حکم ہوا ہے کہ تم ابھی دو ہفتے اور اپنے گھر میں بند رہو گے۔عمارتوں کی تعمیر اور روزمرہ ضرورت کی چیزوں کی جو دکانیں وغیرہ کھولنے کی اجازت دی گئی ہے‘ ان میںسکول‘ کالج اور مختلف دفتر شامل نہیں ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔ لیکن ان دو ہفتوں میں جو دکانیں کھولنے کی اجازت دی گئی ہے اگر آپ ان کی فہرست پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پورا بازار ہی کھولنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اگر اجازت نہیں ملی ہے تو چھابڑی اور خوانچہ لگانے والوں کو‘ اور یہی وہ طبقہ ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتا ہے۔ ادھر ضروری اشیا کی دکانیں کھولنے کی اجازت تو دے دی گئی ہے لیکن ان دکانوں تک آنے جانے کی سہو لت کی طرف بالکل ہی توجہ نہیں دی گئی۔ اگر ٹرانسپورٹ ہی نہیں ہو گی تو خریدار ان دکانوں تک جائیں گے کیسے؟ لیکن پھر سوال یہ کیا جائے گا کہ اگر ٹرانسپورٹ کھل گئی تو پھر موذی کورونا کے خلاف جدوجہد کا کیا ہو گا؟ اب باقی صوبے تو نہیں بول رہے ہیں‘ لیکن سندھ کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اگر موجودہ احتیاطی تدابیر میں نرمی کی گئی تو یہ وبا پھیلنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ صرف یہی دیکھ لیجئے کہ اگر یہ چند دکانیں کھل گئیں تو باقی دکانیں کھولنے سے کون روک سکے گا۔ اور کراچی کے دکان داروں نے تو دھمکی دے دی ہے کہ وہ اپنی دکانیں ضرور کھولیں گے اور اس وقت جب اس موذی وبا کے سلسلے میں قومی اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے‘ سندھ میں دوسرا ہی تنازعہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ وہاں ''من چہ سرائم و طنبورۂ من چہ سرا‘‘ کی آوازیں آ رہی ہیں۔ اپنے وزیر اعظم عمران خان کچھ فرماتے ہیں اور ان کے کراچی والے طنبورے کچھ اور۔ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ لاک ڈائون کے معاملے پر مرکز اور صوبوں کے درمیان اٹھانوے فیصد اتفاق ہو گیا ہے اور جس وقت وہ یہ فرما رہے ہوتے ہیں اسی وقت ان کے یہ طنبورے سندھ کی حکومت کے خلاف پریس کانفرنس کر رہے ہوتے ہیں ۔اب ہمارے دوست حیران پریشان ہیں کہ کیا ان طنبوروں پر عمران خان کا کوئی اختیار نہیں ہے؟ اور ہم ان دوستوں کو سمجھاتے ہیں کہ سندھ اور کراچی میں رہتے ہوئے ان طنبوروں کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ سندھ کی حکومت کے خلاف کچھ نہ کچھ کہتے رہیں‘ ورنہ کراچی کی سیاست میں ان کے رہنے کا جواز ہی باقی نہیں رہے گا۔ اس حقیقت سے عمران خان بھی خوب واقف ہیں۔ اسی لئے وہ اپنے ان طنبوروں کو اٹھتے بیٹھتے سندھ کی حکومت اور اس کی کارکردگی میں کیڑے ڈالنے کی پوری اجازت دیتے ہیں۔
اب یہاں پھر زبان کا مسئلہ سامنے آ گیا ہے۔ ہم عرض کر دیں کہ اردو کا محاورہ کسی چیز میں کیڑے ڈالنا ہے‘ کیڑے نکالنا نہیں۔ کیڑے نکالنے کا تو مطلب یہ ہو گا کہ جس چیز یا جس شخص کا آپ ذکر کر رہے ہیں اس کے اندر پہلے سے کیڑے موجود تھے اور آپ وہ کیڑے نکال رہے ہیں‘ یعنی آپ اس کے کیڑے نکال کر اور اسے کیڑوں سے پاک کر کے‘ صاف ستھرا کر رہے ہیں۔ یہ ہم اپنی زبان دانی کا رعب نہیں جما رہے ہیں۔ ہم نے اپنے استادوں سے یہی سنا‘ اور ادب کی کتابوں میں یہی پڑھا ہے۔ ہمیں تو صحافت میں بھی حمید ہاشمی اور ظہور عالم شہید جیسے استاد ملے۔ اگر کوئی سب ایڈیٹر لکھ دیتا کہ فلاں صاحب کراچی کے لئے روانہ ہو گئے‘ تو اسے ڈانٹ پڑتی ''کراچی روانہ ہو گئے۔ کراچی کے لئے نہیں۔‘‘
اب آپ آ جائیے‘ عمران خان کے کراچی والے بچونگڑوں کی طرف۔ جی ہاں۔ ہم انہیں بچو نگڑے ہی کہیں گے کہ ابھی وہ کچی عمر سے ہی گزر رہے ہیں۔ ابھی وہ پختگی کی منزل کو نہیں پہنچے۔ پختگی عقل اور تجربہ سے آتی ہے‘ عمر سے نہیں۔ آنکھوں میں اور ہونٹوں پر جیسی شرارت بھری مسکراہٹ لا کر وہ بات کرتے ہیں اس سے ان کے دماغ کا کچا پن ہی ظاہر ہوتا ہے۔ کراچی میں ڈاکٹر انوار احمد جیسا ہمارا جاننے والا کوئی محقق بھی نہیں ہے کہ اسے ہی تکلیف دیتے‘ اور ان بچونگڑوں کے خاندانی پس منظر کے بارے میں معلومات حاصل کر لیتے۔ اب یہی دیکھیے کہ ہم نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھی دو بھائیوں کا خاندانی پس منظر جاننے کے لئے ڈاکٹر انوار احمد کو زحمت دی اور انہوں نے ہماری تشنگی مٹا دی۔ انوار احمد نے ہمارے سوال کے جواب میں جو لکھا ہے‘ وہ آپ بھی پڑھ لیجئے:۔
''مسعود اشعر نے اپنے کالم میں خسرو بختیار اور ان کی بھائی ہاشم جواں بخت کے ناموں میں جھلکتی فارسیت اور علمیت کے حوالے سے سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ کھوج لگائو کہ یہ ایمرسن کالج میں پڑھتے رہے ہیں؟ مشہور ہے کہ یہ خانوادہ کیچ (مکران) کے خاندان کی کایا کلپ کے بعد رحیم یار خان کے نواح میں آیا۔ یہ سارے ''سورج مکھی‘‘ ہیں۔ سمجھ دار‘ پڑھے لکھے‘ حکمرانوں کی نرسری ایچی سن کالج کے تعلیم یافتہ۔ان کے چچا مخدوم حمیدالدین ایوبی دور کے وزیر تھے۔ ان کے دوسرے بھائی رکن الدین بھی انہی کی طرح مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان دوڑتے رہے۔ بختیار کے کزن مخدوم شہاب الدین نے زیادہ عزت اپنی استقامت کے سبب پائی۔ وہ اس کی سزا اب تک مقدمات کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ اس خانوادے میں فارسی کی تعلیم ضروری خیال کی جاتی تھی۔ یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم تھے تو وہ مخدوم شہاب الدین کو غلطی سے ایران ساتھ لے گئے۔ وہاں انہوں نے اپنی فارسی بول چال سے اہل ایران کو گرویدہ کر لیا اور ہمارے والے مخدوم بٹر بٹر آہیں بھرتے رہے‘‘۔
یہ تو انوار احمد نے لکھا ہے۔ اپنے مشہور ناول نگار اور سابق سر کاری افسر طارق محمود نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مجھے ان کے والد مخدوم رکن الدین سے ملاقات اور ان کی دلچسپ گفتگو سننے کا موقع ملا ہے۔ نہایت بذلہ سنج‘ قصہ گو شخص تھے۔ اردو‘ انگریزی‘ سرائیکی اور پنجابی پر انہیں کمال دسترس حاصل تھی۔ ہوا بازی کا تجربہ بھی تھا۔ ایک دفعہ زمین پر اترے تو احساس ہوا کہ وہ کسی بھارتی ائیر سٹرپ پر تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ الگ قصہ ہے۔
انوار احمد کی تحریر میں آپ خاص طور سے ''سورج مکھی‘‘ کے لفظ پر غور کر لیجئے۔ سورج مکھی وہ پھول جو سورج کے ابھر نے اور ڈھلنے کے ساتھ اپنا رخ بدلتا رہتا ہے۔ اپنی علمی اور تاریخی تشنگی مٹانے کیلئے ہمیشہ ہم انوار احمد سے رجوع کرتے ہیں اور وہ ہمیں کبھی مایوس نہیں کرتے۔ کئی سال پہلے ہندی زبان و ادب کے ممتاز نقاد نامور سنگھ (مرحوم) لاہور آئے تو ایک تقریر میں انہوں نے امیر خسرو کے زمانے کی ایک قدیم مثنوی ''سندیس راسک‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ اس مثنوی کے مصنف تھے عبدالرحمن ملتانی۔ ہم نے اس پر بھی انوار احمد سے ہی رجوع کیا تھا‘ اور وہ ایک جید استاد اور محقق کے طور پر ہندوستان بھی پہنچ گئے تھے اور وہاں کی ساہتیہ اکادمی کی مدد سے اس مثنوی کا ایک نسخہ ملتان لے آئے تھے۔ وہ مثنوی قدیم ہندی یا سنسکرت میں تھی۔ انوار احمد نے اصغر علی شاہ سے اس کا اردو ترجمہ کرایا تھا۔ اور بہائوالدین زکریا یونیورسٹی نے اسے چھاپا تھا۔
بہرحال‘ تو کیا کوئی صاحب بصارت و بصیرت کراچی کے ان نوجوانوں اور ان ادھیڑ عمر والوں کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں‘ جو اپنا ہی طنبورہ بجاتے رہتے ہیں؟ اور کیا ہمارا یہ احساس اور ادراک صحیح ہے کہ عمران خان اپنے ان طنبوروں کی باتوں سے خود بھی خوش ہوتے ہیں؟ انوار احمد نے پنجاب کے ان نوجوانوں کے بارے میں پوری تفصیل کے ساتھ ہمیں بتا دیا جو سلطان‘ ابن سلطان‘ ابن سلطان ہیں۔ ان کے لئے سورج مکھی کا استعارہ اور علامت استعمال کر کے انہوں نے ہماری پو ری سیاسی تاریخ بھی ہمارے سامنے کھول کر رکھ دی ہے۔ اب ان طنبوروں کے بارے میں بھی معلوم ہونا چاہیے۔ یہ بھی سب سورج مکھی ہیں۔ اسی لئے تو جب کوئی کہتا ہے کہ فلاں سکینڈل کی وجہ سے فلاں صاحب کے خلاف کارروائی کی جائے گی‘ تو ہم کہتے ہیں‘ ذرا سوچ سمجھ کر بات کرو۔ ان کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے سیاست میں سرمایہ کاری بلا وجہ نہیں کی ہے۔ وہ سوچ سمجھ کر ہی ادھر آ ئے ہیں۔ وہ عمران خان کی ضرورت بن گئے ہیں۔ اگر وہ بھی چلے گئے تو عمران خان کے پاس کون رہ جائے گا؟