"MMC" (space) message & send to 7575

امام احمد رضا قادری محدّثِ بریلی

 10 شوال المکرم 1272ھ تا 25صفرالمظفر 1340ھ

 

 گزشتہ سو سال میں برصغیر پاک وہند میں جس دینی شخصیت کے ساتھ مسلمانوں نے غالب تعداد میں عقیدت واتباع کا تعلق قائم کیا، وہ مجددِدین وملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدّث بریلی رحمہ اﷲتعالیٰ کی شخصیت ہے۔آپ اس خطے کے سب سے ممتاز اور مایۂ ناز فقیہ تھے ، آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ : ''العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ‘‘33ضخیم مجلّدات پر مشتمل ہے ۔ اس مجموعے میں شامل بعض فتاویٰ اتنے مدلل ، مفصل ، محَقق اور وقیع ہیں کہ ایک ایک فتوے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی جانی چاہئے۔ دراصل یہ فقہِ حنفی کا ایک جامع انسائیکلوپیڈیا ہے ۔ اس کے علاوہ فقہِ حنفی کی فتاویٰ کی انتہائی معتبراور مستند کتاب ''ردالمحتار علی الدرالمختار‘‘ پرآپ نے مفصل حاشیہ لکھا اور بعض مقامات پر وقیع دلائل سے علامہ ابن عابدین شامی سے اختلاف بھی کیا ،عربی زبان میں آپ کا عظیم علمی شاہکار حال ہی میں تحقیق وتخریج کے ساتھ ''جِدّالممتار علی ردالمحتار‘‘ کے نام سے متحدہ عرب امارات نے سات ضخیم مجلّدات میں شائع کیا ہے۔ مکمل فتاویٰ رضویہ کو بھی عربی میں منتقل کرنے کاکام جاری ہے۔ آپ کی عربی تصانیف میں ''الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ ‘‘ اور ''انباء الحی ‘‘ عالَمی سطح پر قبولیت کا شرف حاصل کرچکی ہیںاوریہ کتب ''مکتبہ ایسک استنبول‘‘ ترکی سے شائع ہوچکی ہیں۔ فتاویٰ رضویہ میں جو احادیث استدلال کے طور پر پیش کی گئی ہیں ، ان کا مجموعہ تخریج وتحقیق کے ساتھ ''جامع الاحادیث ‘‘ کے نام سے چار جلدوں میں طبع ہوچکا ہے، اقتصادی مسئلے پر ''کفل الفقیہہ الفاہم‘‘ ان کا معرکۃ الآراء فقہی شاہکار ہے، اس میں کرنسی نوٹوں کا شرعی حکم بیان کیا گیا ہے۔ معروف ہے کہ آپ کی عربی واردو تصانیف مع شروح وحاشیہ جات کی تعداد تقریبا ایک ہزار ہے۔ انوارِ رضامیں قدیم وجدید علوم پر548 کتب کی فہرست شائع ہوچکی ہے اور باقی پر کام جاری ہے۔ 
برطانوی استعمار کے عہد میں ہندوستان میں جب تحریکِ موالات چلی اور'' ملت وطنی ‘‘کاپرچم بلند کرتے ہوئے ہندو مسلم بھائی بھائی کا نعرہ لگایا جانے لگا ، تو امام احمد رضا قادری محدّث بریلی نے انتہائی مدلّل طریقے سے اس موقف کو رَد کیا اور قرار دیا کہ غاصب برطانوی سامراج سے آزادی کے لئے جدّوجہد بھی لازم ہے، لیکن اسلام میں ملت وقومیت کی اساس دین ہے، اس لئے ہندومسلم بھائی بھائی نہیں ہوسکتے۔ اس نظریے کی وضاحت کیلئے ''ترکِ موالات‘‘ کے عنوان سے انہوں نے مفصل ومدلّل فتویٰ جاری کیا۔ آگے چل کر یہی فتویٰ ''نظریۂ پاکستان‘‘ یعنی ''دو قومی نظریے‘‘ کی بنیاد بنا اور قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ نے تحریکِ پاکستان کی بنیاد ڈالی اور 14، اگست 1947ء ، 27رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نے اس خطے کے مسلمانوں کو پاکستان کی صورت میں آزاد وطن عطا کیا ، جو آج ہماری پہچان ہے اور تمام تر مشکلات کے باوجود دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔ 
گزشتہ امتوں میں جب ایک نبی اور رسول وصال فرمالیتے اور کچھ زمانہ گزرنے کے بعد ان کی شریعت اور اسلام کی تعلیمات کو لوگ فراموش کردیتے یا حق میں باطل کی آمیزش کردیتے یا اس عہد کے اعتبار سے بدعات ، خرافات اور منکرات کو دین سے جوڑ دیتے ، تو دین اور شریعت کوہرقسم کی باطل کی آمیزش سے پاک کرکے اپنی اصل شکل پرلانے کے لئے اللہ تعالیٰ دوسرا نبی مبعوث فرماتا ، جو دین کو ہرقسم کی خرافات سے پاک کرکے قوم کے سامنے پیش کرتا۔ مگر جب تاجدارِ کائنات سیدنا محمد رّسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری کامل اور خاتم نبی اور رسول بن کر تشریف لائے ، تو آپ کے بعد کسی اور نبی کے آنے کا امکان ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیااور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر دین کی تکمیل اور نعمت کے اِتمام کا اعلان فرمادیا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سن 10ہجری کو اپنے حجۃ الوداع کے خطبے میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے دین کی تعلیمات حاصل کرلو ، شاید کہ آئندہ سال میری تم سے یہاں ملاقات نہ ہو۔ پھر نبیِ کریم ﷺ نے تبلیغِ دین کی ذمے داری اپنی امت کے علماء کو تفویض کرتے ہوئے فرمایا: ''آج جو لوگ یہاں پر موجود ہیں ، وہ دین کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں ، جو یہاں پر موجود نہیں ہیں ،بسا اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ جس کو بالواسطہ دین کی تعلیمات پہنچتی ہیں، وہ براہِ راست سننے والے سے بھی زیادہ ان کی حفا ظت کرتاہے‘‘۔ اور آپﷺ نے یہ بھی فرمایا: ''اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر صدی کے سِرے (یعنی ایک صدی کے اختتام اور دوسری صدی کے اوائل میں) پر ایسی شخصیت کو مبعوث فرمائے گا جو اس امت کے لئے تجدید واِحیائِ دین کا فریضہ انجام دے گا‘‘۔ چنانچہ مختلف صدیوں میں مختلف خطوں میں مجدد آتے رہے اور اِحیائِ دین کا فریضہ انجام دیتے رہے، برصغیر میں اس حوالے سے شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ کا نام ہر ایک کی نوکِ زبان پر ہے۔ اسی طرح اس خطے کے علمائِ اہلسنت کا اجماع ہے کہ تیرہویں صدی ہجری کے اختتام اور چودہویں صدی ہجری کے اوائل میں برصغیر میں امام احمد رضاقادری نوراللہ مرقدہٗ نے تجدیدواِحیائِ دین کا فریضہ انجام دیا۔
برطانوی سامراج نے برصغیر میں اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا اور ان کے ذہن میں یہ بات پیوست تھی کہ مسلمان ہی ان سے برسرِ پیکار ہوسکتے ہیں۔ اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ مسلمانوں میں جو چیز قوتِ ایمانی اور جہدوعمل پر ابھارتی ہے اور جس کی خاطر وہ اپنی متاعِ جان کو بھی قربان کرنا سعادت سمجھتے ہیں ، وہ ناموسِ اُلُوہیت جلّ وعلا اور ناموسِ رسالت مآب ﷺ اور ناموسِ شِعارِ دین ہے ، علامہ اقبال نے اسی حقیقت کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرمایا ؎
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو 
فکرِ عرب کو دے کر فرنگی تخیلات 
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
علامہ اقبال کے ان اشعار کا مطلب یہ ہے کہ دشمنانِ دین بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ عزّوجل اور رسول اللہ ﷺ کی ذات سے بے پناہ عشق ومحبت کا جذبہ اگر نکال دیاجائے ، تو پھر یہ دینی حمیت اور ملی غیرت سے عاری ہوجائیں گے اور ان کے گلے میں غلامی کا طوق ڈالنا آسان ہوجائے گا۔ ہوا یہ کہ دین کا لیبل لگا کر اس طرح کی تحریریں منصہ شہود پر آنے لگیں کہ جن سے ناموسِ اُلُوہیت جلّ وعلا ، ناموسِ رسالتﷺ اور ناموسِ کتاب اللہ پر زد پڑ رہی تھی ،چنانچہ امام رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے شمشیرِ براں بن کر میدانِ عمل میں آئے اور دلائل سے گرفت کی ، جس کے نتیجے میں یہ سلسلہ رک گیا۔ اسی طرح مسلمانوں کے دلوں سے جذبۂ جہاد کو مٹانے کے لئے قادیانیت کا بیج بویا گیا اور متنبی قادیان نے اعلان کیا کہ میں جہاد کو منسوخ کرنے کے لئے آیا ہوں، پہلے وہ عیسائی اور ہندو پنڈتوں کے خلاف مناظر کی صورت میں سامنے آیا تاکہ عام مسلمانوں کی توجہات کا مرکز بن جائے ، پھر اس نے مسیحِ موعود اور مہدیِ آخرالزمان ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر آگے چل کر نبوت کا دعویٰ کردیا اور ایک مرحلے پر اپنے آپ کو افضل الانبیاء بھی قرار دیا۔ اپنے لئے جگہ بنانے کی خاطر اس نے رفعِ عیسیٰ علیہ السلام اور حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام کے مسلّمہ اجماعی عقیدے کا انکار کیا اور ان کی وفات کا دعویٰ کردیا ۔ امام احمد رضاقادری رحمہ اللہ تعالیٰ کی تمام تحریروں اور فتاویٰ کا مرکز ومحور انہی فتنوں کی سرکوبی اور سدِّباب تھا۔امام احمد رضا قادریؒ نے قرآن مجید کا ترجمہ بنام ''کنزالایمان‘‘ تحریر کیا۔ اس ترجمۂ قرآن کی خصوصیات اور تقابلی جائزے پر دنیا بھر کی متعدد یونیورسٹیوںسے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں عطا کی گئی ہیںاور اس وقت بھی ان کی علمی وفقہی خدمات کے حوالے سے کئی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیقی کام جاری ہے۔ (جاری)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں