بظاہر دیکھا جائے تو پاکستان کا انتخابی نظام انڈیا کے مقابلے میں کافی شفاف ہے ، یعنی اس کا طریقۂ کار کھلی کتاب کی طرح ہے۔ پولنگ اسٹیشن پر پریذائیڈنگ افسر بیلٹ باکس کو تمام پولنگ ایجنٹوں کے سامنے کھول کر اندر سے خالی ڈبہ دکھاتا ہے اور پھر اسے سب کی موجودگی میں سیل کرکے اس پر اپنے دستخط ثبت کرتاہے اور اس سارے عمل کے شفاف ہونے کی پولنگ سٹیشن میں موجود تمام پولنگ ایجنٹوں سے تصدیقی دستخط لیتاہے۔ پھر پولنگ کا عمل شروع ہوتاہے، پولنگ افسر ووٹر کا شناختی کارڈ چیک کرکے اُس کانام پکارتا ہے اور وہ خود اور پولنگ اسٹیشن کے اندر موجود مختلف انتخابی امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ اپنے پاس ووٹر لسٹ پر Tickکا نشان( ) لگاتے ہیں ۔ اگر کوئی پولنگ ایجنٹ ووٹر کو چیلنج کرنا چاہے کہ یہ وہ شخص نہیں ہے ، جس کانام پکارا گیا ہے، یعنی یہ جعلی ووٹر ہے ، تو وہ اُسے مقررہ طریقۂ کار کے مطابق چیلنج کرسکتاہے، چیلنج کئے ہوئے ووٹ الگ لفافے میں سیل کئے جاتے ہیں ۔ یہ سارا عمل کھلی فضا میں پولنگ اسٹیشن پر موجود تمام پولنگ ایجنٹوں کے سامنے ہوتاہے ۔ صرف ووٹر ووٹ کی پرچی پر مہر پردے کے پیچھے لگاتاہے، مگرووٹ کی پرچی بیلٹ بکس میں سب کے سامنے ڈالتا ہے، کیونکہ از اول تا آخر وقت بیلٹ باکس پریذائیڈنگ افسر کے سامنے میز پر رکھا ہوتاہے۔
پولنگ کا مقررہ وقت ختم ہونے پر پریذائیڈنگ افسر تمام پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں بیلٹ بکس کھولتاہے اور گنتی شروع کردیتاہے، ووٹ کی مہر لگی ہوئی پرچی بھی سب کو دکھاتاہے۔ پولنگ ایجنٹ کا یہ حق ہے کہ وہ پریذائیڈنگ افسر سے نتائج کی مصدقہ کاپی لے ۔ لکھے ہوئے اور برتے جانے والے اس طریقۂ کار میں بظاہر کوئی خرابی نہیں ہے اور یہ شفاف عمل ہے۔
لیکن تقریباً ہر انتخاب کے بعد دھاندلی یاانتخاب چرائے جانے کا الزام لگایا جاتاہے ، جو بالعموم ہارنے والی جماعت یا جماعتیں لگاتی ہیں اور ریٹرننگ افسر مَوردِ الزام قرار پاتاہے۔ لیکن کیا اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہر پولنگ اسٹیشن کے پریذائیڈنگ افسر سے حاصل کی ہوئی نتائج کی مُصدَّقہ نقول حاصل کرکے اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ مگر یہ صرف اُس صورت میں ہوسکتا ہے کہ ہر امیدوار کے پاس پولنگ ایجنٹوں کی دو مکمل ٹیمیں ہوں ، ضرورت کے موقع پر ایک ٹیم یا ایک ایجنٹ دوسرے کو نماز پڑھنے ، طبعی حاجات یا کھانے وغیرہ کے لئے فارغ (Relieve)کرسکے۔پھر یہ پولنگ ایجنٹ وہ ہوں جو مقامی ووٹر کو جانتے ہوں ، یعنی اسی حلقے سے تعلق رکھتے ہوں اور اسی طرح خواتین پولنگ اسٹیشن پر خواتین پولنگ ایجنٹ بھی مقامی حلقے کی رہائشی ہوں ، جومقامی باشندوں کو جانتی ہوں۔ مزید یہ کہ اُن میں اتنی جرأت وہمت ہو کہ غلَط کو غلَط کہہ سکیں اور چیلنج کرسکیں ، غالباً چیلنج ووٹ کی کچھ معمولی فیس بھی ہوتی ہے۔
اب ہوتا یہ ہے کہ انتخابی امیدواروںاور جماعتوں کے پاس اتنی بڑی تعداد میں تربیت یافتہ پولنگ ایجنٹ نہیں ہوتے، حالانکہ پولنگ اسٹیشن پر ہونے والی دھاندلی پر نظر رکھنے اور اسے چیلنج کرنے کا وہی مؤثر ابتدائی مرحلہ ہوتاہے۔ بہت سے امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ بعض مقامات پر ہوتے ہی نہیں ہیں اور اگر ہوتے ہیں تو مقامی رہائشی لوگ نہیں ہوتے ، اس صورت میں وہ صرف تماش بین یا مُبَصِّر(Observer) کا کردار ہی ادا کرسکتے ہیں۔ پس اصل کمزوری بنیادی اکائی میں ہوتی ہے، پھر ناتجربہ کاری کا عنصر سب سے اہم ہوتاہے، پولنگ ایجنٹ کو اِس سے غرض نہیں ہونی چاہئے کہ اُس اسٹیشن سے باہر اس کا امیدوار جیت رہا ہے یا ہار رہاہے۔ بہت سے ناتجربہ کار پولنگ ایجنٹ جیت یا ہار کا سن کر جشن یا سوگ منانے چل پڑتے ہیں اور اپنا مورچہ خالی چھوڑ دیتے ہیں ۔ ان کی تربیت یہ ہونی چاہئے کہ ان کا ہار جیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، انہیں تو صرف اپنے اسٹیشن کی چوکس ہو کر نگرانی کرنا ہے اور پریذائیڈنگ آفیسر سے مُصدَّقہ نتیجہ لے کر جانا ہے اور نتیجے پر اپنے دستخط بھی ثبت کرنے ہیں کہ پوری گنتی کاکام میرے سامنے شفاف طریقے سے انجام کو پہنچا اور یہی چیز پریذائیڈنگ افسر کے بھی مفاد میں ہے ۔ بعض اوقات سیاسی جماعتیں کھیل ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر پولنگ کے دوران ہی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردیتی ہیں ، اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ ان کے فریقِ مخالف ہی کو فائدہ پہنچتاہے کہ پورا پولنگ اسٹیشن یک طرفہ طور پر اُن کے کنٹرول میں چلاجاتاہے ، جعلی ووٹر کو چیک کرنے والا اور چیلنج کرنے والا کوئی نہیں رہتا، تو فریقِ مخالف کی وہ جیت جو چندسو یا چند ہزار کی برتری سے ہوتی ، لاکھوں کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے ۔ سسٹم میں موجود رہتے ہوئے وہ بہت سی بے قاعدگیوں کو چیلنج کرسکتے ہیں ، ریکارڈ پر لاسکتے ہیں ، ایسے میں الیکشن کمیشن بھی ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔
اس کے برعکس انڈیا جو آبادی کے لحاظ سے ہم سے پانچ گنا بڑا ملک ہے ، وہاں قومی الیکشن تین مراحل میں ہوتے ہیں ،پہلے اور دوسرے مرحلے میں پولنگ ختم ہونے پر مہر بند بیلٹ باکس الیکشن کمیشن یا ریٹرننگ افسر کی تحویل میں چلے جاتے ہیں ، وہی ان کی نقل وحمل کا انتظام کرتے ہیں، گنتی بروقت اس لئے نہیں ہوتی کہ نتائج اگلے مرحلے پر اثر انداز نہ ہوں اور کسی سیاسی پارٹی کو نقصان نہ پہنچے۔ تیسرے مرحلے کی تکمیل پر گنتی شروع ہوتی ہے اور نتائج کا اعلان شروع ہوتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں ایسا ہوتو شور مچ جائے کہ بیلٹ بکس چرا لئے گئے ، بدل دئیے گئے ، جعلی ووٹوں سے بھرے ہوئے اضافی بیلٹ بکس ملا دئیے گئے ، وغیرہ۔ لیکن وہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا، پس معلوم ہوا کہ اصل چیز نظام کا اعتبار اور ساکھ ہوتی ہے اور یہی چیز ہمارے ہاںمفقود ہے۔ منصفانہ انتخابات کے لئے ریڑھ کی ہڈی سیاسی جماعتوں کا منظم ہونا ہے اور نچلی سطح تک ان کا تنظیمی نیٹ ورک ہے ، جو ہمارے ہاں بالکل نہیں ہے۔ انتخابات دو عناصر سے جیتے جاتے ہیں، ایک پارٹی کی عوامی مقبولیت اور دوسرا انتخابی نظام کے مکمل طریقۂ کارکو جاننا اور اس کے لئے پولنگ کے عملے اور سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کی تربیت ازحد ضروری ہے اور ہمارے ہاں یہ دوسرا عنصر مفقود ہے۔پھر ہمارے ہاں عدالتی فعّالیت کے گزشتہ دور میں یہ باور کر لیا کہ ہرقومی وملّی مرض کی دوا اور درد کادرماں اعلیٰ عدالتوں کے حاضر یاریٹائرڈ جج صاحبان ہیں ۔ پس سارا نگراں سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اِن معزّز جج صاحبان کے حوالے کردیا گیا، جو ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ صرف پنجاب کے نگران چیف منسٹر نجم سیٹھی عدلیہ سے باہر کے تھے اور وہیں تھوڑی بہت حرکت اور فعّالیت نظر آئی ، بیورو کریسی کے بڑے پیمانے پر تبادلے ہوئے ،وغیرہ ۔ باقی سب جگہ کے حصے میں لطائف اور شکایات ہی آئیں۔
پس معلوم ہوا کہ منصفانہ اور شفاف انتخابات ایک خالص انتظامی مسئلہ ہے اور اس کے لئے ایک پُراعتماد ،پُرعَزم ، توانا اور قابل منتظم کی ضرورت ہے ، جو بروقت متاثرہ مقام پر پہنچ سکے، بر وقت فیصلے کرکے احکامات دے سکے اور اُن پر عمل درآمد پر کڑی نظر رکھ سکے۔ اُس کی دیانت وامانت شک وشبہے سے بالاتر ہو اور اس کا اعتبار اور ساکھ بھی ہو۔ ہندوستان میں ایک جج نہیں بلکہ غیرجانبدار اور سخت گیر منتظم چیف الیکشن کمشنر نے وہاں کے قومی انتخابات کی ساکھ قائم کی اور وہ بجاطور پر اس پر فخر کرتے ہیں کہ انڈیا یا دنیا کی سب سے بڑی اور مثالی جمہوریت ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر کو وسیع انتظامی اور مالی اخراجات بھی درکار ہوتے ہیں اور اس کے پاس انتخابی نظام پر مامور عملے کے خلاف تعزیری اور تادیبی کارروائی کے اختیارات بھی ہونے چاہئیں ۔ گزشتہ انتخابات میں جسٹس(ر)فخرالدین جی ابراہیم کو سب سے معتبر اور غیرجانبدار گردان کر اتفاقِ رائے سے چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا اورابتدا میں اُن کی سابقہ شہرت کے حوالے سے اُن پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی اور نہ ہی کسی قسم کے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ مگرآج حال یہ ہے کہ وہ مستعفی ہونے کے بعد منظر سے غائب ہیں اور اپنی سابق نیک نامی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ (جاری)