شاعر نے کہا تھا‘زباں بگڑی تو بگڑی تھی‘خبر لیجے دہن بگڑا۔اور جب دہن بگڑنے لگیں تو بہتر ہے کہ سیاست کے بجا ئے کتابوں کی بات کی جا ئے۔تو آج ہم تین کتابوں کی بات کر رہے ہیں۔ ان میں دو تو ناول ہیں‘ایک انگریزی کا اور دوسرا اردو کا۔انگریزی ناول میاں رضا ربانی کا ہے۔اس سے پہلے وہ انگریزی میں ہی افسانے لکھ چکے ہیں ۔اب یہ افسانے ہوں یا ناول ان کا موضوع صاحبِ اقتدار طبقوں کی طرف سے بے آسرا اور بے سہارا انسانوں پر کئے جانے والا ظلم و ستم ہی ہو تا ہے۔ یہ صاحبِ اقتدار طبقے اپنے پاکستان کے ہوں یا دوسرے ملکوں کے ۔ان کے افسانوں کے پہلے مجموعے ''Invisible People‘‘ میں سماج کے ان دھتکارے ہوئے لوگوں کی روز مرہ زندگی کا احوال بیان کیا گیا ہے جو ہمارے ارد گرد تو موجود ہیں لیکن ہمیں‘یعنی ہمارے معاشرے کو نظر نہیں آ تے۔ میاں رضا ربانی چو نکہ بلند پایہ سیاستداں کے ساتھ وکیل بھی ہیں‘اس لئے انہوں نے غریب اور بے سہارا سائلوں کے ساتھ کچہریوں اور عدالتوں میں ہو نے والی ان زیادتیوں کی کہانی لکھی ہے۔ وہ کہانی جو ہماری روز مرہ کی داستان ہے۔اب چند مہینے پہلے ان کا مختصر سا ناول ''The Smile Snatchers‘‘سامنے آیا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں بھی ان کا موضوع وہی مظلوم عوام ہیں جو ان کے پہلے مجموعے میں مو جود ہیں۔لیکن یہاں کینوس زیادہ وسیع ہو گیا ہے۔یہاں دنیا بھر میں ہونے والے وہ ظلم و ستم ہمارے سامنے لائے جاتے ہیں جنہوں نے بچوں سے ان کی مسکراہٹ چھین لی ہے ۔اب یہ فلسطین ہو یا شام یا دوسرے ملک جہاں عالمی طاقتیں اپنے پنجے جمانے کیلئے بر سر پیکار ہیں۔ ان کا نشانہ زیادہ تر بچے ہی بنتے ہیں۔ یہاں رضا ربانی نے ایک مصور کا سہارا لیا ہے۔اس کا نام ہے ظہیر۔یہ مصوربچوں کی مسکراہٹ کا دیوانہ ہے ۔اور بچوں کی یہ مسکراہٹ اپنے کینوس پر پینٹ کرنا چا ہتا ہے۔لیکن یہاں دنیا بھر کے وہ معصوم بچے اس کے سامنے آ کھڑے ہو تے ہیں جو عالمی طاقتوں کی سیاسی اور تزویراتی جنگوں میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہ سو چتا ہے کہ ان بچوں کی بے بسی اور بے کسی پوری انسانیت کیلئے خطرہ ہے۔وہ ان بچوں کی تصویروں پر تصویریں بناتا چلا جا تا ہے‘لیکن اسے تسلی نہیں ہو تی ۔آخر میں اس کی قلمی تصویروں کے ساتھ جو ہو تا ہے وہ ہمارے معاشرے کی ہی تصویر کشی ہے ۔ اس ناول یا ناولا سے اندازہ ہو تا ہے کہ رضا ربانی نے دنیا بھر کے نامور مصوروں کی زندگی اور ان کی پینٹنگز کا باقاعدہ مطالعہ کیا ہے۔ اصل میں میاں رضا ربانی کا مو ضوع دنیا بھر کے انسانوں پر ہونے والے مظالم ہی ہیں ۔ اس کیلئے ان کے افسانوں میں ایک غریب عورت ان کی کہانی کا سہارا بنتی ہے ۔ اور نئے ناول میں ایک مصور انہیں ظلم و ستم کی داستانیں سنانے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔بہر حال ہمیں تو خوشی یہ ہے کہ ہمارا ایک بلند پایہ سیاستداں اپنی سیاسی زندگی سے ہٹ کر ادب (فکشن)تخلیق کر نے کی طرف بھی توجہ کر رہا ہے۔
اب دوسری کتاب کا ذکر بھی ہو جا ئے ۔ یہ بائیں بازو کے ایک ایسے سیاست داں کی سوانح ہے جس کی ساری زندگی اپنے ملک میں ترقی پسند‘روشن خیال اور غریب عوام کے استحصال سے پاک معاشرہ قائم کرنے کی جد وجہد میں گزری ۔یہ تھے سیف خالد۔کتاب کا نام ہے '' جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا‘‘۔یوں تو یہ بائیں بازو کے ایک کارکن یا رہنما کی داستان حیات ہے‘ یعنی سیف خالد کی سیاسی جد وجہد کی داستان۔ لیکن اصل میں یہ کتاب پاکستان میں بائیں بازو کی جد وجہد کی تاریخ ہے۔ 1950ء سے1980 ء تک کی بائیں بازو کی جماعتوں اور کارکنوں کی جدوجہد کی تاریخ۔اب یہ وہ طالب علم ہوں‘ جنہوں نے ایوب آمریت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیااور کراچی بدر کئے گئے یا پھر حسن ناصر جیسے جی دار انقلابی ہوں‘جنہوں نے اپنے نظریات کیلئے اپنی جان قربان کر دی۔سیف خالد بھی انہیں کارکنوں میں شامل تھے ۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی اسی مقصد کیلئے وقف کر دی تھی ۔ہم یہ کتاب پڑھتے جا تے تھے اور سوچتے جا تے تھے کہ آج پاکستان میں بائیں بازو کی روشن خیال اور ترقی پسند سیاست کو کیا ہوا ہے۔بائیں بازو کی وہ جماعتیں کیا ہوئیں جن کے کارکن اپنی ساری زندگی مظلوم عوام کیلئے جدوجہد کرتے گزارتے تھے۔آپ یہ کتاب پڑھ لیجے۔آپ اپنے ملک کی سیاسی تاریخ کو ایک اور ہی نظر سے دیکھیں گے۔ بائیں بازو کے کتنے کارکن تھے جنہوں نے اپنے نظریات کیلئے پوری زندگی وقف کر رکھی تھی ۔آج اگر کہیں سے آواز آتی ہے تو وہNGOs ہیں۔کسی نے مذاق کیا تھا کہ یہ این جی او بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کو کھا گئیں۔ لیکن ایمان کی تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں یہ این جی او ہی ہیں جو ترقی پسندی اور روشن خیالی کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں۔اب یہ اظہارِ رائے کی آزادی ہو‘ یا صحافت کی آزادی‘ یا محنت کشوں اور عورتوں کے حقوق‘ ان کیلئے این جی او ز کی طرف سے ہی آواز اٹھتی ہے ۔لیکن یہ کتاب پڑھ کر پھر خیال آتا ہے کہ کیاآج ہمارے ملک کو ان جماعتوں کی ضروت نہیں ہے جس کے کارکن اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر روشن خیال اور ترقی پسند پاکستان بنانے کی جد وجہد کریں؟ہماری تاریخ شاہد ہے کہ یہ کام بائیں بازو کی سیاسی جماعت ہی کر سکتی ہے۔ اب یہاں ہم اس کتاب کے مصنف کا ذکر بھی کر دیں۔ اس کے مصنف ہیں ہمارے جانے پہچانے بائیں بازو کے لکھاری احمد سلیم۔ آئی اے رحمن کے بقول احمد سلیم کو ترقی پسند موضوعات پرسنجیدہ کام کر نے میں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اپنے باغیانہ خیا لا ت کے باعث انہیں بہت سے مصائب کا بھی سامنا کر نا پڑا ہے‘ لیکن وہ پاکستان کی ترقی پسند تحریکوں کی تاریخ کے ہردور اور ہر گوشے کی تاریخ لکھ رہے ہیں۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
اب تیسری کتاب کی طرف آ جا ئیے۔ یہ محمد حفیظ خاں کا ناول ہے۔نام ہے اس کا ''کرک ناتھ‘‘۔حفیظ خاں اب تک جنو بی پنجاب یا سرائیکی وسیب کی داستانیں لکھتے رہے ہیں۔ اب خدا جانے انہیں کیا ہوا ہے کہ پاکستانی معاشرے کی اس زندگی کو انہوں نے اپنا مو ضوع بنایا ہے جسے ہم اپنی آنکھوں سے اوجھل زندگی کہہ سکتے ہیں۔یہ عجیب و غریب زندگی ہے۔یہاں ہر فرد ایک دوسرے کا جنسی استحصال کر رہا ہے۔ہمیں تو ایسا لگتا ہے جیسے حفیظ خاں پاکستان کی لڑ کیوں کو سمجھا رہے ہیں کہ سوچ سمجھ کر گھر سے باہر قدم نکالناورنہ تمہارا حشر بھی وہی ہو گا جو اس ناول کی لڑکیوں کا ہوا ہے۔ وہ جو بزرگ کہتے تھے کہ جو لڑکی اس طرح گھر سے باہر نکل جائے وہ پھر کہیں اور کی نہیں رہتی۔ اس ناول میں جو زندگی یا زندگیاں بیان کی گئی ہیں‘کیا وہ ہمارے معاشرے کاحصہ ہیں؟ ہمارے سامنے تو یہ سوال ہے۔ ہم یہ ناول پڑھتے جاتے تھے اور حیرت میں ڈوبے جا تے تھے کہ کیا واقعی ہمارے معاشرے میں یہ سب کچھ ہو تا ہے؟یا یہ ناول نگار کے تخیل کا کرشمہ ہے ؟ایک تو ہماری سمجھ میں اس ناول کا نام نہیں آیا۔اس کا نام کرک سنگھ کیوں رکھا گیا ہے ؟ناول کی کہانی سے تو یہ معمہ حل نہیں ہو تا۔یہ کرک سنگھ کون تھا؟ اور اس ناول میں وہ کیا کر رہا ہے؟ہماری سمجھ میں بالکل نہیں آیا۔بہر حال‘ ہم تو حفیظ خاں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ملتان اور بہاولپور کی طرف ہی اپنی توجہ مبذول رکھیں۔سرائیکی وسیب میں ابھی اور بھی ایسی داستانیں ہیں جن پر ناول لکھے جا سکتے ہیں۔یہ ناول پڑھ کر تو ہمیں وہی وہانوی یاد آئے۔ایک زمانے میں ان کے ایسے ناولوں کا بہت چر چا تھا۔کیاحفیظ خاں کو یہ راستہ اختیار کر نا چاہیے؟ اب یہ ہم نے لکھ تو دیا‘مگر خیال آرہا ہے کہ ہم کون ہوتے ہیں کسی لکھنے والے کو مشورہ دینے والے۔یہ ان کی مرضی ہے وہ جو اور جیسے چاہیں لکھیں۔