ایک ذرا تیز بارش ہوئی اور چیونٹیوں کے پر نکل آئے۔ چیونٹیوں کے پر نکل آئے اور انہوں نے ہمارے گھر پر یلغار کر دی۔ ہم نے تازہ ہوا کھانے کے لیے دروازہ کھلا رکھا تھا۔ ہم جانتے ہیں‘ چیونٹیوں کے پر نکلنے کا مطلب ہوتا ہے ؛ان کی موت‘ لیکن جتنا عرصہ بھی وہ زندہ رہیں گی‘ اس عرصے میں تو ہمارا جینا دوبھر کر دیں گی۔ ہم نے تمام روشنیاں بجھا دیں۔ صرف باہر کی روشنی جلتی چھوڑ دی کہ یہ چیونٹیاں باہر کی طرف بھاگیں۔ ہمارا یہ حربہ کارآمد ثابت ہوا۔ اب وہ پروں والی چیونٹیاں باہر کی روشنی کی طرف بھاگیں‘ لیکن اس وقت تک ہمارے لِونگ روم میں ان چیونٹیوں کے کشتوں کے پشتے لگ چکے تھے اور ہمارے ہاتھوں اور پیروں پر ان کے کاٹنے کے نشان تھے۔ چیونٹیاں تو چلی گئی تھیں‘ مگر وہ اپنی نشانیاں چھوڑ گئی تھیں۔ پس‘ ثابت ہوا کہ تازہ ہوا کھانے کے شوق میں دروازے کھلے رکھنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اپنے دروازے بند رکھو۔ چیونٹیوں کے پر نکل آئے ہیں۔ وہ اچانک حملہ کر سکتی ہیں۔ لیجئے‘ اب تک ہم نے جو لکھا ہے‘ اسے آپ استعاراتی اور علامتی کہانی نہ سمجھ لینا۔ یہ واقعہ ہمارے ساتھ پیش آ چکا ہے اور اس وقت پیش آیا ہے جب ہم انگریزی اور اردو کی موٹی موٹی ڈکشنریاں لئے بیٹھے تھے اور select اور elect کا فرق جاننے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان پروں والی چیونٹیوں کو دیکھ کر خیال آیا کہ یہ مسئلہ لغتوں اور ڈکشنریوں کا نہیں ہے۔ یہ تو سیدھا سادہ حسِ لطیف کا مسئلہ ہے؛ اگر‘ آپ کے اندر حسِ لطیف ہے تو ایسا طنز اور ایسا مزاح آپ کو لطف دے گا۔ اور آپ اسے ایک زوردار قہقہے میں اڑا دیں گے۔ اپنے منہ کا مزہ خراب نہیں کریں گے‘ مگر یہاں نازک مزاج شاہاںکا معاملہ آ جاتا ہے۔ اور اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ آپ نے وزیر اعظم کو سلیکٹڈ کہنے پر پابندی لگائی تو اس کے بجائے دوسرے لفظ سامنے آنے لگے۔ اردو اور انگریزی کی ڈکشنریاں بھری پڑی ہیں ایسے مترادفات سے۔ اگر آپ مترادفات معلوم کرنا چاہتے ہیں تو مرحوم شان الحق حقی کی کتاب ''اردو مترادفات‘‘ پڑھ لیجئے۔ یہ کتاب سابق مقتدرہ قومی زبان اور حال ادارہ فروغ قومی زبان نے چھاپی ہے۔ کہنے دو جو کوئی کچھ کہہ رہا ہے۔ اپنا دل برا نہ کرو۔ دونوں جانب سے ایسی ہی زبان استعمال کی جا رہی ہے۔ اب‘ اگر جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ سلیکٹڈ کے لفظ پر پابندی لگا کر ڈپٹی سپیکر صاحب نے لفظی آتش بازی کا راستہ نہیں روکا ہے‘ بلکہ نئے الفاظ تلاش کرنے کی راہ دکھا دی ہے۔ یوں بھی ہم آج کل طرح طرح کے سینسرشپ کا شکار ہیں۔ اب اگر ڈپٹی سپیکر صاحب بھی ارکان اسمبلی کی زبان پر تالے لگانے لگے تو پھر اظہار کی آزادی کا کیا بنے گا۔ آخر ڈپٹی سپیکر صاحب کس کو خوش کرنے کے لیے یہ پابندی لگا رہے ہیں۔ ہمیں تو ہر جگہ حسِ لطیف کی کمی نظر آ رہی ہے۔
خیر‘ ہم اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتے۔ یہ بہت ہی نازک معاملہ ہے۔ ذرا سا پیر پھسلا اور پہنچے پر خطر میدان میں۔ ہم کتابوں کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں۔ آپ کو شاید علم نہ ہو کہ اس حکومت نے بلا واسطہ طور پر کتابوں کی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ بلا واسطہ ہم نے اس لئے کہا کہ یہ کارنامہ پوسٹل ڈیپارٹمنٹ نے کیا ہے۔ اور اس محکمے کے وزیر ہیں‘ نوخیز وزیر مراد سعید۔ وہ بڑے فخر سے اعلان فرماتے ہیں کہ انہوں نے وزارت سنبھالنے کے بعد اس محکمے کی آمدنی میں اضافہ کر دیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خاں بھی ان صاحبزادے کی بہت تعریفیں کرتے ہیں۔ آئیے‘ ہم آپ کو بتائیں کہ اس محکمے کی آمدنی میں اضافہ کیسے ہوا ہے۔ اس حکومت کے آنے سے پہلے جو خط یا لفافہ آٹھ رو پے میں جاتا تھا۔ اب وہ بیس روپے میں جاتا ہے۔ جو کتابیں اور رسالے VPP سے 80 روپے میں جاتے تھے۔ اب وہ 160 روپے میں جا رہے ہیں۔ کتابیں اور رسالے چھاپنے والے پریشان ہیں کہ اس مہنگائی کو وہ کیسے روکیں۔ قیمتیں بڑھانے کا الزام تو ان پر آ رہا ہے۔ مان لیا کہ موبائل فون آ جانے کے بعد اب خط شاید ہی لکھے جاتے ہوں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جب آپ کا موبائل خط اور لفافے سے زیادہ کام کر رہا ہے تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ خط لکھے‘ لیکن بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ خط لکھنا پڑ ہی جاتا ہے۔ اب یہاں ہمیں وہ زمانہ یاد آ گیا جب پوسٹ کارڈ بھی ہوتے تھے۔ آنے دو آنے کا پوسٹ کارڈ لکھا اور اپنے عزیزوں کو بھیج دیا۔ ہمارے دوستوں میں پرو فیسر لطیف الزماں خاں شاید آخری انسان تھے‘ جو مرتے دم تک پوسٹ کارڈ ہی لکھتے رہے۔ ایک تو ان کی صاف ستھری‘ نکھری نکھری تحریر اور اوپر سے سادہ سادہ پوسٹ کارڈ۔ ہم دور سے دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ یہ لطیف الزماں خاں کا پوسٹ کارڈ ہو گا۔ اور ملتان سے آیا ہو گا۔ آج کی نسل کے لیے یہ ساری باتیں نئی ہوں گے‘ لیکن ہمیں یہ یاد آتی ہیں۔ اگر پوسٹ کارڈ کا ایک کونہ پھٹا ہوا ہوتا تھا تو لوگ سمجھ جایا کرتے تھے کہ کوئی بری خبر آئی ہے۔ اور پھر تار بھی تو ہوتا تھا۔ اس کا بھی یہی حال تھا کہ اگر کسی کے گھر تار آتا تھا تو ڈر جاتے تھے کہ کسی سانحے ‘ کسی حادثے کی خبر ہو گی‘ لیکن ہمارے ایک دوست ایسے بھی تھے جو ہمیشہ تار کے ذریعے ہی اپنی آمد کی اطلاع دیتے تھے۔ یہ سب باتیں پرانی ہو گئی ہیں۔ اب لفافہ بیس روپے کا اور وی پی ایک سو ساٹھ رو پے کی ہو گئی ہے۔ اور وزیر اعظم عمران خاں اپنے اس نوخیز وزیر کی شان میں رطب اللسان ہیں ‘جو اپنے محکمے کی آمدنی بڑھانے کا دعویٰ کر رہا ہے‘ لیکن یہاں کس کس چیز کو رویا جا ئے۔ تھک گئے مہنگائی کا رو نا روتے روتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلے مہینے بجلی اور گیس کا جو بل آتا ہے ‘وہ کس کس کو اختلاج قلب میں مبتلا کرتا ہے؟
یہاں پھر مراد سعید یاد آ گئے۔ یہی وہ وزیر ہیں جو بولنے پر آتے ہیں تو سانس لینا بھی بھول جاتے ہیں۔ اس دن وہ کونڈولیزا رائس کی ضخیم کتاب اٹھا لائے‘ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ این آر او کے لیے کس کس نے امریکیوں کے پائوں پکڑے تھے۔ ہمیں اوروں کا تو نہیں معلوم نہیں؛ البتہ حسین حقانی نے اس کی تردید کی ہے۔ بہرحال اس سے یہ ثابت ہوا کہ مراد سعید صرف بولتے ہی نہیں کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کتاب وہ خود پڑھتے ہیں یا انہیں کوئی بتاتا ہے کہ اس کتاب کے فلاں صفحے پر یہ لکھا ہے؟ اگر وہ کتاب خود ہی پڑھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ اور ان جیسے دوسرے وزیر کتاب پڑھنے کے لیے وقت کیسے نکال لیتے ہیں؟ ایک تو وزارت کے کام۔ اوپر سے ٹیلی وژن چینلز کے ٹاک شو۔ واقعی انہیں تو سانس لینے کی فرصت ہی نہیں ملتی ہو گی‘ لیکن یہ صرف حکومت کے وزیروں کا قصہ ہی نہیں ہے۔ حزب اختلاف کے رہنمائوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہر شام انہیں ٹاک شوز میں آنا جو ہوتا ہے ۔
اب یہاں ہم اپنی اکتاہٹ کا ذکر بھی کر دیں۔ ٹیلی وژن پر ایک ہی شکل دیکھ دیکھ کر ہم بور ہو گئے ہیں۔ یہ لِپی پُتی شکلیں‘ جو لگتا ہے جیسے ابھی ابھی بیوٹی پارلر سے سیدھی چلی آ رہی ہیں ہماری آنکھوں اور ہمارے دماغ کا امتحان لے رہی ہیں۔ اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ کس حکیم نے کہا ہے کہ ٹیلی وژن دیکھا کرو؟ مگر صاحب‘ اس معاشرے میں زندہ رہنا ہے تو اس کے سیاسی مسائل پر نظر رکھنا بھی تو ضروری ہے۔ اس کے بغیر تو زندہ نہیں رہا جا سکتا‘ لیکن ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ ورائٹی کے لیے ہی سہی جو شکل صبح شام نظر آ تی ہے‘ اس میں کبھی کبھی تبدیلی بھی کر دینا چاہیے۔ اپنی حسِ لطیف زندہ رکھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے۔
ہمیں وہ زمانہ یاد آ گیا جب پوسٹ کارڈ بھی ہوتے تھے۔ آنے دو آنے کا پوسٹ کارڈ لکھا اور اپنے عزیزوں کو بھیج دیا۔ ہمارے دوستوں میں پرو فیسر لطیف الزماں خاں شاید آخری انسان تھے‘ جو مرتے دم تک پوسٹ کارڈ ہی لکھتے رہے۔ ایک تو ان کی صاف ستھری‘ نکھری نکھری تحریر اور اوپر سے سادہ سادہ پوسٹ کارڈ۔ ہم دور سے دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ یہ لطیف الزماں خاں کا پوسٹ کارڈ ہو گا۔