جی ہاں!’’امریکا مردہ باد‘‘، یہ ہماری قومی اور ملکی سیاست کا سب سے قیمتی اور اثرآفرین نعرہ ہے اور اگر اس میں ’’انڈیامردہ باد‘‘ اور ’’اسرائیل مردہ باد ‘‘کو بطورِ اجزائے ترکیبی شامل کردیا جائے ، تو یہ دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہوجاتاہے۔ یہی نعرہ ہمارے ہردرد کی دواہے ، ہر زہر کا تریاق ہے اور ہر مرض کے لئے اکسیر ہے۔انتخابی سیاست میں تو یہ کارآمد ثابت نہیں ہوا، لیکن احتجاجی سیاست میں اس کی اثر آفرینی سے کوئی مردِ دانا اختلاف نہیں کرسکتا۔ یہ ہماری سیاسی جِبِلّت کا حصہ اور فطرتِ ثانیہ بن چکا ہے‘ لیکن اس کا منفی اثر ہمارے قومی مزاج اور سیاسی حس (Political Sense)پر یہ مرتب ہوتاہے کہ ہماری ہر ناکامی، بے تدبیری، بے ہمتی ، سیاسی عدمِ استحکام ، معاشی زبوں حالی ، معاشرتی ناآسودگی اور دینی وملّی بے حمیتی ، بدامنی وفساد اور بدعنوانی کا ذمے دار امریکا ہے۔اس طرح لاشعوری طور پر ہم اپنے آپ کو اپنی دینی ، ملّی ، قومی اور ملکی ذمّے داریوں سے بری الذمّہ سمجھتے ہیں ، کیونکہ ہم اپنی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ کسی اور کے سرڈال کر فارغ ہوجاتے ہیں۔ ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ ہمارے دینی ، ملی ، قومی اور ملکی مفادات کا تحفظ ہماری اپنی ذمے داری ہے نہ کہ کسی اور کی۔ جب ہم اپنی کامیابیوں کا کریڈٹ خود لیتے ہیں، تو اپنی ناکامیوں کی ذمے داری بھی قبول کرنی ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے حکمران اپنے اقتدار کے حصول یا اس کے تحفظ کے لئے مغربی استعماری قوتوں کی آشیر باد کے محتاج ہوتے ہیں ، لیکن اپنے پسندیدہ حکمرانوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھانا اور ناپسندیدہ حکمرانوں کو مسندِ اقتدار سے معزول کرنا ، یہ ہمارا کام ہے۔ اور ہم اگر اس میں ناکام ہوتے ہیں ، تو یہ ہماری ناکامی ہے۔ ہماری امریکا دشمنی کے اظہار کے طریقے بھی عجیب ہیں ، ہم امریکا اور مغرب کے خلاف مَذمّتی جلوس نکالتے ہیں اور پھر اپنی ہی نجی یا قومی اَملاک کو آگ لگادیتے ہیںاور پھر اپنے دل کی طمانیت کے لئے اس دلیل کا سہارا لیتے ہیں کہ امریکا یا انڈیا کے ایجنٹ ہماری صفوں میں گھس آئے اور یہ سب گھیراؤ جلاؤان کا کیا دھرا ہے ۔ اسی طرح ہمارے بعض کرم فرما امریکا دشمنی میں پاکستان کی دفاعی اور سویلین تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں۔ مساجد ، مزارات ، مدارس ، غیر مسلموں کی عبادت گاہوں اور بازاروں میں بے قصور لوگوں (جن میں مرد، عورتیں ، بوڑھے ، بچے سب شامل ہوتے ہیں)کو نشانہ بنایا جاتاہے، میڈیا کے ذریعے معلوم ہوتاہے کہ کچھ لوگوں نے اس کی ذمے داری قبول کی ہے اور کچھ کا بیان آتاہے کہ یہ ہمارے مخالفین یعنی امریکا کی کارستانی ہے ۔ پس ہمیںامریکا سمیت اپنے مخالفین کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے اپنے آپ کو منظم کرنا ہوگا ، اپنی صفوں میں در آنے والے ایجنٹوں کو تلاش کرنا ہوگا اور خود کفالت کی منزل کو کم ازکم وقت میں حاصل کرنا ہوگا اور ایمانی وروحانی قوت کے ساتھ ساتھ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں ان کے مقابل آنا ہوگا۔ ورنہ ہم صرف اس طرح کی شکست ہی دشمن کو دے پائیں گے ، جس طرح ہمارا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں امریکا کو شکست ہوگئی ہے ، لیکن ہماری فتح کا سورج کب طلوع ہوگا ، اس کا کسی کو پتا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی ہدایت دی ہے: ’’اورتم دشمن سے مقابلے کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق حربی طاقت تیار رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑے کہ تم ان کے ذریعے اﷲکے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو مرعوب کرواور ان کے سوا دوسرے دشمنوں کو بھی ، جنہیں تم نہیں جانتے ، اللہ انہیں جانتا ہے،(انقال:60)‘‘۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست کو ہمیشہ دشمن سے مقابلے کے لئے مستعد اور چوکنا رہنا چاہئے، جسے جدید فوجی اصطلاح میں Red Alert اور High Alertکہا جاتاہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے منبر پر اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے تاکیداًتین بار فرمایا: سنو! قوت یقینا ’’رَمی‘‘ (یعنی تیر اندازی یا پھینکنے کی صلاحیت )ہے اور آج کل اس کی جدید ترین شکل گائیڈڈمیزائل ہے، جو کمپیوٹرائزڈ طریقے سے اپنے ہدف کو نشانہ بناتاہے۔رسول اللہ ﷺنے دشمن کے مقابل اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعائیں بھی فرمائیں اور اپنے وسائل کے اندر افرادی قوت اور سامان ِ حرب اور حربی استعداد کا بھی اہتمام فرمایا۔ لہٰذا دشمن کے عزائم کی موت مسلمان کی اپنی طاقت میں ہے اور خود کو طاقتور بناناہی دشمن کی کمزوری ہے اور یہ گوہرِ مقصود جُہدِ مسلسل ، سعیِ پیہم اور مسلمانوں کی عزیمت واستقامت اور ناقابلِ شکست اتحاد سے حاصل ہوگا اور قرآن مجید کی متعدد آیات میں یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ جب اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مفادات ومعاملات کا ٹکراؤ ہوگا ، توسارا عالَمِ کفر ملتِ واحدہ بن جائے گا۔ ہماری ایک غلط فہمی یہ ہے کہ ہم ممالک کے تعلقات کو دو اشخاص کے معاشقے کی طرح سمجھتے ہیں اور پھر مایوس ہوکر کہتے ہیں کہ ہماری خدمات کا صلہ نہیں مل رہا۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ دوملکوں کے تعلقات مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان میں دائمی دوستی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ پس ہمیں علامہ محمد اقبال رحمہ اﷲتعالیٰ کے دردِ دل کو پلے باندھ لینا چاہئے اور متاعِ کارواں کے لٹ جانے اور چھن جانے کی ذمّے داری خود قبول کرکے اوراپنے اندر احساسِ زیاں پیداکرکے اپنی نشأت ونہضت اور اِحیاء (Renaissance)کا سامان کرناچاہئے ۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ سچ بولیں اور قوم کے سامنے تمام حقائق اپنی اصل صورت میں بیان کریں۔ علامہ اقبال ہی کا فرمان ہے ؎ معمارِ حرم باز بہ تعمیرِ حرم خیز از خوابِ گراں خیز، ازخوابِ گراں خیز ہماری کوتاہ اندیشی کا حال یہ ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی ساری کارروائی پسِ پردہ ہوتی رہی ، جو بھی بحث ہوئی ، اس کی تفصیلات قوم کے سامنے نہیں آئیں اور پھر قوم نے دیکھا کہ دو تین دن میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ایک سو ایک آئینی ترامیم محض نشست وبرخاست کی مشق کرتے ہوئے منظور کر لی گئیں ، اراکین کی حمایت ومخالفت میں تقسیم (Division)محض ایک آئینی مشق تھی ۔ کسی نے کوئی بحث نہیں کی، ترامیم کے حُسن وقُبح پر اراکین نے اظہارِ خیال ہی نہیں کیا، ایسا لگتا تھا کہ اراکینِ اسمبلی اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے مزارعین ہیں اور ان کا فرض محض ہاں یا ناں کرنا ہے، سو ہم کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہماری اجتماعی دانش کا مظہر ہے ۔جمہوری دنیامیں مجوزّہ آئینی ترامیم کو شائع کیا جاتاہے تاکہ ان پر قومی سطح پر بحث وتمحیص ہو ، آئینی وقانونی ماہرین ان پر اظہارِ رائے کریں اور پھرپارلیمنٹ کی اجتماعی دانش بروئے کار آئے اور قابلِ عمل اور قابلِ اعتماد دستوری نظام وضع ہو۔اس وقت آئینی صورتِ حال یہ ہے کہ تعلیمی نصاب (Curriculum)کا تعین وفاق کے پاس نہیں ہے، حالانکہ ابتدائی تعلیمی نصاب کے ذریعے ہی نئی نسل میں قومی وملی شعور اجاگر کیا جاتاہے۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل اورقومی احتساب بیورو کے چیئرمین کے تقرر کے وقت ان ترامیم کی کمزوری سامنے آگئی اور چیف الیکشن کمشنرکے تقرر کے وقت تو فریقین نے اس کا اعتراف بھی کرلیا کہ تعطُل (Deadlock)کا دستور میں کوئی حل نہیں ہے ۔ چنانچہ قوم کو جو نگران وزیر اعظم ملا، وہ ہماری پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کا شاہکار تھا ۔ اس ترمیم کا مقصد شاید یہ تھا کہ ایک غیر جانبدار، مضبوط قوتِ فیصلہ اور انتظامی صلاحیت کے حامل غیرجانبدار شخص کا تقرر ہو، جو اپنے آپ کو صرف آئین وقانون کا پابند سمجھے اور اس کا انتخابی میدان کارزار میں شامل جماعتوں میں سے کسی کی طرف جھکاؤ نہ ہو، جانبداری کا تاثر نہ پیدا ہو اور قومی انتخابات کی ساکھ اور اعتبار مجروح نہ ہو۔ لیکن ایسا بالکل نہ ہو ا ۔ اس صورتِ حال میں عمران خان کا یہ مطالبہ درست معلوم ہوتاہے کہ کم ازکم آئندہ قومی انتخابات کیلئے کوئی قابلِ عمل اور قابلِ اعتبار طریقۂ کار (Mechanism)وضع کیا جائے اور اس کا تجرباتی آغاز عنقریب منعقد ہونے والے مقامی حکومتوں (Local Governments) کے انتخابات سے کیا جاسکتاہے۔ یہ بات عیاں ہوگئی کہ اگرچہ آئینی وقانونی طریقۂ کار کے اعتبار سے ہمارا نظامِ انتخاب اگر آئیڈیل نہیں تو بہتر ضرور ہے ، لیکن جب کوئی پورے کا پورا حلقہ یا پولنگ اسٹیشن یرغمال ہوجائے ، تو پھر سارے قاعدے اور ضابطے اور آئینی وقانونی نظام محض نمائشی (Show Piece)بن کر رہ جاتے ہیں۔