کسی زمانے میں بھارت کے ٹیلی وژن پر ایک اشتہار چلتا تھا۔ اس اشتہار میں ایک لڑ کا بڑی مایوسی کے عالم میں سوال کر رہا ہے ''میرا نمبر کب آئے گا؟‘‘ یعنی میری باری کب آئے گی؟ اس اشتہار سے یہ تو پتہ نہیں چلا کہ ان صاحب زادے کی باری آئی یا نہیں آئی، اور اگر باری آئی تو کب آئی‘ لیکن ہمارے ہاں تو خبر دینے والے پہلے ہی خبر سنا دیتے ہیں کہ اب فلاں کی باری آنے والی ہے۔ اور پھر ان کی باری آ بھی جاتی ہے۔ اس کیلئے انگریزی میں ایک لفظ ہے Prophet of Doom تباہی و بربادی بلکہ قیامت کی خبر دینے والے۔ یہ بربادی کی خبر دینے والے اتنے سچے ہوتے ہیں کہ ان کی پیش گوئی کبھی غلط ثابت نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا: شہباز شریف پکڑے جائیں گے۔ اور وہ پکڑے گئے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف کی بیوی اور بیٹی بھی کہیں بچ کے نہیں جائیں گی اور ان کی یہ بات بھی سچ ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اب رہ گئے نواز شریف تو ان پر ہاتھ ڈالنا ذرا ٹیڑھی کھیر نظر آ رہا ہے کیونکہ وہ انگلستان میں بیٹھے ہیں‘ اور اس ملک کے ساتھ ہمارا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ اپنے مجرم وہاں سے پکڑکر لائے جائیں‘ لیکن یہ بھی ہے کہ وہ عمران خان ہی کیا ہوئے جو اپنی بات منوا کر نہ رہیں۔ انہوں نے خود ہی نہیں بلکہ ان کی پوری کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ نواز شریف کو ہر حالت اور ہر صورت میں انگلستان سے پکڑ کر لایا جائے گا‘ چاہے اس کے لئے برطانیہ کا قانون ہی کیوں تبدیل نہ کرانا پڑ جائے‘ لیکن چونکہ ابھی تک تباہی اور بربادی کے پیامبر نے اس بارے میں بات نہیں کی ہے‘ اس لئے فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
آج کل ہم آوازوں کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں‘ اس لئے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس چکر سے ہم کب نکلیں گے۔ اور نکلیں گے بھی یا نہیں؟ ہم تو اپنی تباہی کے پیامبر کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ مزید پیش گوئیاں اور کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے سال ختم ہونے سے پہلے جھاڑو پھر جانے کی بات کی ہے۔ یہ ہم نے پہلی بار کسی بھی ملک میں دیکھا ہے کہ ایک وزیر‘ جس کا محکمہ کوئی اور ہو‘ کو اپنے محکمے کی اتنی فکر نہیں ہے جتنی حکومت کے مخالفوں کی پکڑ دھکڑ کی‘ اور اس جمہوری ملک کے وزیر اعظم کسی سے یہ تک نہیں پوچھتے کہ تمہارے اپنے محکمے کا کیا حال ہے؟ تم دوسرے محکموں اور دوسرے کاموں میں ٹانگ کیوں اڑا تے ہو؟ مگر خیر، یہ کسی ایک وزیر کا معاملہ نہیں ہے، یہاں تو ہر وزیر اپنے محکمے کے سوا دنیا جہان کے موضوع پر بات کرتا ہے۔ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے یا حکومت کے حریف کو کس طرح اور کتنا نیچا دکھایا جائے‘ اور لگتا ہے‘ جناب وزیر اعظم یہی چاہتے ہیں۔
اب یہاں ہمیں ذوالفقار علی بھٹو یاد آرہے ہیں۔ ہم بھٹو کے ہم نوا ہیں‘ لیکن انہوں نے اپنے آخری زمانے میں سب کو ہی ناراض کر لیا تھا۔ بھلا بتائیے ولی خاں کا کیا قصور تھا کہ ان پر غداری کا مقدمہ بنا دیا گیا؟ وہ تو ان کی حکومت ختم ہو گئی ورنہ بھٹو صاحب نے تو ولی خاں کو جیل سے کبھی باہر نہیں آنے دینا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ولی خاں جیسے قوم پرست اور ترقی پسند سیاسی رہنما بھی ایک آمر کا ساتھ دینے پر مجبور ہو گئے تھے۔
یہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکو مت کا تختہ الٹنے اور بھٹو کی گرفتاری کے بعد کی بات ہے۔ ولی خاں اور ان کی بیگم ملتان آئے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے ملتان میں ان قوم پرست اور ترقی پسند سیاسی رہنمائوں کی رہائش سید قسور گردیزی کے گھر ہی ہوتی تھی۔ ہم اور اے پی پی کے محمد افضل خان (مرحوم) ان رہنمائوں سے ملنے قسور صاحب کے گھر ہی جاتے تھے۔ قسور صاحب ایک سیاسی رہنما ہوتے ہوئے بھی بہت ہی کھلے ڈلے انسان تھے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی ولی خاں اور ان کی بیگم کی۔ باتوں باتوں میں افضل خاں نے کہیں بیگم ولی خاں سے پوچھ لیا کہ آپ اور ولی خاں دونوں آزاد خیال اور ترقی پسند سیاست پر یقین رکھتے ہیں‘ حتیٰ کہ آپ نے مشرقی پاکستان کے معاملے میں مجیب الرحمن کا ساتھ دیا ہے، اس کے باوجود آپ ضیاالحق کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں؟ اس پر بیگم ولی خاں نے جو منہ توڑ جواب دیا‘ آج بھی وہ یاد آتا ہے تو سارے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا ''اونٹ کا اور پٹھان کا غصہ (کینہ) کبھی نہیں جاتا۔ بھٹو نے ہمارے ساتھ جو کیا ہے کیا اس کے بعد ہم اسے معاف کر سکتے ہیں؟‘‘ اصل میں یہ غصے اور طیش کی انتہا تھی جو بیگم صاحب کے منہ سے نکل رہی تھی۔ بھٹو نے بھی تو ان کے ساتھ کچھ کم نہیں کیا تھا۔ اب جہاں تک اونٹ اور پٹھان کے کینے کی بات ہے تو غالباً یہ پشتو کا محاورہ ہے‘ اور یہ بھی عرض کر دیں کہ چاہے دور سے ہی سہی، مگر ہم بھی پٹھانوں کی نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے والد کے ماموں امتیاز علی خاں عرشی نے تو اردو میں پشتو کے الفاظ پر کتاب بھی لکھی ہے۔ یہ کتاب پشاور کی پشتو اکیڈمی نے چھاپی ہے۔ اس لئے پشتو محاورہ بلا تکلف ہم نے لکھ دیا ہے۔
بیگم ولی خاں کی بات ہمارے اور افضل خاں کے سامنے ہوئی تھی۔ سید قسور گردیزی بھی وہاں موجود تھے۔ آج ہمارے سوا اس کا اور کوئی گواہ موجود نہیں ہے‘ لیکن آپ ہمارا اعتبار کر لیجئے۔ اس وقت حالات ہی اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ بیگم ولی خاں کو ایسی بات کہنا پڑ گئی تھی‘ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب ایسا لگتا تھا کہ پورا پاکستان ہی بھٹو کے خلاف ہو گیا ہے۔ اس میں کن عوامل کا دخل تھا؟ یہ بھی آپ خوب جا نتے ہیں‘ مگر حالت یہ ہو گئی تھی کہ سید قسور گردیزی کے چھوٹے بھائی سید ولایت حسین گردیزی بھی ٹوپی اوڑھ کر مسجد میں نماز پڑھنے جانے لگے تھے۔ اس وقت ہم لاہور میں تو نہیں تھے، لیکن سنا ہے کہ سعادت سعید جیسے جمہوریت پسند بھی سر پر ٹوپی رکھے نظر آنے لگے تھے۔
اس ساری کتھا کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ جب آپ اپنے چند حواریوں کے سوا سب کو ہی ناراض کر لیں گے تو پھر وہی ہو گا جو بھٹو صاحب کے آخری زمانے میں ہوا تھا۔ ہمیں تو آج بھی کچھ ایسا ہی نظر آ رہا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم احتساب کے نام پر ایک ایک کرکے سب کو ہی ناراض کرتے چلے جائیں گے تو وہی ہو گا جو آج ہمیں نظر آ رہا ہے۔ ان کے خلاف تمام جماعتیں ہی اکٹھی ہو گئی ہیں‘ اور وہ تحریک چلانے پر تلی کھڑی ہیں۔ آپ کے تباہی اور بربادی کے پیامبر تو سب اچھا ہی اچھا دکھا رہے ہیں‘ لیکن دو سال میں ملک کی معیشت اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ غریبوں کی ہی نہیں بلکہ نچلے متوسط طبقے کی چیخیں بھی نکل گئی ہیں۔ بھلا دیکھیے تو، جو ملک فالتو گندم پیدا کرتا تھا آج اس میں آٹا نایاب ہے۔ ہم اپنا قیمتی زر مبادلہ خرچ کر کے گندم دوسرے ممالک سے درآمد کر رہے ہیں۔ مہنگائی کا یہ عالم کہ ہر چیز کہتی ہے‘ مجھے ہاتھ نہ لگائو۔ لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے تعمیرات پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ تعمیرات کے نئے نئے منصوبوں کا اعلان کیا جا رہا ہے‘ مگر کیا کبھی آپ نے صرف گلبرگ اور اس کے ارد گرد ہی آٹھ آٹھ دس دس منزلہ عمارتوں کے ڈھانچے کھڑے دیکھے ہیں؟ ہم تو کئی سال سے یہ ڈھانچے دیکھ رہے ہیں۔ کسی ایک ڈھانچے کو بھی ہم نے مکمل عمارت کی شکل اختیار کرتے نہیں دیکھا۔
اس لئے ہماری عرض یہ ہے کہ احتساب تو ہوتا رہے گا‘ لیکن خدا کے لئے اپنے اس بد نصیب ملک کی اصل حالت زار پر بھی تھوڑی سی توجہ فر ما لیجئے۔ اس کے لئے غصہ تھوک دیجئے‘ اور تاریخ سے سبق سیکھئے۔