنفوں کا موضوع بھی۔ شمیم احمد صاحب سابق اعلیٰ سرکاری افسر ہیں۔ سی بی آر‘ جو اب ایف بی آر ہے، کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ نفسیات ان کا موضوع ہے۔ حال ہی میں بھٹو پر انگریزی میں ان کی کتاب چھپی ہے۔ نام ہے Zulfikar Ali Bhutto: The Psychodynamics of his Rise and Fall کتاب کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں ذوالفقار علی بھٹو کا نفسیاتی تجزیہ کیا گیا ہے۔ بھٹو کی پیدائش سے لے کر زندگی کے آخری لمحوں، یعنی پھانسی گھاٹ تک بھٹو اور ان کی سیاست کو نفسیاتی حولوں سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھٹو کے دور کی تاریخ کا حقیقت پسندانہ جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ کتاب میں بھٹو کے ان ساتھیوں کا ذکر بھی ہے‘ جو شروع سے ان کے ساتھ تھے اور بعد میں بچھڑ گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر بہت کتابیں لکھی گئی ہیں۔ لیکن یہ کتاب ان سے بالکل ہی مختلف ہے۔ ہم نے اوپر عرض کیا کہ ہمارے سیاست داں مشکل سے ہی کوئی کتاب پڑھتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ کتاب ضرور پڑھنا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب بھی یہ کتاب ضرور پڑھیں گے۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے عرض ہے کہ شمیم احمد صاحب کی ایک کتاب اور بھی پڑھ لیں۔ یہ کتاب ہے Torment and Creativity اس کتاب میں شیکسپیئر سے لے کر ہمارے اپنے نامور ادیبوں اور شاعروں تک کا نفسیاتی تجزیہ کیا گیا ہے۔