پچھلے کالم میں لکھ دیا تھا کہ پاکستان میں کوئی بھوک سے نہیں مرتا۔ اس حوالے سے داتا دربار کے لنگر کا ذکر کیا تھا اور یہ بھی لکھا تھا کہ اس کے علاوہ مخیر اصحاب نے شہر کے مختلف علاقوں کی دکانوں میں دستر خوان کھول رکھے ہیں، جہاں صبح شام غریبوں کو کھانا مل جاتا ہے اور چند ہوٹل اور بیکریاں بھی مفت کھانا تقسیم کرتی ہیں۔ یہ لکھنا تھا کہ ہمارے اوپر چاروں طرف سے جو لعن طعن شروع ہوئی‘ وہ اب تک جاری ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ تمہیں وہ غریب تو یاد رہ گئے جو ان دسترخوانوں پر جا کر اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں، لیکن ان سفید پوش غریبوں کو بھو ل گئے جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ وہ تو اپنے پڑوسی تک کو یہ بتاتے شرماتے ہیں کہ آج انہوں نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کس طرح بھرا۔ ان کی بات بھی صحیح ہے۔ بھلا سو چئے، ان سفید پوشوں کی طرف کون نظر ڈالتا ہے۔ یہ کون سوچتا ہے کہ ان دنوں یہ سفید پوش کس طرح گزارہ کر رہے ہیں؟ حکومت نے احساس جیسے پروگرام شروع کر رکھے ہیں‘ لیکن معلوم نہیں یہ پروگرام ان سفید پوشوں تک بھی پہنچتا ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے یہ اصحاب کسی سے مانگنے والوں کی فہرست میں اپنا نام تو نہیں لکھوا سکتے، خواہ وہ حکومت کے ادارے ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کی آنکھیں تو عام ضرورت کی چیزوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر ہی لگی رہتی ہیں۔ یہ قیمتیں جو ایک بار بڑھ جاتی ہیں تو پھر واپس نہیں آتیں۔ پہلے یہ قیمتیں کسی اور وجہ سے بڑھ رہی تھیں، اب وہ منحوس کورونا آ گیا ہے جس نے قریب قریب سارے کاروبار ہی بند کر دیئے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت نے ضرورت مندوں میں کئی ارب روپے تقسیم کئے ہیں۔ تو کیا ان ضرورت مندوں میں وہ سفید پوش بھی شامل ہیں، جو کسی کو یہ بتاتے بھی شرماتے ہیں کہ وہ ضرورت مند ہیں؟ اب نیا بجٹ آ گیا ہے۔ کیا اس سے ضروری اشیا کی قیمتوں میں کسی قسم کی کمی ہونے کا امکان ہے؟ ہمیں تو ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے بلکہ جاننے والے تو کہہ رہے ہیں کہ حالات اور بھی خراب ہوں گے۔
اب ہمارا ایک ذاتی قصہ بھی پڑھ لیجئے۔ کورونا وائرس کی آمد کے ساتھ ہی جہاں ہمارے بچوں نے ہمیں گھر میں بند کر دیا ہے، وہاں ہمارے اوپر اپنے حجام یا ہیئر ڈریسر کے پاس جانے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ اپنا چہرہ تو ہم اپنے گھر میں صاف کر لیتے تھے، مگر سر کے بال تھے کہ بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔ یہ بال بڑھتے بڑھتے ہماری پیٹھ تک آنے لگے تھے۔ پہلے تو سوچا کہ آج کل کے فیشن ایبل جوانوں اور بزرگوں کی طرح ہم بھی اپنے بالوں کی پونی بنانا شروع کر دیں‘ اور اس پونی پر ہمیں میاں رضا ربانی بھی یاد آ گئے تھے۔ ان کے بالوں کی پونی ماشااللہ بہت ہی اچھی لگتی ہے۔ مگر پھر خیال آیا کہ کہاں میاں رضا ربانی کے بالوں کی پونی اور کہاں ہمارے گھنے بالوں والے سر کی پونی؟ ہماری پونی تو باقاعدہ چوٹی نظر آئے گی۔ یہ سوچ کر ہم نے ہمت کی اور اپنے ہیئر ڈریسر تک جانے کا ارادہ کر لیا۔ اپنے بچوں کو ہوا تک نہیں لگنے دی کہ ہمارا ارادہ بال کٹوانے کا ہے اور خاموشی سے اپنے ہیئر ڈریسر کی دکان پر پہنچ گئے۔ اتفاق یہ ہے کہ ہمارے گھر کے قریب ڈی ایچ اے نے جو تین چار دکانیں بنا رکھی ہیں، ان میں ہمارے ہیئر ڈریسر کی دکان بھی شامل ہے۔ ہم وہاں پہنچے تو دکان بھائیں بھائیں کر رہی تھی۔ ایک آدمی بھی نہیں تھا وہاں بال کٹوانے والا۔ دکان پر کام کرنے والے چار پانچ لڑکے باہر ایک بند دکان کے سامنے بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ دکان میں پہنچے تو ہمارے ہیئر ڈریسر نے جس پُر جوش انداز میں ہمارا استقبال کیا ہم آپ کو وہ بتا نہیں سکتے۔ اس نے بتایا کہ آج صبح سے یہ دوسری کٹنگ ہے۔ اب آپ ہی بتائیے، میں اس دکان کا کرایہ کیسے بھروں گا اور دکان پر کام کرنے والے لڑکوں کی تنخواہیں کہاں سے ادا کروں گا؟ ہم نے یہ سنا اور خاموش رہے۔
اسے حکومت سے ایک اور شکایت بھی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ آج کل دکانیں کھولنے کی اجازت تو دے دی گئی ہے، مگر اس کے لئے جو اوقات رکھے گئے ہیں ان سے ہمیں زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ پیر، منگل، بدھ، جمعرا ت اور جمعہ کو دکان کھو لنے کی اجازت ہے اور وہ بھی شام سات بجے تک‘ لیکن ہفتہ اتوار ہمیں دکان بند رکھنا پڑتی ہے حالانکہ وہی دن ہمارے کاروبار کے ہوتے ہیں۔ انہی دنوں لوگوں کو اپنے کام سے چھٹی ہوتی ہے‘ اور وہ بال کٹوانے ہمارے پاس آتے ہیں۔ اس نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ ہفتے کے دوسرے دنوں میں ہم چھٹی کر سکتے ہیں، ہفتہ اتوار ہمیں دکان کھولنے کی اجازت دی جائے۔ یہ جو ہم نے بار بار سفید پوش لوگوں کی تکرار کی ہے، یہ اپنے ہیئر ڈریسر کی باتیں سن کر ہی کی ہے۔ یہ پیشے بھی تو سفید پوش پیشوں میں ہی شمار کئے جاتے ہیں۔ بات واقعی سوچنے کی ہے کہ یہ لوگ اپنا گزارہ کیسے کریں گے۔
اب ہم گھر پہنچے تو بچوں نے، جو اب ایسے بچے بھی نہیں ہیں، ہماری خبر لی۔ کیا ضرورت تھی وہاں جانے؟ ان میں سے کسی کو گھر بلا کر حجامت بنوائی جا سکتی تھی۔ تھوڑے سے پیسے ہی تو زیادہ دینا پڑ جاتے۔ یہ بات وہ صاحب زادے کہہ رہے تھے جو چند دن پہلے حجام کو گھر بلا کر یہ کام کرا چکے تھے۔ ہمیں شرمندگی تو ہوئی مگر پھر خیال آیا کہ اگر ہم دکان پر نہ جاتے تو ہمیں وہ تجربہ کیسے ہوتا جو دکان پر جا کر ہوا‘ اور پھر ہمیں اپنا بچپن اور لڑکپن یاد آ گیا۔ اس زمانے میں ہر خاندان کا حجام ہوتا تھا۔ ہمارے خاندانی حجام کا نام تھا حضرت نور، انہیں سب حضرت نور بھائی کہتے تھے۔ وہ ہمارے دادا کے وقت سے چلے آ رہے تھے۔ وہ ہر جمعے کو ہمارے گھر آتے‘ سب کے بال کاٹتے، اس کے ساتھ ہی ہاتھوں اور پیروں کے ناخن بھی کاٹتے۔ اب یہ تو آپ سب ہی جانتے ہوں گے کہ وہ حجام ہر فن مولا ہوتے تھے۔ شادی بیاہ کے دعوت نامے بھی وہی تقسیم کرتے اور ان تقریبوں کا کھانا بھی وہی پکاتے۔ اب ہم نے اپنے بچوں سے پوچھا کہ کیا وہ زمانے پھر واپس آ رہے ہیں؟ لیکن پرانے زمانے کے لحاظ سے آج کل کا زمانہ کتنا مہنگا ہو گا؟ یہ بھی کسی نے سوچا؟ بچوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
یہ ساری داستان ہم یہ فرض کر کے بیان کر رہے ہیں کہ یہ جو موذی کورونا ہے، ہمیں اب اس کے ساتھ ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔ اس کورونا کے ساتھ بھی گزارہ کر نا پڑے گا اور اس مہنگائی اور بیروزگاری کے ساتھ بھی، جو اس منحوس وبا کے ساتھ آئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی امید کی ایک کرن بھی دکھائی دی ہے؛ اگرچہ وہ ابھی موہوم سی ہے مگر ہے چمکتی کرن۔ دنیا میں اب تک جتنی وبائیں بھی آئی ہیں‘ انسان نے ہی سائنسی ایجادات کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا ہے۔ یہ جو آج اینٹی بائیوٹک جیسی دوائیں نظر آتی ہیں وہ ان بیماریوں اور ان وبائوں کا مقابلہ کرنے لئے ہی تو بنائی گئی تھیں۔ وہی سائنسی علوم اپنی زیادہ توانائی کے ساتھ آج بھی موجود ہیں۔ آپ سوچئے، دنیا کے کتنے ملکوں میں کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے ویکسین بنانے کا کام ہو رہا ہے۔ کل کی ہی خبر ہے کہ برازیل نے چین کے ساتھ مل کر یہ ویکسین بنانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ مانے لیتے ہیں کہ شاید یہ کام جلد نہ ہو سکے لیکن آخر کار سائنسی کرامات ہی اس وبا پر بھی قابو پا لیں گی؛ البتہ، اس عرصے میں ہمیں ہر وہ احتیاط کرنا پڑے گی جو ہمارے ڈاکٹر اور ہمارے ماہرین ہمیں بتا رہے ہیں۔ تو، چلئے ہم اس ویکسین کا انتظار کر لیں جس کے لئے دنیا کے کئی ملکوں میں کام ہو رہا ہے۔