"MMC" (space) message & send to 7575

آئیے ! سچ بولنے کی کوشش کریں۔۔۔مگر ؟

رسول اللہ ﷺ سے سوال ہوا: کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! پھر سوال ہوا: کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! پھر سوال ہوا : کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں(مومن کذاب نہیں ہوسکتا)،(مؤطا امام مالک، ص: 732) مومن اور کافر کے درمیان اصولی طور پر حق وباطل کا فیصلہ دلیل واستدلال سے ہونا چاہیے، لیکن جب نجران کے نصاریٰ دلیلِ حق کو سننے اور قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو فرمایا کہ آخری حجت کے طور پر ان کو مباہلے کی دعوت دیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''پس (اے رسولِ مکرم!) جو لوگ (دین کی حقانیت کا)علم حاصل ہوجانے کے بعد بھی آپ سے (عیسیٰ علیہ السلام) کے متعلق کٹ حجتی کریں، تو آپ (آخری حجت کے طور پر ان سے) کہیں : آؤ! ہم دونوں فریق بلا لیں اپنے اپنے بیٹوں کو، اپنی اپنی عورتوں کو اور خود بھی (کھلے میدان میں نکل آئیں )، پھر ہم مباہلہ کریں(یعنی انتہائی عاجزی کے ساتھ گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ سے فریادکریں ) پس جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں‘‘۔ (آل عمران:61) اس آیت کو آیتِ مُباہَلہ (Invocation) کہتے ہیں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے نجران کے وفد کو مباہلہ کے لئے بلایا ، رسول اللہﷺ حضرت علی، سیدہ فاطمۃ ؓالزھرا، حضرات حسنین کریمین( رضوان اللہ علیھم اجمعین) کو لے کر نکلے اور فرمایا: جب میں دعا کروں تو آمین کہنا ۔ نصاریٰ کے چیف بشپ نے کہا: اے نـصاریٰ کی جماعت ! میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ سے دعا کریں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے تواللہ ان کی دعا کو قبول کر کے پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے گا، سو تم ان سے مباہلہ نہ کرو ورنہ تم ہلاک ہوجاؤ گے اور 
قیامت تک کوئی عیسائی روئے زمین پر باقی نہیں بچے گا۔ پھر انہوں نے جزیہ دینا قبول کرلیا اور اپنے علاقے میں واپس چلے گئے ۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، اﷲ کا عذاب اہلِ نجران کے نزدیک آ چکا تھا اور اگر یہ مباہلہ کرتے تو ان کی صورتیں مسخ کر دی جاتیں، ان کی وادی میں آگ بھڑکتی رہتی اور اہلِ نجران کو ملیا میٹ کر دیا جاتا، حتیٰ کہ درختوں پر پرندے بھی ہلاک ہو جاتے اور سال ختم ہونے سے پہلے تمام عیسائی فنا کے گھاٹ اتر جاتے۔ (الوسیط، جلد: 1، ص: 444، المستدرک، جلد:2، ص:596) اس سے معلوم ہوا کہ مباہلہ کی صورت میں بھی ہلاکت کی دعا جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجنا ہے۔ دو احادیثِ مبارَکہ میں رسول اللہ ﷺ نے منافق کی یہ نشانیاں بیان فرمائیں : (1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (3)جب اُس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے(4)جب معاہدہ کرے تو دھوکا دے (5)اور جب جھگڑا کرے تو بدکلامی کرے اور حد سے تجاوز کرے‘‘۔(صحیح بخاری:33-34)اس حدیث کی رُو سے منافق کی سب سے پہلی نشانی جھوٹ بولنا ہے، یعنی جو کچھ دل میں ہے زبان سے اس کے برعکس اظہار کرنا۔ لیکن بعض اوقات سچ بولنے کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ رسول اللہﷺ جب جہاد کے لئے نَفِیرِ عام(یعنی عام اعلانِ جنگ) کا حکم فرماتے تو جو لوگ جہاد میں جانے سے پیچھے رہ جاتے انہیں ''مُخَلَّفِیْن‘‘ کہا جاتا تھا۔ جب آپ سفرِ جہاد سے واپس تشریف لاتے تو مسجد نبوی میں بیٹھ جاتے، حالات دریافت کرتے اور جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں سے جواب طلبی فرماتے۔ ان میں راسخ العقید ہ اور صداقت شعار اہلِ ایمان بھی ہوتے اور منافقین بھی۔ منافقین اپنے پیچھے رہ جانے کے جواز کے لیے طرح طرح کے عذر اور بہانے تراشتے، اﷲتعالیٰ ان کی کیفیت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ''(اے مسلمانو!)جب تم اِن( منافقین ) کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے طرح طرح کے عذر پیش کریں گے (اے رسولِ مکرم!) آپ کہیے کہ تم بہانے نہ بناؤ، ہم ہرگز تمہاری بات پہ یقین نہیں کریں گے، اللہ نے ہمیں تمہارے بارے میںمطلع فرما دیا ہے اور اب اللہ اور اس کا رسول تمہارے (طرزِِ) عمل کو دیکھیں گے‘‘۔ (توبہ:94) غزوۂ تبوک کے موقع پرجہاد سے پیچھے رہ جانے والے اَسّی سے کچھ زائد افراد تھے، ان میںزیادہ تر منافقین تھے، ان منافقین کے علاوہ تین مومنین صادقین صحابۂ کرام (کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع اورہلال بن امیہ) بھی تھے جو جہاد میں شریک نہ ہو سکے مگر انہوں نے رسول اللہﷺ کے سامنے اپنے پیچھے رہ جانے کے جواز کے لیے کوئی عذر پیش نہ کیا بلکہ اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا۔ رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا بلکہ وہ عتاب کا شکار ہوئے۔ پہلے مرحلے میں آپﷺ نے صحابۂ کرام کو ان کے ساتھ گفتگو کرنے سے منع فرمایا اور یوں وہ سب کے لئے اجنبی بن گئے(کیونکہ صحابۂ کرام کی دوستی اور دشمنی صرف اللہ اور اس کی رضا کے لئے ہوتی تھی) پھر ان کی بیویوں کو بھی ان سے ملنے سے روک دیا گیا، صرف بڑھاپے کی وجہ سے حضرت ہلال بن امیہ کی بیوی کو ان کی خدمت کی اجازت دی گئی۔ یہ ان تین صحابۂ کرام کا سماجی مقاطعہ (Social Boycott)تھا۔ حضرت کعب بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جو ہمارے قریبی رشتے دار تھے اور ہم پر جان چھڑکتے ھے ، انہیں ہم بلاتے یا سلام کرتے تو وہ سلام کا جواب تک نہ دیتے۔ اس بائیکاٹ اور معاشرتی تنہائی کے دور میں شام سے ایک شخص میرے پاس آیا اور غسان کے بادشاہ کا خط مجھے دیا، اس میں لکھا تھا: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے صاحب نے تم پر ظلم کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم کو ذلت اور رسوائی کی جگہ رہنے کیلئے پیدا نہیں کیا، تم ہمارے پاس آ جاؤ، ہم تمہاری ہرطرح کی دل جوئی کریں گے۔ میں نے یہ خط پڑھا اور اسے تنور میں پھینک دیا کہ یہ بھی آزمائش کا حصہ ہے۔ شدید تکلیف اور اذیت کے جب پچاس دن پورے ہوئے تو رسول اللہﷺ نے انہیں طلب فرمایا، رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب سے تمہاری ماں نے تمہیں جنا ہے تمہارے لیے آج کے دن سے زیادہ بہتر دن کوئی نہیں آیا، اس مبارک دن کی تمہیں خوشخبری ہو۔ دراصل یہ ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان تھا۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھ پر یہ کرم آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی طرف سے ۔ اور جب رسول اللہ ﷺ خوش ہوتے تو آپ کا رخ انور چاند کی طرح روشن ہوجاتا اور ہم اس علامت سے آپ ﷺ کی خوشی کااندازہ لگا لیتے۔ حضرت کعب بن مالک نے قبولیتِ توبہ کی خوشی میں غزوۂ خیبر کے مالِ غنیمت کے حصے کے علاوہ اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان ان کلماتِ طیبات میں فرمایا:''بے شک اللہ نے نبی پر فضل فرمایا اور ان مہاجرین وانصار پر(بھی)جنہوں نے انتہائی تنگی کے عالَم میں نبی کی اتباع کی جبکہ اس کے بعد یہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل اپنی جگہ سے ہِل جائیں ، پھر اس کے بعد اس نے ان کی توبہ قبول کی ، بے شک وہ ہم پر نہایت مہربان، بہت رحم والا ہے اور (خاص طور پر ) ان تین افرادکی توبہ بھی قبول فرمائی جن کا فیصلہ مؤخر کردیا گیا تھا، یہاں تک کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور وہ اپنی جان سے بھی تنگ آگئے اور انہوں نے یہ یقین کرلیا کہ اللہ کے سوا ن کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں، پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی‘‘۔ (توبہ:118) یہ طویل حدیث مبارَک کا خلاصہ ہے اوربیان کرنے کا مدعا یہ ہے کہ سچ کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، آئیے! ہم اپنے درپیش قومی مسئلے کے بارے میں سچ بولیں اور قیمت کے لیے تیار ہوجائیں۔ (جاری) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں