نیوزی لینڈ میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں کہ انہوں نے اس موذی وبا کو اپنے ملک سے نکال باہر کیا ہے جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس ملک کی وزیر اعظم جس جوش و خروش سے یہ اعلان کر رہی تھیں، اس سے ایسا لگتا تھا کہ ابھی وہ اس سرشاری میں اٹھ کر ناچنا شروع کردیں گی۔ گویا وہ ساری دنیا کو بتا رہی تھیں کہ کورونا جیسے ہیبت ناک وبا پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ ادھر ہماری پوتی، جو لندن کے بہت بڑے ہسپتال رائل لندن ہاسپٹل میں ڈاکٹر ہے، نے چند دن پہلے ہمیں یہ تسلی بخش خبر سنائی کہ ان کے ہسپتال میں کورونا کے مریضوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم یہ خبریں سن رہے تھے اور اپنے ارد گرد نظر دوڑا رہے تھے۔ ہمارے اخبار اور ہمارے ٹیلی وژن چینلز تو ہمیں خوف زدہ کر رہے ہیں کہ یہ منحوس وبا ہمارے ہاں ابھی اور بھی پھیلے گی۔ معاف کیجئے، ہم اپنے میڈیا کو خواہ مخواہ الزام دے رہے ہیں‘ ہمارے اپنے وزیر اعظم خود فرما رہے ہیں کہ یہ وبا ابھی اگست تک اور بھی بڑھے گی‘ لیکن ہمارے یہی وزیر اعظم پچھلے مہینے فرما رہے تھے کہ مئی کے آخر تک یہ وبا اپنا اثر دکھائے گی اور اس میں اضافہ ہو گا۔ اس کے بعد مئی گزرا تو انہوں نے یہ مدت اور بڑھا دی اور اب ان کے خیال میں اگست تک اس نحوست میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی صحت کے عالمی ادارے نے بھی ہمیں خبردار کیا ہے کہ اگر اسی طرح بے احتیاطی کرتے رہے تو حالات بالکل ہی ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب تک تو ہم ایسے لوگوں کے بیمار ہونے یا موت کا شکار ہونے کی خبریں سنتے اور پڑھتے تھے جنہیں ہم جانتے ہی نہیں تھے لیکن اب یہ نحوست ہمارے یعنی ہماری قوم کے جانے پہچانے لوگوں تک پہنچ گئی ہے۔ چلئے، شاہد خاقان عباسی اگر اس مرض کی زد میں آئے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ بظاہر وہ اتنے تنومند نہیں تھے لیکن جب شیخ رشید اس بیماری کی زد میں آئے تو ہمیں سخت حیرت ہوئی۔ شیخ رشید تو محض زبانی طور پر ہی نہیں بلکہ جسمانی طور پر بھی اتنے طاقتور اور اتنے توانا نظر آتے ہیں کہ ان کے بارے میں یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ کورونا جیسی عام وبا ان کا بھی کچھ بگاڑ سکتی ہے۔ تو کیا ہمارے وزیر اعظم اب بھی اس موذی وبا کے خلاف شدید ترین اقدام کا ذکر آتے ہی ان غریبوں کو یاد کرتے رہیں گے؟ ان کے خیال میں سخت لاک ڈائون کی وجہ سے لوگ بھوک سے مر جائیں گے؟ ایک صاحب ہم سے بار بار یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا تم نے اپنے ملک میں کسی کو بھوک سے مرتے دیکھا ہے؟ کیا تمہیں داتا دربار کا لنگر یاد نہیں ہے۔ کیا تم اپنے شہر کے مختلف مصروف علاقوں میں مخیر اصحاب کے وہ دستر خوان بھو ل گئے جن پر صبح شام بھوکے انسانوں کی بھیڑ لگی ہوتی ہے؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ ہماری بڑی بڑی بیکریاں ہر شام ان غریبوں میں کھانا تقسیم کرتی ہیں؟ اور پھر خود آپ نے بھی تو احساس پروگرام شروع کر رکھا ہے۔ اس پروگرام کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ ضرورت مند افراد کی مدد کی جائے۔
پھر آپ اور آپ کے لوگ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔ اس غریب نے یہی تو کہا تھا کہ اس منحوس وبا کا مقابلہ کرنے کیلئے پورے ملک میں سخت لا ک ڈائون کی ضرورت ہے۔ اس شخص کی بات پر کان نہیں دھرا گیا اور اب دیکھ لیجئے کہ یہ وبا ہمارے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے حتیٰ کہ صحت کے عالمی ادارے کو بھی ہمیں وارننگ دینا پڑ گئی ہے‘ کیونکہ ہماری حکومت اس معاملے میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی تھی۔ اس لئے ہمارے عام آدمی نے بھی اس پر زیادہ توجہ نہیں کی۔ ہم نے احتیاطی تدابیر میں نرمی کی تو عام آدمی نے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ انہیں تو یہ محسوس ہوا کہ یہ جو دنیا شور مچا رہی ہے اس وبا کے بارے میں، اس پر اتنی توجہ دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے؛ چنانچہ ادھر لاک ڈائون میں نرمی ہوئی اور ادھر سارا ملک گلیوں، محلوں اور چھوٹے بڑے بازاروں میں نکل آیا۔ اب ہم خود مان رہے ہیں کہ یہ سب ہماری نرمی کا نتیجہ ہے۔ تجارتی سرگرمیاں ضرور جاری رہنا چاہئیں لیکن اس احتیاط کے ساتھ جو حکومت اور اس کے ادارے ان سرگرمیوں کیلئے مقرر کریں۔
یہ ساری باتیں ہمیں نیوزی لینڈ کی خبروں اور اپنی پوتی کی باتوں کی وجہ سے یاد آئی ہیں۔ اگر نیوزی لینڈ کو اس موذی وبا سے نجات ملی ہے تو بیٹھے بٹھائے نہیں مل گئی یا اگر ہماری پوتی کے ہسپتال میں اس وبا کے مریضوں کی تعداد کم ہوئی ہے تو خودبخود ایسا نہیں ہوا کہ اس وبا کو ان لوگوں پر رحم آ گیا ہو۔ اس کیلئے سخت اقدام کئے گئے ہیں۔ عام آدمی میں یہ شعور بیدار کیا گیا ہے کہ اگر آپ احتیاط نہیں کریں گے تو آپ اپنی زندگی دائو پر لگا دیں گے۔ چین میں، جہاں سے یہ وبا شروع ہوئی تھی، اگر اب اس بیماری کے مریض نظر نہیں آتے تو اس کی وجہ وہاں کی حکومت کے سخت اقدامات ہیں۔ وہ اقدام جن کا نام سنتے ہی ہمیں اپنے غریب یاد آ جاتے ہیں اور ہم الٹا، اپنے عام آدمی پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ جاہل ہے، اسے شعور نہیں ہے۔ جب حکومت خود ہی دو عملی کا شکار ہو تو پھر بے چارہ عام آدمی کیا کرے؟ یہاں تو حالت یہ ہے کہ ہر چیز ہمارے ہاتھ سے نکلتی چلی جا رہی ہے۔ اب یہ چینی ہو یا آٹا یا پھر پٹرول ہماری حکومت کا اس پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ حکومت نے پٹرول سستا کیا‘ اور وہ بازار سے ہی غائب ہو گیا۔ یہ پٹرول کہاں گیا؟ یہ حکومت بھی نہیں جانتی یا اگر جانتی ہے تو وہ پٹرول غائب کرنے والوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس حکومت پر تو اب ہمیں ترس آنے لگا ہے۔ لگتا ہے، کچھ بھی تو نہیں ہے اس کے ہاتھ میں‘ سوائے اس کے کہ فولاد کی وہ تاریخی مل اونے پونے کسی کے ہاتھ فروخت کر دے‘ جو اپنے زمانے کی سوویت یونین نے پاکستان میں لگائی تھی، اور ہزاروں مزدوروں کو بے روزگار کر دے۔ سندھ حکومت کہہ رہی ہے کہ یہ مل ہمیں دے دو۔ ہم اسے چلا کر دکھائیں گے مگر ان کی کون سنتا ہے۔
خیر، حکومت اس معاملے میں کیا کر رہی ہے یا ہمارا عام آدمی کس الجھن کا شکار ہے؟ اس پر آپ غور کرتے رہئے۔ ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان حالات میں بھی علمی اور ادبی سرگرمیاں جاری ہیں اور یہ سائنس اور اس کی سہولتوں کا کمال ہے۔ ابھی چند دن پہلے اکادمی ادبیات پاکستان نے آصف فرخی کی یاد میں ایک ریفرنس کا اہتمام کیا۔ یہ اہتمام زوم کے ذریعے کیا گیا۔ یہ بھی اسی سائنس کا کمال ہے کہ اس ریفرنس میں شرکت کر نے والے کچھ تو اسلام آباد میں بیٹھے تھے، کچھ کراچی میں اور کچھ لاہور میں۔ افتخار عارف صدارت کر رہے تھے۔ آصف کے بارے میں بات کرنے والوں میں اس کے دوست تھے یا اس کی تحریروں کے پڑھنے اور ان کی تحسین کرنے والے۔ اکادمی کی سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک نے شروع میں مقالہ پیش کیا، ڈاکٹر سعادت سعید نے بھی اپنا مضمون ہی پیش کیا؛ البتہ باقی اصحاب نے زبانی بات کی۔ آن لائن ہونے کے باوجود یہ نہایت ہی بھرپور اجلاس تھا۔ اب اس وقت ہمارے ذہن میں جو سوال کلبلا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ کیا ہم اسی طرح آن لائن جلسے کرتے رہیں گے؟ ہمیں ان سے آزادی کب ملے گی؟