تاریخی اور ثقافتی ورثہ کسے کہتے ہیں؟ اور کوئی عمارت، کوئی مقام یا کوئی شے کب ثقافتی ورثہ بنتی ہے؟ یہ تو تاریخ دان یا ماہر آثار قدیمہ ہی بتا سکتے ہیں۔ لیکن ہم ان عمارتوں اور ان مقامات کو بھی اپنا تاریخی ورثہ مانتے ہیں جن کے ساتھ کئی نسلوں کی یادیں وابستہ ہیں۔ دو دن پہلے خبر چھپی کہ کراچی کے میٹروپول ہوٹل کی عمارت گرا کر وہاں بچوں اور بزرگوں کے لیے پارک بنایا جائے گا۔ ہم نے یہ خبر پڑھی اور ہمیں ایسا صدمہ ہوا جیسے ہمارے ماضی اور ہماری یادوں پر دھاوا بول دیا گیا ہو۔ میٹروپول ہوٹل کراچی کا سب سے پرانا ہوٹل تھا۔ پاکستان بننے سے بھی پہلے وہ اس علاقے کا سب سے بڑا اور سب سے اچھا ہوٹل مانا جاتا تھا۔ ہم نہیں جانتے کہ اس ہوٹل کے مالک نے اسے کیوں بند کیا اور اس کی عمارت کو بھوتوں اور جنوں کی آماج گاہ کیوں بنایا۔ اب کافی عرصے سے یہ عمارت اپنے شاندار ماضی کا مزار بنی ہوئی ہے۔ لیکن جن دنوں یہ عمارت واقعی کراچی کا ایک معقول ہوٹل تھی، ان دنوں ہمیں بھی کئی بار اس میں ٹھہرنے کا موقع ملا تھا۔ خیر، یہ تو ایسی کوئی بات نہیں ہے جس پر ہم اس ہوٹل کا نوحہ پڑھنا شروع کر دیں؛ البتہ دو واقعات ایسے ہیں جن کی بنا پر ہم اس ہوٹل یا اس ہوٹل کی عمارت کو تاریخی اور ثقافتی ورثہ قرار دے رہے ہیں۔ ایک واقعہ یا حادثہ ہمارے ساتھ ہوا تھا اور دوسرا پاکستانی تھیٹر کی دنیا کے ایک بہت بڑے نام کے ساتھ پیش آیا۔ پہلے ہم اپنا واقعہ بیان کر دیں۔ ہوا یہ تھا کہ ہم اس ہوٹل کی لفٹ میں پھنس گئے تھے۔ اکیلے ہم نہیں پھنسے تھے، ہمارے ساتھ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر خواجہ آصف، امروز کے چیف ایڈیٹر ظہیر بابر اور پروگریسیو پیپرز کے جنرل منیجر شیخ آفتاب احمد بھی تھے۔ یہ ایوب خان کا دور تھا اور ایوب خان کی حکومت نے پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ پر قبضہ کر کے اس کے اخباروں روزنامہ پاکستان ٹائمز، امروز، لیل و نہار اور سپورٹس ٹائمز کو حکومت کی تحویل میں لے لیا تھا۔ پہلے یہ ادارہ مختلف لوگو ں کے ہاتھ فروخت کیا گیا، بعد میں ایک نیشنل پریس ٹرسٹ بنا کر ان اخباروں کا انتظام اس کے سپرد کر دیا گیا۔ اس ٹرسٹ کا اجلاس اکثر کراچی میں ہوتا تھا۔ ہم اس اجلاس کے لیے کراچی جاتے، اور میٹروپول ہوٹل میں ٹھہرتے تھے۔ ان دنوں بھی ہم وہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہمارے کمرے ہوٹل کی دوسری منزل پر تھے۔ اب جن اصحاب نے آج کے زمانے کی لفٹ یا ایلیویٹر دیکھے ہیں، وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اس زمانے کی لفٹ کیسی ہوتی تھی۔ اس لفٹ کی باہر کی جانب لوہے کا جالی دار دروازہ ہوتا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دروازہ ہوتا تھا۔ اندر داخل ہونے کے بعد پہلے لوہے کا جالی والا دروازہ ہاتھ سے بند کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد اندر کا دروازہ بند ہوتا تھا۔ ایک شام خواجہ آصف، ظہیر بابر، شیخ آفتاب احمد اور ہم اس لفٹ میں نیچے آ رہے تھے کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ ان دنوں بجلی اتفاق سے ہی جاتی تھی۔ اس شام بجلی گئی، اور ہماری لفٹ بیچ میں پھنس گئی۔ لفٹ اس طرح پھنسی کہ نہ پوری اوپر تھی اور نہ پوری نیچے۔ لفٹ کا اتنا حصہ اوپر تھا کہ ہم باہر دیکھ سکتے تھے اور مدد کے لیے پکار سکتے تھے۔ ہم نے شور مچایا تو کچھ لوگ بھاگے بھاگے آئے اور ہمیں تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہوں‘ ہم چھت پر جا کے لفٹ کو اوپر کھینچتے ہیں‘ آپ باہر نکل آئیں گے۔ اب لفٹ اوپر کھینچنے کی کوشش کی گئی۔ لفٹ تھوڑی تھوڑی اوپر سرکنے لگی لیکن پھر رک گئی۔ معلوم ہوا کہ کھینچنے والوں کی ہمت اور سانس جواب دے گئی ہے۔ اب حالت یہ تھی کہ ہمارے کاندھوں تک لفٹ اوپر آ گئی تھی۔ ہم باہر دیکھ سکتے تھے۔ مگر باہر نکل نہیں سکتے تھے۔ اب اوپر سے کسی نے ایک سٹول نیچے ہمیں دیا کہ اس پر کھڑے ہو کر آپ ایک ایک کر کے اس دو فٹ کی جھری میں سے باہر آ جائیں۔ پہلے ظہیر بابر گھسٹتے ہوئے اس جھری میں سے باہر نکلے۔ پھر خواجہ آصف نے کوشش کی اور کسی نہ کسی طرح باہر نکل گئے۔ اس کے بعد ہم نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ اور باہر آ گئے۔ اب رہ گئے شیخ آفتاب احمد صاحب۔ ہم تینوں تو دبلے پتلے تھے۔ اس لئے ہمیں اس جھری سے نکلنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوئی‘ سوائے اس کے کہ ہم تینوں کی قمیضیں پیٹھ پر گریس سے لتھڑ گئی تھیں۔ مگر شیخ آفتاب احمد صاحب خاصے لمبے چوڑے آدمی تھے۔ وہ اس جھری میں سے کیسے باہر نکلیں؟ ہم سب پریشان تھے۔ اب پھر لوگوں کو چھت پر بھیجا گیا۔ انہوں نے ایک بار پھر کوشش کی۔ اور لفٹ اتنی اوپر آ گئی کہ وہ بھی باہر نکل آ ئے اور اس وقت ہمارا ہنسی کے مارے برا حال ہو گیا جب ہم نے دیکھا کہ جونہی ہم لفٹ سے باہر آئے، بجلی آ گئی۔
یہ تو وہ واقعہ ہے جو اس ہوٹل کی اس لفٹ میں ہمارے ساتھ پیش آیا۔ لیکن اسی ہوٹل کی اسی لفٹ میں ایک اور حادثہ ایسا بھی ہوا جس میں پاکستانی تھیٹر کی ایک نہایت ہی قیمتی شخصیت اپنی جان گنوا بیٹھی۔ یہ تھے علی احمد۔ آج کی نسل کے لئے تو یہ نام بالکل ہی غیر معروف ہو گا لیکن پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں یہ بہت ہی جانا پہچانا نام تھا۔ سٹیج ڈرامے کرنے والوں میں کمال احمد وغیرہ تو بعد میں سامنے آئے۔ علی احمد اس میدان میں پہل کرنے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے سٹیج پر جو اور ڈرامے پیش کیے وہ تو شاید یاد نہ رہیں، لیکن انہوں نے سیموئیل بیکیٹ کے شہرہ آفاق ڈرامے Waiting for Godot کا جو اردو میں تر جمہ کیا، اور اسے لاہور اور کراچی کے سٹیج پر پیش کیا، اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ جس سال یورپ کے مختلف شہروں میں یہ ڈرامہ سٹیج کیا گیا، اس کے دو سال بعد ہی پاکستان میں اس کا اردو ترجمہ سٹیج کیا جا رہا تھا۔ اتنا ضرور ہے کہ علی احمد نے اس ڈرامے کا اختتامیہ بدل دیا تھا۔ گویا وہ ہمارے معاشرے میں مایوسی پھیلانا نہیں چاہتے تھے۔
اب میٹروپول ہوٹل اور اس ہوٹل کی اس لفٹ میں ان علی احمد صاحب کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ بھی پڑھ لیجئے۔ علی احمد سیموئیل بیکیٹ کا یہی ڈرامہ کراچی میں سٹیج کر رہے تھے۔ غالباً وہ اس ہوٹل میں ہی ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک رات وہ ڈرامہ سٹیج کرنے کے بعد واپس ہوٹل پہنچے تو جلدی میں سیدھے لفٹ کی طرف لپکے۔ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ لفٹ اوپر تھی اور کوئی اس کا جالی والا دروازہ بند کرنا بھول گیا تھا۔ جلدی میں وہ سمجھے کہ لفٹ کے کھلے دروازے میں قدم رکھ رہے ہیں لیکن وہ کھلا دروازہ نہیں تھا، اندھا اور تاریک کنواں تھا۔ وہ اس کنویں میں گرے، اور ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے چلے گئے۔ ان کے ساتھ ہی پاکستان میں سٹیج ڈرامے پیش کرنے والا ایک بہت ہی بڑا فن کار بھی ہم سے رخصت ہو گیا۔ اس زمانے میں علی احمد جیسے ایک دو ہی اور پروڈیوسر تھے جنہوں نے پاکستان میں سٹیج ڈرامے کی ترقی اور فروغ کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا۔ یہ ہنسی مذاق والا ڈرامہ نہیں تھا بلکہ سنجیدہ اور فکر انگیز ڈرامہ تھا۔ علی احمد سے بہت توقعات تھیں۔ اگر میٹروپول کی وہ لفٹ ان کی ناگہانی موت کا سبب نہ بنتی تو آج ضیا محی الدین سٹیج ڈرامے کے لیے جو کام کر رہے ہیں وہ علی احمد اس وقت کر رہے ہوتے۔
یہ دو واقعات ایسے ہیں جن کی بنا پر ہم ہوٹل میٹروپول کی عمارت کو پاکستان کا تاریخی اور ثقافتی ورثہ قرار دے رہے ہیں۔ یقینا اور بھی ایسے واقعات ہوں گے جن کا اس تاریخی ہوٹل سے تعلق ہو گا۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہوٹل میٹروپول دوبارہ اسی شان سے کھول دیا جائے۔ ہم تو صرف اتنا چاہتے ہیں کہ اس عمارت کی جگہ بچوں اور بزرگوں کے لئے پارک بنانے کے بجائے کوئی ایسی یادگار تعمیر کی جائے جس کے ساتھ تاریخی میٹروپول ہوٹل کا نام زندہ رہے۔ اب ہماری نظریں کراچی آرٹس کونسل کے سربراہ احمد شاہ، اردو اور انگریزی کے شاعر پیرزادہ سلمان اور ڈاکٹر آصف فرخی پر لگی ہوئی ہیں کہ وہی سندھ حکومت کو سمجھا سکتے ہیں کہ اپنا تاریخی اور ثقافتی ورثہ ضائع نہ کریں۔