"MMC" (space) message & send to 7575

1424سال پہلے

یوں تو حج قریشِ مکہ میں سنتِ ابراہیمی کے طور پر شروع سے چلا آرہا تھا، لیکن اس کی روح مسخ کردی گئی تھی۔ اس میں شرک وبدعت اور خرافات شامل کردی گئی تھیں۔ منیٰ اور عرفات کے اجتماع کو میلے ٹھیلے میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ ان مقامات پر سالانہ میلے لگتے تھے اور بازار سجتے تھے۔ ’’ذُوْالْمِجَنَّہ‘‘ اور ’’عُکاظ‘‘ کے میلے مشہور ہیں ۔ آج کل تشہیر کے لئے میڈیا کا استعمال ہوتاہے، اس دور میں میلوں کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا۔ ان میلوں میں قریش کے مختلف قبائل کے شعرا اپنے اپنے قبیلے کے تفاخر اور شان کے اظہار کے لئے اپنا اپنا کلام پیش کرتے تھے۔ صفا اور مروہ پراُساف اور نائلہ نامی بت رکھے ہوئے تھے۔ قربانی کے جانوروں کا گوشت اور خون ان کی نذر کیا جاتا تھااور ان بتوں پر مَل دیا جاتا۔ ان بتوں کے تقرب کے لئے نصب کئے ہوئے پتھروں یا اس مقام کو قرآنِ مجید میں’’ نُصُب‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔بَحِیرہ، سائبہ، وَصیلہ اور حام مختلف قسم کے جانور تھے۔ جنہیں بتوں کی نذر کردیا جاتا اور آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ بیت اللہ جسے اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کے لئے ایک عالمی مرکز کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا، اس کے اندر 360بت سجا دیے گئے تھے۔ننگے بدن بیت اللہ کا طواف کیا جاتااور دلیل یہ پیش کی جاتی کہ جس لباس کے ساتھ ہم گناہ کرتے ہیں، اسے پہن کر طواف کرنا بیت اللہ کی عظمت اور ادب کے منافی ہے؛ چنانچہ رسول اللہﷺ نے 9ہجری کو اعلان کرایا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور بیت اللہ کا ننگے بدن طواف نہیں ہوگا۔(بخاری:1622)۔ ختم المرسلین، رحمۃ اللعالمین سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے اعلانِ نبوت کے بعد 9ہجری کو ’’حجتہ الاسلام‘‘ کی فرضیت کا اعلان ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: ’’اے لوگو! تم پر حج فرض کر دیا گیا ہے ، پس حج کیا کرو۔ ایک شخص (اقرع بن حابس) نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! کیا حج ہر سال فرض ہے؟ آپﷺ خاموش رہے۔ سائل نے تین بار اپنا سوال دہرایا تو آپﷺ نے فرمایا:اگر میں (تمہارے سوال کے جواب میں) ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہوجاتااور تم ادا نہ کرپاتے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: جس بات کو میں چھوڑ دوں تم بھی چھوڑ دیا کرو، تم سے پہلی امتیں کثرتِ سوال کی بنا پر ہلا ک ہوئیں، پس جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے ادا کرواور جس سے روکوں اس سے رک جاؤ‘‘۔(مسلم:3255)۔ اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’بے شک سب سے پہلا گھر جو (اللہ کی عبادت کی خاطر) لوگوں کے لئے بنایا گیا ، وہی ہے جو بکہ میں ہے ، برکت والا اور تمام جہانوں کے لئے ہدایت کا سبب ہے ،اس میں واضح نشانیاں ، مقامِ ابراہیم ہے اور جو اس میں داخل ہوا وہ بے خوف ہوگیا اور اُن لوگوں کے لئے جواس کے راستے(یعنی مصارفِ سفر) کی استطاعت رکھتے ہیں ، ان پر اللہ کی طرف سے بیت اللہ کا حج فرض ہے‘‘۔ (آل عمران:97) آج سے 1424سال پہلے 10ھ کو رسول اللہﷺ نے اپنی حیاتِ مبارَکہ کا پہلا اور آخری ’’حجتہ الاسلام‘‘ ادا فرمایا ۔ اس موقع پر آپﷺ اپنی ناقۂ مبارَکہ’’ قَصواء‘‘ پر سوار ہوئے اور تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جو ’’خطبۂ حجتہ الوداع‘‘ کے نام سے تاریخ وسیرت کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ یہ خطبۂ مبارَکہ حدیث کی کتابوں میں باقاعدہ ترتیب کے ساتھ کسی ایک جگہ مذکور نہیں ہے بلکہ اس کے مختلف حصے حدیث کی مختلف کتابوں میں روایت کیے گئے ہیں۔ اس حج کو ’’حجتہ الوداع‘‘ اسی لئے کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنے خطبے میں ایسے اشارات دیے تھے کہ گویا یہ آپ کی آخری اور حتمی ہدایات اور وصایا ہیں تاکہ لوگ انہیں محفوظ کرلیں۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا: اے لوگو! میری بات کو غور سے سنو اور سمجھو ، شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میری تم سے ملاقات نہ ہو، شاید تم مجھے دوبارہ اس مقام پر نہ دیکھو، مجھ سے ارکانِ حج سیکھ لو، شاید اس کے بعد میں حج نہ کرپاؤں۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو ہمیشہ تر وتازہ رکھے جو میری بات کو سنے اور دوسروں تک پہنچا دے کیوںکہ جس تک بات پہنچائی جاتی ہے ، بعض اوقات وہ براہِ راست سننے والے سے بھی زیادہ اس کی حفاظت کرتاہے اور اس سے زیادہ فقیہ ہوتاہے ، یعنی دین اور احکامِ الٰہی کی حکمتوں کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھتا ہے، پھر آپﷺ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: جو لوگ حاضر ہیں، میرا پیغام اُن تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں ۔ یہ دراصل اِس بات کا اعلان تھا کہ اب کوئی اور نبی نہیں آئے گا ،ا س لئے دعوتِ دین ، ابلاغِ دین اور دینی امانتوں کی حفاظت کرنااور سلسلہ بسلسلہ آخرتک پہنچانا ، اس امت کے علمائے حق کی ذمہ داری ہے ۔ اسی لئے رسول اللہﷺ نے تین بار یہ کلمات فرمائے: اے لوگو! کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا آخری پیغامِ ہدایت تم لوگوں کوبلا کم وکاست پہنچا دیا ہے ؟ سب نے یک زبان ہوکر اقرار کیا: ’’جی ہاں‘‘۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: تم سے (آخرت میں) میرے بارے میں پوچھا جائے گا ، تو تم کیا جواب دو گے؟ سب نے عرض کیا: ہم گواہی دیں گے کہ آپﷺ نے دین کی امانت اورحق کے پیغام کوہم تک پہنچا دیاہے تو رسول اللہﷺ نے اپنی انگشتِ شہادت بلند کرکے نیچے لاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ ! تو گواہ رہنا (کہ تیرے یہ بندے اقرار کررہے ہیں کہ میں نے دعوتِ حق کا فرض ٹھیک ٹھیک ادا کردیا ہے۔) آپﷺ نے سب سے پہلے انسانی مساوات کی بات کی کہ پوری نوعِ انسانی ایک باپ آدم علیہ السلام کی اولاد ہے ، کسی کو رنگ ونسل کی بنیاد پر دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت کا مَدار تقویٰ اور کردار پر ہے ۔ آپﷺ نے عہدِ جاہلیت کے سودی نظام اور خونی انتقام کے نسل در نسل جاری رہنے والے سلسلے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: سنو ! زمانۂ جاہلیت کی ہر باطل روایت اور رَسم کے خاتمے کا اعلان کرتاہوں ،میں حجاج کی میزبانی اور بیت اللہ کی تَولِیت کے سواجاہلیت کے تمام خونی انتقام، مالی مطالبات (جوباطل پر مبنی ہوں) اور نسلی وقبائلی تفاخر کو قیامت تک کے لئے اپنے قدموں تلے پامال کررہا ہوں‘ اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے ایک فرد ابنِ ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کے خون کو معاف کرتاہوں اور میں عہدِ جاہلیت کے واجب الادا ہر سود ی مطالبے کو آج سے ختم کرتاہو ں اور سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے سود کے خاتمے کا اعلان کرتاہوں۔ آپ نے سب سے پہلے اپنی ذات کو اُسوہ ، قُدوہ اور Role Modelبنادیا ۔ یعنی آج کے دور کی طرح نہیں کہ ریاست وحکومت کے سربراہان کو استثنا (Immunity)مل جائے اور عام آدمی پر قانون لاگوہوجائے ۔ آپﷺ نے کسی کی جان ، مال اور آبرو کی حرمت کی پامالی کو حرام قرار دیااور اِن کی حُرمت کو یومِ عَرفہ ، ماہِ ذوالحجہ اور شہرِ مکہ کی حرمت سے تشبیہ دی ۔ یہی وہ حُرمتیں ہیں اور رسول اللہﷺ کی دی ہوئی ضمانتیں اور تحفظات ہیں جو آج شب وروز ہمارے وطنِ عزیز میں پامال ہورہی ہیں۔ حج ہم آج بھی ادا کررہے ہیں ، وقوفِ عرفہ بھی ہے ، وقوفِ مزدلفہ بھی ہے ، وقوفِ منیٰ بھی ہے ، قربانی ، رمیِ جمرات ، طوافِ بیت اللہ اور صفا ومروہ کے درمیان سعی بھی ہے؛صورتِ عبادت تو ہے ، لیکن روحِ عبادت خال خال ہی ملے گی۔ کیا آج حج کا خطبہ پوری امت کے لئے پالیسی اسٹیٹمنٹ ہے ؟ کیا اس میں امت کے تمام مسائل کا بے لاگ تجزیہ اور درست سَمت کا تعین ہے؟ کیا مسلم حکمرانوں کی بے اعتدالیوں پر کوئی گرفت ہے، مصر، شام ، عراق ، افغانستان ، فلسطین ، کشمیر اور دنیا کے دیگر خطوں میں امّت کو جو مسائل ومصائب درپیش ہیں ، ان کا کوئی حل پیش کیا جاتاہے اور مسلم حکمران اس ایجنڈے کے پابند ہوتے ہیں؟ ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ ہمارے ہاں حج ، فضائلِ حج اور برکات وثمراتِ حج پر مقابلۂ تقاریر یا مقابلۂ مضمون نویسی ہو تو ایک سے ایک حیران کُن اور روحانی سرور عطا کرنے والا شاہکار ملے گا، لیکن ہماری بدنصیبی کہ انفرادی واجتماعی زندگی میں ہمارا اسلام اطلاقی (Applied)اور عملی نہیں رہا۔ اسی لئے آج پاکستان میں دینِ رحمت کے ماننے والے اور نبیِ رحمتﷺ کے نام پر نچھاور ہونے والے مسلمانوں کے ملک میں کسی کی جان ، مال اور آبرو محفوظ نہیں ہے ، کسی کے لئے امن وسلامتی کی ضمانت نہیں ہے ، نظمِ اجتماعی میں عدل ومساوات (Social Justice)نہیں ہے اور مسلمان دنیا میں بے توقیر ہیں۔ کاش کہ ہم اس زوال سے نکلنے کے لئے کوئی حکمتِ عملی اور تدبیر اختیار کر سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں