ہم من حیث القوم بھی اخلاقی پستی کا شکار ہیں ۔ اسلام کا حکم یہ ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں حُسنِ ظن رکھیں تاوقتیکہ قرائن وشواہد سے اس کے برعکس ثابت نہ ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اے اہلِ ایمان بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ (کا سبب) ہوتے ہیں‘‘۔(الحجرات:12) اور رسول اللہﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :''بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے بڑاجھوٹ ہے۔‘‘(صحیح:5143)
سو بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر ایک دوسرے کی نظر میں ناقابلِ اعتماد اور بددیانت ہے اور اس عمومی بدگمانی کے عِلَل واسباب بھی ہمارے اندر موجود ہیں،لیکن ہمیں اس اخلاقی زوال سے نکلنے کی تدبیر بھی کرنی ہوگی اورکسی حدتک ایک دوسرے پر اعتماد بھی کرنا ہوگاہم''دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتاہے‘‘ کا مصداق بن چکے ہیں ۔
جناب عمران خان نے قومی انتخابات پرعدمِ اعتماد کا اظہار کیا ہے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ ہم نے جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھنے کی خاطر انتخابی نتائج قبول کرلیے ہیں،ان کی یہ بات قابلِ تحسین ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہم نے دھاندلی کو قبول نہیں کیا۔ بظاہر انتخابی نتائج قبول کرنے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اُس کو خوبیوں اورخامیوں سمیت قبول کرلیاہے۔نادراکی چیکنگ کا معاملہ بھی اب مشتبہ قرار پایا ہے تو پھرکیا یہ بہتر نہیں کہ ہم آگے کا سوچیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ پارلیمنٹ میں قابلِ ذکر جماعتوں کے پارلیمانی لیڈر سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس مسئلے کا حل نکالیں۔ اٹھارہویں ترمیم میں پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش نے الیکشن کمیشن کی تشکیل کا جو حل نکالا،وہ ناکام ثابت ہوااورڈیڈ لاک کا سبب بنا۔اس حوالے سے جو پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی، وہ بھی اتفاقِ رائے تک نہ پہنچ سکی۔یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ عام طور پر ایسا اتفاق رائے کسی کمزور شخصیت پر ہی ہوتاہے جو کسی کو ناراض کرنے کی متحمل نہ ہوسکے۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقررکے طریقۂ کار پر بھی پارلیمانی کمیٹی مطمئن نہیں ہے، اس لیے کہ آئین وقانون کی تعبیر وتشریح اوراس کی تطبیق کا منصب عدالتِ عظمیٰ کے پاس ہے، لہٰذا بالآخرعدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ ہی حرفِ آخر ثابت ہوا اور پارلیمانی کمیٹی یا پارلیمنٹ کے ارکان نے اسے اپنی بے توقیری پر محمول کیا یا دبے لفظوں میں پارلیمنٹ کا حق غصب کرنے کے مترادف قراردیااور یہ کہ پارلیمانی کمیٹی اورصدرکاکام محض ربر اسٹمپ رہ جاتاہے۔ سواس امرکا جائزہ لینا چاہئے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں کیا طریقۂ کار رائج ہے اور یہ کہ آیا ہم میں اتنی جمہوری بلوغت آگئی ہے کہ ہم اپنے ذاتی مفاد یا جماعتی مفاد کے حصار سے نکل کرملک وملّت کے دیر پا مفاد کو ترجیح دے سکتے ہیں ۔ ایک دوسرے پرتنقیدتوآسان ہے،مگر تنقیح کے بعد مسئلے کا حل نکالنا دشوار ہے اور کسی بھی قوم یا ملک کی قیادت کااصل امتحان اسی میں ہوتاہے۔
عمران خان نے بلدیاتی یعنی مقامی انتخابات میں صوبہ خیبر پختون خوا میں بایو میٹرک سسٹم آزمانے کا اعلان کیا ہے،اگر یہ تجربہ کامیاب ہوجاتاہے تو اسے پورے ملک میں روبہ عمل لایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتاہے کہ دور دراز کے وہ مقامات جہاں بجلی نہیں ہے یا لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اچانک بجلی چلی جاتی ہے،وہاں یہ سسٹم کام کرے گا؟ اس کے لیے ضروری تکنیک، مشینری کی فراہمی اور انتخابی عملے کی تربیت کا انتظام صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہوگی یا الیکشن کمیشن کی؟اُس مشین میں متعلقہ حلقے کے ووٹروں کا ڈیٹا کون فیڈ کرے گا؟آیا الیکشن کمیشن یا نادرا کے پاس اتنے مختصر وقت میں یہ مہارت دستیاب ہے؟ ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ جنوری کی مجوزہ تاریخ پر انتخابات کے انعقاد کے لیے مطلوبہ تعداد میں بیلٹ پیپر زکی طباعت ناممکن ہے اور ترسیل کا مرحلہ تو بعد میں آئے گا۔
ایک اہم مسئلہ ہمارے ہاں آئے روز کے احتجاج اوردھرنوں کی سیاست ہے جس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں اور لوگوں کے روز مرہ کے معمولات میں خلل واقع ہوتاہے، تعلیمی اور کاروباری ادارے بند ہوجاتے ہیں ۔ بعض جماعتوں کے پاس انتخابی طاقت تو نہیں ہوتی لیکن احتجاجی سیاست کی استعداد زیادہ ہوتی ہے، اُن کے کارکن متحر ک اور نظریاتی ہیں اور مختصر نوٹس پر بھی جمع ہوجاتے ہیں۔ آج کل ہمارے الیکٹرانک میڈیا کو ہر وقت ہلا گلا چاہیے،اس پر بحث شروع ہوجاتی ہے کہ تعداد کتنی تھی،دعوے،چیلنج اورتردیدکا ایک سلسلہ شروع ہوجاتاہے،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ ملک بھر سے یادوردراز علاقوں سے وسائل کے بل پربڑا جلسہ تو کرسکتے ہیں یا ایک بڑی ریلی تو نکال سکتے ہیں،خواہ تعداد ہزاروں میں ہو یالاکھوں میں، لیکن اس کے بل پر آپ الیکشن نہیں جیت سکتے۔ ہمارے ہاں پارلیمانی نظام ہے، انتخابات نچلی سطح سے لے کر صوبائی اور قومی اسمبلیوں تک حلقہ جاتی بنیاد پر ہوتے ہیں،لہٰذا الیکشن جیتنے کے لیے آپ کے پاس متعلقہ حلقۂ انتخاب میں الیکشن کے دن کل ڈالے گئے ووٹوں کی اکثریت چاہیے، ورنہ اکیلے جماعۃ الدعوہ کے حافظ سعید بھی ایک بڑی ریلی نکال سکتے ہیں۔ سندھ میں الیکشن سے پہلے قوم پرستوںاوربعض دیگرجماعتوں کے اتحاد کی بڑی بڑی ریلیاں نکلیں اور بعض مقامات پر جلسے بھی ہوئے مگر انتخابات میں وہ ناکام رہے۔
اب آتے ہیں انتخابی دھاندلی کی طرف جس کا الزام ہمارے ہاں تقریباً ہر انتخاب پر لگتا رہا ہے۔ ایک اصطلاح قبل ازانتخابات دھاندلی کی استعمال ہوتی ہے۔ اس کی مثال 2002ء کے انتخابات ہیں۔ جنرل احتشام ضمیر ProbablesاورElectablesکو ہنکا کر قائد لیگ کے کیمپ میں لے آئے اور اس کے لیے ترغیب وترہیب (Carrot & Stick)کا اصول اپنایا،جس پرجو حربہ کام کرجائے۔پیپلز پارٹی کے20 کے قریب جیتے ہوئے ارکان کو بھی توڑا گیامگر میرظفراﷲجمالی کو صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم منتخب کرایا جاسکا۔ایک مثال جنرل حمید گل کے ذریعے پیپلزپارٹی کے خلاف مختلف سیاسی جماعتوں کو یک جا کرکے اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جے آئی)کا قیام تھا۔ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ ممکنہ قابلِ انتخاب لوگوں کو ہمارے حساس ادارے غیبی اشارے سے کسی خاص جماعت کے کیمپ میں دھکیل دیتے ہیں۔ جمہوری دور میں کسی منظم اورادارہ جاتی دھاندلی کے امکانات تو بظاہر کم ہیں، خدشات وشبہات کی بات الگ ہے، لیکن مقامی سطح پر دھاندلی کے امکانات کو کلی طور پر خارج ازامکان قرارنہیں دیا جاسکتا۔بعض اوقات کسی خاص علاقے میں کسی امیدوار یا جماعت کا اثر زیادہ ہوتاہے یا اس کی دہشت ہوتی ہے اور انتخابی عملہ مقامی سرکاری ملازمین پر مشتمل ہوتاہے اور وہ کسی فرد یا گروہ کے جبرکی مزاحمت نہیں کرسکتے اورکوئی خاص علاقہ یا پولنگ اسٹیشن ایک طرح سے ہائی جیک ہوجاتاہے، اس کے لیے مجموعی طور پر پورے نظام کاموثر ہونااورقانون کی حکمرانی ضروری ہے۔ اسی طرح مقامی عملے کا تحفظ بھی ضروری ہے لیکن برسرِزمین ایسی صورتِ حال موجود نہیں ہے۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ گواہ سامنے آکے جابر یا دہشت گرد کے خلاف گواہی نہیں دے سکتا،جج فیصلہ نہیں کرسکتا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عُمّال بھی سہمے رہتے ہیں۔اسی بنا پر تحفظ پاکستان آرڈی ننس جاری کیا گیاہے، مگر پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اُس کا قانون بن جانا دشوار ہے۔
ہمارے ان مسائل کا حل یہ ہے کہ ایسے سابق تجربہ کاربیوروکریٹس ، آئینی وقانونی ماہرین اور اہلِ فکر ونظر پر مشتمل ایک غیرسرکاری فورم یا مجلس مفکرین (Think Tank) قائم ہو جو ہمارے ان الجھے ہوئے مسائل کو سلجھانے کے لیے ٹھوس اور قابلِ عمل تجاویز دے اور پارلیمنٹ اور قانون ساز اداروں کی رہنمائی کرے اور پارلیمنٹ بھی ان تجاویزکو سنجیدگی سے لے، کیونکہ منتخب اراکین کے پاس عوام کی طرف سے نمائندگی کاحق تو ہوتا ہے لیکن چند مستثنیات کو چھوڑ کر یہ حقِ نمائندگی کسی دانش یا قابلیت کی بنیاد پر تفویض نہیں ہوتا، اس کے اسباب اور ہوتے ہیں جن کا آئے دن میڈیا میں تذکرہ ہوتا رہتاہے۔ شایداس طرح ہم من حیث القوم ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی اور اپنے نظام پر بے اعتمادی کی فضا سے نکل سکیں، اللہ کرے ایسا ہوجائے۔