سیاست، آئی ایم ایف اور معاشی صورتحال

تحریک انصاف کی قیادت نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ عمران خان پر دوبارہ حملے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے اس بیان کو سیاسی بیان قرار دیا جا رہا ہے لیکن ماضی قریب میں عمران خان پر ایک جان لیوا حملہ ہو چکا ہے‘ لہٰذا تحریک انصاف کی قیادت کے خدشات کو سنجیدہ لیے جانے کی ضرورت ہے۔ اُس وقت بھی اعجاز چودھری اور تحریک انصاف کے منحرف رہنما فیصل واوڈا نے چیئرمین تحریک انصاف پر حملے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا۔ ہمارے جیسے معاشرے میں مقبول سیاسی رہنمائوں اور سابق وزرائے اعظم پر حملہ کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ بے نظیر بھٹو پر ہونے والے حملے اور اس کے بھیانک نتائج عوام کے سامنے ہیں، لہٰذا اس معاملے کو مذاق میں نہیں ٹالنا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے نوے روز میں انتخابات کرانے کا حکم دیا اور اب الیکشن کمیشن کے مراسلے پر صدرِ مملکت نے پنجاب میں 30 اپریل کو الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ وقت انتخابی مہم چلانے کا ہے۔ مریم نواز لگاتار جلسے کر رہی ہیں اور انتخابات کی تیاری بھی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں خان صاحب کے لیے گھر بیٹھنا مشکل ہے اور وہ بھی الیکشن کمپین کیلئے جلسے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بہت جلد تحریک انصاف کے جلسوں کا شیڈول سامنے آ سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ عمران خان جب جلسوں سے خطاب کیلئے زمان پارک سے نکلیں گے تو ان کی سکیورٹی کو کس طرح یقینی بنایا جائے گا؟ سیاسی جلسے آسان ٹارگٹ ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی سنگین صورتحال سے بچنے کے لیے خان صاحب کی سرکاری اور نجی سکیورٹی کے حوالے سے مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ حکومت خان صاحب کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرتی ہے یا نہیں‘ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت کے پاس عمران خان کے خلاف بات کرنے کے علاوہ کوئی پالیسی، کوئی منصوبہ بندی حتیٰ کہ کوئی مدعا بھی نہیں ہے۔ وزیر خزانہ صاحب ملکی مالیاتی امور پر پریس کانفرنس کرنے کیلئے تشریف لائے لیکن ساری گفتگو عمران خان کے خلاف کرتے رہے۔ ڈار صاحب کی پریس کانفرنس میں منطق اور دلیل کی بھی کمی دکھائی دی۔ وہ آئی ایم ایف سے جلد معاہدہ ہونے کا دعویٰ کرتے رہے مگر ایسے دعوے وہ تقریباً پچھلے تین ہفتوں سے کر رہے ہیں لیکن ابھی تک مثبت نتائج سامنے نہیں آ سکے۔ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت خود نہیں جانتی کہ آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ کب ہو گا۔
پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ میں نے اپنے حالیہ کالموں میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ حکومت ڈالر کو دوبارہ کنٹرول کر رہی ہے جس کے آنے والے دنوں میں نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ڈالرکے دوبارہ بے لگام ہونے نے میرے خدشے کو درست ثابت کر دیا ہے۔ شرحِ سود 3 فیصد بڑھا کر 20 فیصد کر دی گئی جو پچھلے 27 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں شرحِ سود پورے ایشیا میں سب سے زیادہ ہوچکی ہے۔ تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق ایران میں شرحِ سود 18 فیصد، سری لنکا میں 14.5فیصد، نیپال میں 8.5 فیصد، مالدیپ میں 7 فیصد، بنگلہ دیش میں 6 فیصد اور بھارت میں 6.5 فیصد ہے۔ نتیجتاً مہنگائی پاکستان میں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ شرحِ سود میں اضافے کا سب سے بڑا نقصان خود حکومت کو ہوگا جس نے 30 سے 35 ہزار ارب روپے کا مقامی قرض ادا کرنا ہے۔ شرحِ سود میں تین فیصد اضافے سے مقامی قرضوں میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوجائے گا۔ یہ اقدامات آئی ایم ایف سے 1.1 بلین ڈالر قرض لینے کے لیے کیے جا رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان مطالبات کو ماننے کے بعد آئی ایم ایف کی تسلی ہو جائے گی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آئی ایم ایف مزید نئی شرائط سامنے رکھ دے؟ موجودہ حالات میں اگر یہ کہا جائے کہ آئی ایم ایف کے مطالبات سمجھ سے ماورا ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جو رویہ پاکستان کے ساتھ رکھا جا رہا ہے وہ آئی ایم ایف پروگرام میں شامل دیگر ممالک کے ساتھ نہیں رکھا جاتا۔ ایک طرف آئی ایم ایف پاکستان سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کرتا ہے اور دوسری طرف مہنگائی کم کرنے پر زور دیتا ہے۔ پٹرول اور بجلی مہنگی ہونے سے مہنگائی میں کمی کیسے ہو سکتی ہے‘ آئی ایم ایف ہی یہ گُر سکھائے۔ایک طرف آئی ایم ایف ڈالر کو پاک افغان بارڈر ریٹ کے مطابق کھلا چھوڑنے کا مطالبہ کرتا ہے اور دوسری طرف منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کا کہتا ہے۔ یہ دونوں مطالبات بیک وقت کیسے پورے کیے جا سکتے ہیں؟ ڈالر ریٹ کو پاک افغان بارڈر ریٹ یا گرے مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ڈالر کا ریٹ افغانستان کی وزارتِ خزانہ طے کرے گی۔ پاکستان میں ڈالر ریٹ کچھ بھی ہو‘ افغانستان بیس سے پچیس روپے زیادہ ہی آفر کرتا ہے۔ جب ڈالر 225 پر تھا تو افغان بارڈر ریٹ 250 روپے تھا۔ جب پاکستان میں ڈالر 250 کا ہوا تو افغانستان میں ریٹ 270 ہو گیا۔ اب پاکستان میں ڈالر 279 کا ہوا ہے تو افغانستان میں یہ 298روپے کا خریدا جا رہا ہے۔ یہ تو نہ رکنے والا سلسلہ ہے اور اس کا نتیجہ ہماری معاشی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔آئی ایم ایف کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ بجلی کے نرخ بڑھانے سے بجلی کی چوری بڑھتی ہے‘ کم نہیں ہوتی۔ شرحِ سود بڑھا کر مہنگائی کم کرنے کا فارمولا پاکستان جیسی غیر دستاویزی معیشت پر لاگو نہیں ہوتا۔ ترقی یافتہ ممالک میں ستر فیصد لوگوں نے گھر مورٹگیج (Mortgage) کرائے ہوتے ہیں۔وہاں شرحِ سود بڑھانے سے مہنگائی کم ہو سکتی ہے مگر پاکستان میں شرحِ سود بڑھانے سے انڈسٹری متاثر ہو گی کیونکہ یہاں بینکوں سے قرض صرف انڈسٹری ہی لیتی ہے۔ پاکستان میں عام شہری خال خال ہی بینکوں سے قرض لیتا ہے۔ایک طرف آئی ایم ایف کے مطالبات زمینی حقائق کے مطابق نہیں‘ دوسری جانب ہمارے طور طریقے بھی درست نہیں۔ ہماری اشرافیہ کے طرزِ زندگی کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ حکومت قرض ملک چلانے کیلئے نہیں بلکہ عیاشی کرنے کیلئے لیتی ہے۔ عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف معیشت ٹھیک کرنے کے بجائے پاکستان کو پھانسنے والا جال ثابت ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف پہلے بجلی اور ڈالر کے نرخ بڑھاتا ہے جس سے مہنگائی بڑھتی ہے‘ پھر کہا جاتا ہے کہ چونکہ مہنگائی بڑھ گئی ہے اس لیے شرحِ سود بڑھائی جائے تا کہ مہنگائی کم ہو۔ جب شرحِ سود بڑھائی جاتی ہے تو مہنگائی مزید بڑھ جاتی ہے۔ مہنگائی بڑھنے سے لاگت بڑھتی ہے‘ نتیجے میں برآمدات کم ہو جاتی ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر مزید نچلی سطح پر آ جاتے ہیں۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ملک قرض ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے پر موڈیز سمیت دیگر کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز ملک کی ریٹنگ گرا دیتی ہیں اور آخر میں ملک کو ڈیفالٹ ڈکلیئر کرنے کا شور مچایاجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ملک کو بحران سے نکالنے کا منصوبہ ہے یا بحران میں پھنسائے رکھنے کا منصوبہ ہے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کے گرد شکنجہ تنگ ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کم کرنے کے بعد پاکستان کے پانچ بڑے بینکوں کی کریڈٹ ریٹنگ بھی کم کر دی ہے۔ بینکوں کی ریٹنگ کم کرنے میں قرض داروں کی قرض لوٹانے کی صلاحیت میں کمی کو اہم جواز قرار دیا گیا ہے۔ یہ بینک حکومتی ضمانت سے لیے گئے بیرونی قرضوں میں بڑا حصہ رکھتے ہیں۔ معاشی بگاڑ اور ملک کی بیرونی ادائیگیوں کی صلاحیت میں کمی سے بینکوں کی بیلنس شیٹس متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔حکومت کے پاس سرمائے کی کمی، معیشت کو لاحق بیرونی خطرات میں اضافہ، زرمبادلہ کے ذخائر میں تشویشناک حد تک کمی اور طوفانی رفتار سے بڑھنے والی مہنگائی‘ جس میں بجلی مہنگی ہونے اور سبسڈی کے خاتمے سے مزید شدت آنے کا خدشہ ہے‘ ان تمام عوامل کی وجہ سے عوام کی قوتِ خرید میں تیزی سے کمی اور اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بینکوں کی ریٹنگ میں کمی سے ان کے اثاثہ جات کا معیار اور آمدن متاثر ہونے کے ساتھ کیپٹل کی صورتحال اور ممکنہ طور پر مالیاتی استحکام کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ان عوامل کی وجہ سے کسی ملک کا میکرو پروفائل بھی 'بہت کمزور پلس‘ سے 'بہت کمزور‘ ہو جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں