رحمۃُ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہﷺکی تربیت کے نتیجے میں صحابۂ کرامؓ کے قلوب واذہان کا ایسا تزکیہ (Purification ) ہوا کہ ان کی سوچ رضائے الٰہی اور وحیِ ربّانی کے سانچے میں ڈھل گئی۔ صحابۂ کرام نے ایسی آیاتِ مبارَکہ کی نشاندہی کی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہنِ رسا نے نزولِ وحی سے پہلے ہی منشائے ربانی کو پالیا تھا، ایسی آیات کو محدِّثینِ کرام نے ’’مُوفَّقاتِ عمر‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔صحابۂ کرامؓ بارگاہِ الٰہی میںمقبولیت کے جس درجے پر فائز تھے اور انہیں اخلاص اور تسلیم ورضا میں جواعلیٰ مقام نصیب ہوا وہ نورِ نبوت ہی کا فیضان تھا، بقولِ علامہ اقبال ؎ یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے جس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی ایمان کے اسی اعلیٰ معیار کو رسول اللہﷺنے اس حدیث میں بیان فرمایا: ’’(اے اہلِ ایمان!)میرے صحابہؓ کی شان میں نازیبا کلمہ نہ کہو، اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کردے ، تو وہ میرے صحابہ ؓکے ایک مد یا آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘(صحیح مسلم:222)۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، رسول اللہﷺکی زبانِ مبارک سے اپنے بارے میں پیارمحبت کے ایک کلمے کو کائنات کی عظیم ترین دولت سے تعبیر کرتے تھے۔ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک بار رسول اللہﷺ سے عمرے کی اجازت مانگی ، آپ ﷺ نے اجازت دیتے ہوئے فرمایا: اے پیارے بھائی! ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شریک کرنااوربھلا نہ دینا‘‘ (ترمذی:3562)۔ اس میں حضورﷺ نے حضرت عمر کو پیار سے ’’اُخَیَّ‘‘(جیسے ہم اردو میں پیار سے بھیا کہتے ہیں)فرمایا، تو حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی زبانِ مبارَک سے میرے لئے جو پیار کا کلمہ ارشاد فرمایاہے، یہ کلمہ مجھے پوری کائنات سے زیادہ عزیز ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل میں امورِ سیاست انبیائے کرام انجام دیتے تھے،جب ایک نبی کا وصال ہوجاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لیتا اور اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، (پس یہ فریضۂ سیاست ) خلفاء انجام دیں گے‘‘ (بخاری:3455)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دوسرے خلیفہ مقرر ہوئے، آپ کی خلافت کا عرصہ تقریبا ً ساڑھے دس سال ہے ۔ آپ کے عہدِ خلافت میں اس دور کی دو سپر پاورز (قیصر وکسریٰ)اسلام کے قدموں میں سرنگوں ہوئیں اور اسلام اس عہد کی واحد سپرپاور بن کر نمودار ہوا ۔ عہدِ فاروقی میںاسلامی سلطنت تقریباً پچیس لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھی۔ اسلامی سلطنت روئے زمین پر سب سے پہلی منظم ریاست کے طور پر قائم ہوئی ۔ سید المرسلینﷺ کی حیاتِ ظاہری میں حجاز پر اسلامی حکومت قائم ہوچکی تھی، نزولِ قرآن کی تکمیل ہوچکی تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں پر تکمیلِ دین اور اِتمامِ نعمت کا اعلان کیا جاچکا تھا اور اسلام کو انسانیت کے لئے حتمی اور قطعی ضابطۂ حیات قرار دیا جاچکا تھا۔ خلافتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ میں اصولِ دین سے انحراف اور انکارِختمِ نبوت کے فتنوں کی سرکوبی کی جاچکی تھی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی کے صائب مشورے پر قرآن مجید کی ایک مرتب تحریری صحیفے کی شکل میں تدوین کا کام مکمل ہوچکا تھا ۔وہ خلافتِ اسلامی کے بنیادی اصول وضوابط یا دستورومنشور کا تعین کرچکے تھے اور وہ اصول یہ تھے کہ خلیفہ سمیت تمام مسلمان اﷲتعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ کی اطاعت کے پابند ہیں ، ریاست کے قیام کا مقصد ظالم کے ظلم کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ کو روکنا بلکہ توڑ دینا اور مظلوم کو اس کا ہر جائز حق دلانا ، یہ کہ مسلمانوں کی عزت ووقار کا رازجہاد میں ہے ، روحانی اور اخلاقی اقدار کا تحفظ ریاست کی ذمّے داری ہے اور خلیفہ کاکام امت کو جادۂ مستقیم پر چلانا اور امت کا کام خیر کے ہر کام میں خلیفہ کی معاونت ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد سے پہلے تاریخ ِ انسانیت فلاحی ریاست کے تصور سے ناآشنا تھی ، حاکم عوام کے سامنے جوابدہ نہیں تھا، عدل کے معیارات مختلف تھے ۔ یہ شاہکارِ رسالت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت تھی ، جن کی ذات آج بھی ایک فلاحی عادلانہ ریاست کے لئے مستند اور معتبر حوالہ ہے اور آپ کا شِعارِ حکومت آج بھی انسانیت کے لئے مشعلِ راہ اور مَنارۂ نور ہے۔قرآن مجید نے حضرت موسیٰ ویوسف علیہمالسلام اورحضرت طالوت کے حوالے سے کسی اعلیٰ منصب کی اہلیت کے چند اوصاف بیان کئے ہیں، جویہ ہیں : قوی، امین ، حفیظ ، علیم اور مادّی طاقت کا حامل ہونا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ میںیہ سارے اوصاف بدرجۂ اَتَم موجود تھے اور آپ کا طرزِ حکومت انہی اوصاف کا مظہر تھا، علامہ اقبال نے اپنے انداز میں یہی بات کہی ؎ قَہَّارِی و غَفَّارِی و قدّوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان جنگِ قادسیہ کے موقع پر مدائن میںفارس کی سلطنت کی شکست ہوئی اور ان کا قصر ابیض (White House)فتح ہوا تو مشہور مصری مؤرخ حسنین ہیکل کے مطابق تیس کھرب دینار کا مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا اور اسے دارالحکومت مدینۂ منورہ بھیجا گیا ، جب اسے مسجد نبوی میں پھیلا دیا گیا ،تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ انتہائی قیمتی زر وجواہر اور مال ومتاع پر ہاتھ پھیر رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے سیلِ اشک رواں تھا ، کسی نے کہا:امیرالمومنین ! یہ تو مسرت کا مقام ہے اور آپ رو رہے ہیں ، حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہ آنسو حزن وملال کے نہیں ، رنج والم کے نہیں ، درد وکرب کے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تشکر کے آنسو ہیں ۔ انہوں نے کہا: اتنی قیمتی متاعِ دنیا صحراؤں اور بیابانوں سے گزرتے ہوئے وہ مجاہدین لے کر آئے ہیں، جنہیں کھانے کو پوری خوراک ، پہننے کو پورا لباس اور سواری کا پورا سامان میسر نہیں ، مگر کسی کی نیت میں کوئی فتور نہیں آیا اور ایک سوئی اِدھر سے اُدھر نہیں ہوئی ، اس درجہ کا کمالِ امانت اور کمالِ دیانت ! حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: امیر المؤمنین ! سپاہ اس لئے دیانت دار ہیں کہ امیر دیانت دار ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ کے حکیمانہ قول سے پتا چلا کہ نظامِ ریاست وحکومت میں امانت ودیانت کے سرچشمے اوپر سے نیچے کی طرف پھوٹتے ہیں ۔ آج امت اسی دیانت کو ترس رہی ہے۔ اِسی حقیقت کو رسول اللہﷺنے اِن الفاظ میں بیان فرمایا: ’’جب قومی دولت کو حُکام ذاتی جاگیر بنالیں، اُمراء زکوٰۃ کو تاوان سمجھ کر دینے سے انکار کردیں ، قومی امانتوں کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹاجائے ،ایک شخص باپ کو دور کردے اور دوست کو قریب کرے، ایک شخص ماں کا نافرمان بن جائے اور بیوی کا فرمانبردار، معاشرے میں کسی کی عزت اُس کی ضرر رسانی اور شَر کے خوف سے کی جائے ،بدکاریاں اور شراب نوشی عام ہوجائے۔ رقص وغنا کا دوردورہ ہو،توپھر وہاں زلزلے آئیں گے ،صورتیں مَسخ کردی جائیں گی (یعنی بے توقیر ہوجاؤگے) اور زمین میں دھنسا دیا جائے گا اور سرخ ہوائیں چلیں گی(یعنی قیامت کا منظر ہوگا)‘‘۔ فتح بیت المقدس کے موقع پر کلیسا کے بِطریقِ ایلیا(Chief Priest)آپ کو اپنے کلیسا میں نماز کے لئے کہتے ہیں ،تو آپ اس لئے گریز کرتے ہیں کہ کہیں اسے مثال نہ بنا لیا جائے ۔ مسیحی رعایا کے لئے حقوق کی ایک دستاویز لکھوائی کہ ان کی جانوں، اموال، عبادت گاہوںاور اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ طور پرحقِ عبادت کا تحفظ کیا جائے گا اور آخر میں آپ نے لکھا کہ یہ ضمان (Guarantee)اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول ﷺ، خلیفہ اور تمام مسلمانوں کی جانب سے ہے ۔ حضرت عمر ؓفاروق نے مختلف ریاستی ذمے داریوں کو منظم اداروں (Institutionalized)کی شکل دی۔بہت سے امور کو تاریخ میں اَوّلیاتِ عمر(Originated by Umar) کے نام سے یاد کیا جاتاہے، ان میں سے چند یہ ہیں: سنِ ہجری کا اجراء، مردم شماری، محکمۂ خزانہ کا قیام ، نئے شہروں کی آباد کاری ، نہروں کی کھدائی ،فوج کی تنظیم ،نمازِ تراویح باجماعت، فجر کی اذان میں’’ الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کا اضافہ، ہر شہری (یہاں تک کہ نومولود بچوں) کے لئے وظائف کا اجراء ، مساجد کی تنظیم ، نظامِ عدل اور قضاۃ کا تقرر، خلیفہ کے لئے امیر المومنین کا لقب ، عشور یعنی ریاست کے Revenue کا انتظام، زمینوں کی پیمائش ، پولیس کے محکمے کا قیام ، فوجی چھاؤنی کا قیام ، مہمان خانوں اور سراؤں کی تعمیر ، چیک پوسٹوں کا قیام ، جیل خانوں کا قیام اور راتوں کو گشت کرکے رعایا کے احوال معلوم کرناوغیرہ کئی امور شامل ہیں۔ آپ نے مالِ فَے (یعنی وہ مفتوحہ علاقے جو کسی فوج کشی کے بغیر فتح ہوگئے ہوں ) کو مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بجائے بعدمیں آنے والوں کے لئے ریاستی تحویل میں رکھااور اس پر قرآن سے استدلال کیا،جسے تمام صحابۂ کرام نے تسلیم کرلیا۔