کچھ بھی تو نیا نہیں ہو رہا ہے۔ وہی ہو رہا ہے جو پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ ہم بچوں کے گھومنے والے جھولے پر بیٹھے ہیں۔اس جھولے کو شاید رولر کوسٹر کہا جاتا ہے ۔ جہاں سے چلتے ہیں وہیں واپس آ جاتے ہیں ۔ کس شاعر کی کوٹھڑی سے توپ برآمد ہوئی تھی ۔ اور کس کی جامہ تلاشی پر بھینس برآمد ہوئی تھی؟ یاد نہیں ۔ بس، فرق اتنا پڑا ہے کہ ان زمانوں میں صرف اخبار ہوتے تھے یا پھر ٹوٹا پھوٹا ٹیلی وژن بھی آ گیا تھا۔ اس وقت اس پر سیاہی کا پردہ ڈالنا آسان تھا ۔ اب سوشل میڈیا ہے۔ اور بہت ہی چلتا پھرتا اور بڑا طاقت ور سوشل میڈیا۔ اس پر سیاہی کی چادر ڈالنا آسان نہیں ہے ۔ اب کوئی بات، کو ئی واقعہ، کوئی اقدام اور کوئی حکم نامہ چار پردوں میں بند نہیں رہتا۔ اس لئے ایک در بند ہوتا ہے یا بند کیا جاتا ہے تو دوسرا در کھل جاتا ہے ۔ لیکن ان سب باتوں کا ذکر کب تک کیا جاتا رہے گا۔ اس لئے آئیے، آج ہم دوسری باتیں کرتے ہیں۔ ہمیں پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ انسانوں کی ذہنی اور جذباتی بیماریوں کا علاج کتابوں کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے۔ ایک سکول ہے، جس کا نام ہے ''سکول آف لا ئف‘‘ ۔ اس کا صدر دفتر لندن میں ہے۔ آپ شدید جذباتی ہیجان اور خلجان میں مبتلا ہیں تو اس سکول سے رجوع کرتے ہیں۔ وہاں پہلے آپ کی کتابیں پڑھنے کی عادت کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد آپ کے لیے چند کتابیں تجویز کی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کتابیں پڑھو۔ عام طور پر یہ کتابیں فکشن کی ہوتی ہیں۔ لیکن نان فکشن بھی ہو سکتی ہیں۔ اس طریقہ علاج کا نام ہے: bibliotherapy، کتابی علاج، یا علاج بذریعہ کتاب۔ جہاں علاج ہوتا ہے اسے ''لٹریری کلینک‘‘ کہا جاتا ہے ۔ ہم تو لندن والے سکول کا پڑھ کر ہی حیران ہوئے تھے۔ ہماری حیرت اس وقت اور بڑھ گئی جب معلوم ہوا کہ ایسے کلینک تو یورپ میں کئی جگہ موجود ہیں۔ یہ کلینک بھی موجود ہیں اور ان سے علاج کرانے والے بھی موجود ہیں۔ امریکہ کے مشہور رسالے ''نیو یارکر‘‘ میں اس طریقۂ علاج پر جو ایک تفصیلی مضمون چھپا ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ قدیم یونان میں بھی ایسے کلینک موجود تھے یا اگر کلینک نہیں تھے تو کتابوں کے ذریعے علاج کرانے کی روایت موجود تھی۔ اس مضمون میں چند لوگوں نے اپنے تجربے بھی بیان کیے ہیں ۔ انہوں نے ان کتابوں کے نام بھی لکھے ہیں جو انہوں نے علاج کے دوران میں پڑھیں۔ ان سب کا اتفاق یہی ہے کہ ناول اور افسانے اس علاج میں زیادہ کارآمد ہوتے ہیں لیکن عام پسند اور سستے ناول اور افسانے نہیں، بلکہ وہ ناول اور وہ افسانے جو انسانی جذبات کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں ، اور انسانی رشتوں کو ان کے صحیح تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انسان کے دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتے اور انسان کے اس دنیا اور کائنات کے ساتھ رشتے۔ ہم نے یہ پڑھا (بلکہ اپنے دوستوں کو بھی پڑھوایا) اور سوچا کہ کیا یہ کام ہمارے ہاں بھی ہو سکتا ہے؟ فوری طور پر ہمیں جو جواب ملا، وہ یہ تھا کہ یہ سب کھاتے پیتے اور پڑھے لکھے ملکوں اور معاشروں کے چونچلے ہیں لیکن غور کیا تو انکشاف ہوا کہ ایک اچھی کتاب پڑھ کر تو ہمارے اندر بھی بہت کچھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے آپ سے بالا ہو کر ایک اور ہی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔اس دنیا میں جہاں اس کتاب کا مصنف ہمیں پہنچانا چاہتا ہے۔ ہمارے لیے یہ سب کچھ نیا ہوتا ہے۔ اب یہاں یہ بحث فضول ہے کہ کیا ہم اپنے سیاسی رہنمائوں کو بھی کتابیں پڑھنے کی طرف راغب کر سکتے ہیں؟ خیر، اس موضوع پر ہم پہلے ہی بہت لکھ چکے ہیں۔ اس لئے اب اور کچھ کہنا نہیں چاہتے۔ یہاں تک لکھنے کے بعد خیال آیا کہ ہماری تاریخ تو یہ ہے کہ ہمارے بہت زیادہ کتابیں پڑھنے والے سیاست داں بھی وہی کچھ کرتے رہے ہیں، جو کتاب کو ہاتھ تک نہ لگانے والے کرتے ہیں۔ اس لئے ''لٹریری کلینک‘‘ جیسے شفا خانے ہمارے کسی کام کے نہیں ہیں ۔یہ مغربی ملکوں کو ہی مبارک ہوں۔
اب کتابوں کے ذریعہ علاج کا ذکر آیا ہے تو ان چند ضخیم رسالوں کا تذکرہ بھی ہو جائے جو خاص نمبر کی شکل میں ہمارے سامنے آئے ہیں۔ مجلس ترقیٔ ادب کا جریدہ ہے ''صحیفہ‘‘ ۔جب سے تحسین فراقی مجلس کے سر براہ بنے ہیں اس جریدے کی شکل ہی بدل گئی ہے۔ اول تو فراقی صاحب نے دو جلدوں میں اس جریدے کے مکتوب نمبر چھاپے۔ یہ وہ خط ہیں جو ہمارے معروف ادیبوں اور شاعروں نے ایک دوسرے کو لکھے۔ ان خطوں کو پڑھ کر نہ صرف اس زمانے کی ادبی روش کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، بلکہ خود خط لکھنے والوں کے بارے میں بھی بہت کچھ معلوم ہو جاتا ہے۔ اب یہ ضروری نہیں کہ یہ خط دلچسپ بھی ہوں۔ یہ تو لکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کیسا خط لکھتا ہے۔ بہر حال یہ تاریخ ہے ۔ ہماری ادبی تاریخ ۔ ان مکتوب نمبروں کے بعد مجلس نے قریب ایک ہزار صفحے کا ''سر سید نمبر‘‘ چھاپا ہے۔ اس شمارے میں وہ سب ہے جو آپ سر سید کے بارے میں معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ خود سر سید کی تحریریں اور مشاہیرِ ادب نے سر سید کے بارے میں جو لکھا، وہ سب اس شمارے میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی سر سید کے ہاتھ کی تحریر کے فوٹو بھی ہیں۔ اسے ہم بلا شبہ تاریخی دستاویز کہہ سکتے ہیں۔
اور ناصر زیدی نے رسالہ ''ادب لطیف‘‘ کا غالب نمبر چھاپ کر ایک اور تاریخی دستاویز مرتب کی ہے۔ یہ شمارہ بھی ہزار صفحے کا ہے۔ رسالہ ادب لطیف 1935 سے شائع ہو رہا ہے۔ ہم بلا خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ یہ واحد ادبی رسالہ ہے جو اتنے عرصے سے اردو ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس رسالے کے بانی تھے برکت علی چودھری۔ اردو کا شاید ہی کوئی ایسا ادیب ہو جو اس کا ایڈیٹر نہ رہ چکا ہو۔ یہ چودھری بر کت علی کی صاحب زادی صدیقہ بیگم اور ان کے بھائیوں کی ہمت ہی ہے کہ یہ رسالہ ابھی تک زندہ ہے ۔ زندہ ہے ہم نے اس لئے کہا کہ اس عرصے میں اس پر کئی دور گزر چکے ہیں۔ کئی بار لگا کہ اب یہ رسالہ بند ہو جائے گا۔ لیکن یہ پھر انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ہمارا خیال تھا کہ صدیقہ بیگم نے ابھی تک اس رسالے کے ساتھ رشتہ قائم رکھا ہے۔ لیکن پچھلے جمعہ کو صدیقہ بیگم نے بتایا کہ انہوں نے اپنے کاندھوں سے اس رسالے کا بوجھ اتار دیا ہے۔ اب یہ بوجھ ناصر زیدی نے اٹھایا ہوا ہے۔ وہ پابندی سے یہ رسالہ شائع کر رہے ہیں۔ اس کی تازہ ترین اشاعت ''غالب نمبر‘‘ ہے ۔ یہ دوسرا غالب نمبر ہے ۔ پہلا نمبر غالب صدی کے حوالے سے شائع کیا گیا تھا۔ اب غالب کی ڈیڑھ سو سالہ برسی کے موقع پر یہ نمبر شائع کیا گیا ہے۔ اسے نیا اور پرانا نمبر کہا گیا ہے۔ غالب کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیں ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے کہ غالب کے اردو اور فارسی خطوط پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ مرحوم مختار علی خاں (پرتو روہیلہ) نے غالب کے فارسی خطوط کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کا ذکر کہیں نہیں آتا۔ اور آخر میں ابرار احمد کی ایک نظم پڑھ لیجئے۔ یہ ان کے نئے مجموعے ''موہوم کی مہک‘‘ میں شامل ہے
کروں کیا...؟ / میں اس خامشی کا کروں کیا/ جو مجھ سے سدا بات کرتی ہے/ کرتی ہی رہتی ہے/ اور آنسوئوں کا/ جو ہنستے ہو ئے بھی مری آنکھ میں تیرتے ہیں/ میں... مصروفیت کا کروں کیا/ کہ جس میں/ فراغت کی نامختتم بے دلی ہے/ کروں کیا، میں اس بے گھری کا / جو میرے تعاقب میں / روز ازل سے چلی آ رہی ہے / کروں کیا، میں اس خالی پن کا/ جو کھانے کو آتا ہے/ اس شور کا/ جس کے باطن میں / گہری خموشی کی ہیبت چھپی ہے / تمہارا کروں کیا / ادھیڑے چلے جا رہے ہو مجھے/ کروں کیا/ میں اس بے نہایت محبت کا / وارفتگی سے جو بڑھتی ہے/ مجھ سے لپٹنے کی خاطر / تو منہ موڑ کر / میں کہیں جا نکلتا ہوں / ویران ٹیلوں کے پیچھے/ تڑپتی ہوئی ریت میں/ چیخنے کے لیے...