پاکستان میں گزشتہ ایک عشرے سے بدحالی اور شدید بدامنی کے باوجود تین شعبے ماشاء اللہ انتہائی منفعت بخش صنعت کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور پھل پھول رہے ہیں۔۔۔۔۔ تعلیم، صحت اور میڈیا۔ میڈیا کی مشکل یہ ہے کہ موضوعات کم ہیں اور مقابلہ سخت۔ پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا شدید مسابقت کے ماحول میں ہے۔ ہر ٹیلی ویژن چینل کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ناظرین کو ٹی وی اسکرین کے ساتھ جوڑے رکھے۔ اِس کے لیے سنسنی خیز موضوعات کو ایک لازمی عنصر بنا لیا گیا ہے تاکہ ناظر کے مَن اور تن میں سراسیمگی پھیل جائے اور وہ جامدوساکت ہو کر اسکرین پر نظریں جمائے رکھے۔ ہمارے مایہ ناز اینکر پرسن، خبر دہندہ یا معروضی تجزیہ کار کے بجائے مُصلح (Reformer) کا درجہ پاچکے ہیں، ہماری دعا ہے ایسا ہی ہو جائے۔ کچھ یہی صورتحال کالم نگاری کی ہے، مذہبی مُصلح ذرا پیچھے چلے گئے ہیں کیونکہ اب الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی عوام تک رسائی مسجد کے منبر یا مذہبی جلسے کے اسٹیج سے بدرجہا زائد ہو چکی ہے۔ لہٰذا اب ہمارے میڈیا کے اسٹار جہاں ہماری اجتماعی زندگی کے دیگر شعبوں کی اصلاح کا فریضہ رضاکارانہ طور پر انجام دیتے ہیں، وہاں وقتاً فوقتاً مذہب اور اہلِ مذہب کی اصلاح بھی فرماتے رہتے ہیں۔ ایک تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ شاید ہماری ساری یا بیشتر خرابیوں کی جڑ ہمارے معاشرے میں مذہب اور اہلِ مذہب کا اثرونفوذ ہے۔ ظاہر ہے، جب ہر طبقہ ناکامی اور نامرادی کا ملبہ دوسرے پر ڈالے گا تو خود ذمے داری سے بری الذمہ ہو جائے گا؛ حالانکہ ہم سب کے لیے اصلاح کا سب سے سہل طریقہ اپنے اندر جھانکنا اور احتسابِ ذات ہے لیکن انسان کے لیے شاید یہی کام سب سے زیادہ مشکل ہے۔ بقول شاعر:
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
بدامنی، ظلم و فساد، تخریب کاری اور دہشت گردی کا حل یہ ہے کہ ریاست و حکومت اسے اسلام، قوم و وطن اور انسانیت کے خلاف جرم سمجھ کر سختی سے کچل دے اور انسانیت کو قتل و غارت اور ظلم و فساد سے امان دینے کے لیے کسی مصلحت کا شکار نہ ہو، مگر ہمارے ہاں مذہبی، لسانی، علاقائی، صوبائی اور قومیتوں کا لیبل لگا کر اسے ایک طرح کا تحفظ دے دیا جاتا ہے۔
بعض لوگوں کے نزدیک اُمُّ الامراض فتویٰ ہے، لہٰذا ان کا من پسند مطالبہ یہ رہتا ہے کہ فتویٰ پر پابندی لگا دی جائے اور یہ کام ریاست اپنے ہاتھ میں لے لے۔ اِن دانائے روزگار اہلِ دانش کو معلوم ہونا چاہیے کہ ریاست و حکومت ''دارالافتاء‘‘ نہیں ہوتی، اس کا کام قضا ہے، اسے مختلف درپیش قومی، ملی اور ملکی مسائل کو قانون سازی، عدالتی نظام اور انتظامی اقدامات کے ذریعے حل کرنا ہوتا ہے، مگر یہ تب ہو گا جب حکومت کی مسند پر فائز طبقہ ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لیے قوتِ ایمانی، سیاسی عزم اور جرأت کا حامل ہو، اور یہی گوہرِ مقصود ہمارے ہاں مفقود ہے۔ جب ریاست دین کی محافظ تھی تو کسی کو فتویٰ دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انکارِ ختم نبوت اور انکارِ فرضیت زکوٰۃ کو اِرتداد قرار دے کر اُن لوگوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا، حتیٰ کہ منکرینِ زکوٰۃ نے زکوٰۃ کے بنیادی رکنِ اسلام کو تسلیم کر لیا اور جھوٹے مدعیان نبوت کا قَلع قَمع کر دیاگیا۔ آج ریاست دین کے معاملے میں لاتعلقی کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ فتویٰ، درپیش مسئلے کے بارے میں فقہی رائے (Juristic Opinion) کا نام ہے، فتویٰ کی زبان ہی یہ ہوتی ہے کہ اگر سوال میں بیان کردہ صورتِ مسئلہ درست ہے تو اس کا شرعی حکم یہ ہے، مُستفتی یا سائل کو جس مفتی یا عالم کی دینی ثقاہت (Authenticity) اور دیانت پر اعتماد ہوتا ہے، وہ برضاورغبت اس کا فیصلہ مان لیتا ہے، نہ ماننا چاہے تو مفتی کے پاس ریاست یا حکومت یا قانون و عدالت کی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اس سے ضرور منوائے، سائل خود آتا ہے اور جواب لے کر چلا جاتا ہے، اس کے بعد یہ بندے اور رب کا معاملہ ہے۔
قضا عدالتی منصب ہے جو ریاست کی طرف سے تفویض ہوتا ہے۔ جج یا قاضی کی شرعی اور قانونی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مدعی کے دعویٰ کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرے، عدالت میں پیش کی گئی عینی شہادتوں کا تزکیہ کرے، قرائن و واقعات کی شہادت کا جائزہ لے کر ان کے قابل قبول ہونے یا رد ہونے کا فیصلہ کرے، دعویٰ صحیح ثابت ہونے کی صورت میں مدعی کو اس کا حق دلائے اور مدعیٰ علیہ پر فیصلے کو ریاست و حکومت اور قانون کی طاقت سے نافذ کرے۔ اس طرح کے قرائن بھی سامنے آئے ہیں کہ کراچی میں امن کمیٹی کے نام سے جو نیا عنصر سامنے آیا، اس میں بھی بعض فرقہ پرست عناصر اپنے اپنے مقاصد کے لیے نفوذ کر گئے تا کہ ایک تیر سے دو شکار کھیلیں۔ اور پھر جرم جب معاشرے میں نچلی سطح تک پھیلتا ہے تو گلی محلے کی سطح تک آزاد گروہ پیدا ہو جاتے ہیں۔
ہمیں جب کوئی موضوع نہیں ملتا تو مذہب اور اہلِ مذہب کی مشکیں اور نٹ بولٹ کسنا شروع کر دیتے ہیں، انہیں کوستے ہیں۔ اگر حکومت میں دم ہے تو حقائق سے گریز کے حیلے چھوڑے اور بلاامتیازِ مذہب و مسلک دہشت گردوں، قاتلوں اور ظالموںکو عبرت ناک سزا دے کر کیفر کردار تک پہنچائے‘ اور جرم کو جو بھی تحفظ دینا چاہے، اس کی پروا نہ کرے۔ ظاہر ہے کسی نہ کسی کو تو ناراض کرنا پڑے گا، مگر یہ مشکل کام ہے۔ سب سے آسان کام میڈیا کی عدالتیں ہیں جہاں چالیس منٹ میں رپورٹنگ، تجزیہ اور تحقیق کے تمام مراحل مکمل ہو جاتے ہیں لیکن اگلی صبح ہم کولہو کے بیل کی طرح وہیں کھڑے ہوتے ہیں جہاں کل تھے۔
دینِ اسلام ایک حقیقت ثابتہ کا نام ہے، اس میں کچھ مسلَّمہ عقائد ہیں، ارکان ہیں اور عبادات و احکام ہیں۔ جو بھی دین کے کسی قَطعیُّ الثُّبوت اور قَطعیُّ الدَّلالت حکمِ شرعی کا انکار کرے گا، ہم کہیں گے، اگر یہ دعویٰ یا الزام درست ہے تو ایسا کرنے والا اسلام سے خارج ہے۔ ہمارے لبرل دانشور ہمیں بتائیں کہ کوئی خدا کو نہیں مانتا یا قرآن کو نہیں مانتا یا رسول کو نہیں مانتا یا آخرت کو نہیں مانتا یا نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو نہیں مانتا یا خنزیر کو حرام نہیں مانتا، تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ کہ آپ بہت اچھے مسلمان ہیں، کوئی حرج نہیں۔ یا یہ کہیں گے کہ انسان اللہ کی ہستی، قرآن مجید، رسالت اور آخرت پر ایمان لائے بغیر بھی مسلمان رہتا ہے، ارکانِ اسلام پر بھی ایمان ضروری نہیں ہے، اس کے بغیر بھی آپ اچھے مسلمان بن سکتے ہیں؛ سو بنیادی مسئلہ یہ ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ کسی شخص کی طرف جو بات منسوب کی گئی ہے، وہ فی الواقع اس نے کہی ہے یا نہیں، یہ مفتی کا منصب نہیں ہے، یہ قضا کا منصب ہے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم جیسے مغربی تعلیم یافتہ، ترقی پسند اور سوشل ازم کے نام پر اقتدار میں آنے والے وزیراعظم کے عہدِ حکومت میں ساتویں آئینی ترمیم مکمل اتفاقِ رائے سے منظور کی جس کی رو سے عقیدۂ انکارِ ختم نبوت کو کفروارتداد قرار دیا گیا‘ لہٰذا یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو گیا اور اس پر کسی کو فتویٰ بازی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ قادیانی پاکستانی کی حیثیت سے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے آئین کا احترام کریں اور اپنے آپ کو غیرمسلم تسلیم کریں۔ تمام مسلم و غیرمسلم پاکستانیوں کی طرح ان کو جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے یکساں حقوق حاصل ہیں۔ وہ اپنی عبادت گاہ کو مسجد کا نام نہ دیں، اس کے علاوہ جو نام وہ مناسب سمجھیں اختیار کر لیں۔ دیگر غیر مسلموں کی طرح انہیں بھی اپنی عبادت گاہ میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کا آئینی و قانونی تحفظ ملے گا۔