ماضی کی روایات کے مطابق اس سال بھی بارہ ربیع الاول (میلادالنبیﷺکے دن)کوایوانِ صدراسلام آباد میںصدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین کی صدارت میں قومی سیرت کانفرنس منعقد ہوئی۔کانفرنس کا موضوع تھا :''حکومتی مناصب اور ذرائع کا صحیح استعمال‘‘۔ یہ موضوع بلاشبہ حسبِ حال تھا اور ہماری قومی ضرورت بھی، بشرطیکہ ہم سیرت النبیﷺسے زبانی دعووں سے ایک قدم آگے بڑھ کر رہنمائی بھی حاصل کرنے پر آمادہ ہوں ۔ مجھے بھی اس مبارک مجلس میں حاضری اور اظہارِ خیال کا موقع ملا۔
ریاستی اور حکومتی مناصب امانت ہوتے ہیں اور اس کے بارے میں اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:''بے شک اﷲتم کو یہ حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے (صحیح) حق داروں کے سپرد کرواور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کروبے شک اﷲتمہیں کیسی عمدہ نصیحت فرماتاہے(النساء:58)‘‘۔امانت ایک وسیع المعنی کلمہ ہے اور یہ فرد سے لے کر ریاست تک ہر شعبے پر محیط ہے۔ رسول اللہﷺکے ارشاداتِ مبارَکہ ہیں: (1)''جو امانت دار نہیں ، وہ صاحبِ ایمان نہیںاور جسے اپنے عہد کا پاس نہیں اس کا کوئی دین نہیں(مسند احمد: 12383)‘‘۔ (2)منافق کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا:''جب اسے امین بنایا جائے تو خیانت کرتا ہے(بخاری:33)‘‘۔ (3)''جس سے مشورہ مانگا جائے ، وہ امین ہوتاہے(یعنی مشورہ دیتے ہوئے دھوکا نہیں دینا چاہئے) (ترمذی:2822)‘‘۔ (4)مجلس میں کہی ہوئی بات امانت ہوتی ہے(یعنی مجلس میں کسی سے بات سنی ہو تو اس کی اجازت کے بغیر اسے اِفشاکرنا خیانت ہے)، (ابوداؤد :4836)‘‘۔ (5) ''خیانت اورامانت ایک جگہ جمع نہیں ہوتے(یعنی دونوں ایک دوسرے کی ضدہیں(مسند احمد:8593)‘‘۔
لیکن سب سے اہم امانت ریاستی اور حکومتی منصب ہے اور اسے نااہلوں کے سپرد نہیں کرنا چاہئے۔نبیِ کریمﷺسے سوال ہوا: قیامت کب آئے گی، آپﷺنے فرمایا:''جب امانت ضائع کردی جائے گی‘‘ ، سائل نے دریافت کیا :''امانت کیسے ضائع ہوجاتی ہے؟‘‘،آپ ﷺنے فرمایا:''جب قوم کی زمامِ اقتدار نااہلوں کے سپرد کردی جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرو،(بخاری:59)‘‘۔اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ قومی معاملات کی باگ ڈور یعنی ریاستی اورحکومتی مناصب امانت ہیں اور لازم ہے کہ یہ امانت ان کے سپرد کی جائے جو اس امانت کی حفاظت کے اہل ہیں،ورنہ قیامت صغریٰ کا منظر برپا ہوگا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے شاہِ مصر سے کہا تھا: ''مجھے اس ملک کے خزانوں پر حاکم بنادیں بے شک میں حفاظت کرنے والا، علم والا ہوں،(یوسف:55)‘‘ یعنی میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کس سے لیا جائے اور کس کو دیا جائے اورقومی خزانوں کی حفاظت کرنا بھی جانتاہوں۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں نے اپنے باپ سے موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہا:''بے شک وہ بہترین شخص جسے کسی کام پر مقرر کیاجائے،وہ طاقت وراور امانت دار ہوناچاہئے(القصص:26)‘‘۔ پس قومی اور ملی منصب جسے تفویض کیاجائے اسے ان چار خوبیوں کا حامل ہوناچاہئے۔۔۔وہ حفیظ ، علیم، قوی اور امین ہو۔ علامہ اقبال نے کہا ؎
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
معلوم ہوا کہ نظامِ ریاست وحکومت کی استواری میں بنیادی اینٹ یہ ہے کہ مناصب ان کو سپرد کیے جائیں جو ان سے عہدہ برأـ ہونے کے اہل ہوں ، امانت دار ہوں ، خائن نہ ہوں اور صاحبِ جرأت واستقامت ہوں، اگر خشتِ اول ہی غلط رکھ دی جائے تو نظامِ ریاست وحکومت کی عمارت کتنی ہی بلند وبالا کیوں نہ ہوجائے ، اس میں ہمیشہ کجی ہی رہے گی اور کسی بھی وقت دھڑام سے گر جائے گی ؎
خشتِ اوّل چوں نہدمعمار کج
تا ثریامی رود دیوار کج
اس کے بعد ریاستی اور حکومتی اختیارات اور وسائل کے استعمال کا مرحلہ آتا ہے ۔ اس کے بارے میں شِعار رسولؐ یہ ہے: ابوحمید ساعدی بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اِبْنُ الْاُتَبِیَّہ (ایک روایت میںاِبْنُ اللُّتْبِیَّہ ہے)کو بنو سُلیم کے صدقات کی وصول یابی پر مقرر فرمایا۔ جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور حساب پیش کیا اور کہا :''یہ صدقات کا مال ہے اور یہ مال مجھے ہدیہ کیا گیا ہے‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ''اگر تم سچے ہوتو تم اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھے رہے کہ تمہارے پاس یہ تحائف آتے‘‘۔ پھر رسول اللہﷺکھڑے ہوئے ، آپ نے خطبہ ارشاد فرمایااور حمد وصلوٰۃ کے بعد کہا:''میں تم میں سے کسی شخص کو کسی کام پر مقرر کرتاہوں، تو وہ آکر مجھ سے کہتاہے :''یہ آپ کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے، تو وہ اگر سچا ہے تو کیوں نہ اپنے ماں باپ کے گھر میں بیٹھا رہا کہ اس کے پاس یہ تحائف آتے، اﷲ کی قسم تم میں سے کوئی اس مال میں سے ناحق کوئی چیز نہیں لے گا، ورنہ وہ (قیامت کے دن)اس مال کو اٹھائے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حاضر ہوگا، مجھے نہیں معلوم کہ کوئی شخص اﷲ کے پاس اونٹ کو لے کر آئے گا جو بلبلا رہا ہوگا یا گائے لے کر آئے گا جو ڈکرا رہی ہوگی یا بکری لے کر آئے گاجو منمنا رہی ہوگی، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند فرمائے یہاں تک کہ آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی نظر آئی اور آپ نے فرمایا: کیا میں نے اللہ کا پیغام( ٹھیک ٹھیک) پہنچا نہیں دیا؟ (بخاری:7197)‘‘۔ایک اور حدیث میں نبیِ کریم ﷺ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے ، آپؐ نے مالی امور میں خیانت کا ذکر کیا اور اسے بڑا جرم قرار دیتے ہوئے فرمایا:''میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی گردن پر (خیانت سے حاصل کی ہوئی)بکری اٹھائے ہوئے ہواور وہ منمنا رہی ہویا گھوڑا ہو جو ہنہنا رہا ہو یا (خیانت سے حاصل کیا ہوا) سونا ، چاندی یا کپڑوں کا گٹھا ہو اور وہ مجھ سے کہے :یا رسول اﷲ! میری مدد کیجئے اور مجھے یہ کہنا پڑے کہ میں تمہارے کام نہیں آسکتا (بخاری:3073) ‘‘۔ایک اور حدیث میں نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: ''اے لوگو! تم میں سے جس کو ہم کسی (مالیاتی)ذمے داری پر مامورکریںاوروہ (صدقات کے مال میں سے) ایک سوئی یا اس سے بھی کم تر چیز ہم سے چھپائے گا، تو یہ خیانت ہے اور اسے لے کراسے قیامت کے دن آناہوگا، (المصنَّف لابن ابی شیبہ:34220)‘‘۔ حضرت عمر فاروقؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جو خیانت کرے ، اس کے سازوسامان کو جلادو (المصنَّف:34228)‘‘۔
آج کل ہمارے ہاں ایسے ایسے ماہر وکلاہیں جو سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کرسکتے ہیں۔رسول اﷲﷺکا فرمان ہے :''تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہواور ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے حریف کے مقابل اپنے موقف کو زیادہ مؤثر دلائل سے پیش کرے اور (بفرض محال) میں مقدمے میں پیش کردہ شواہد کی روشنی میں اس کے حق میں فیصلہ دے دوں، سو جس شخص کو میں اس کے بھائی (فریقِ مخالف )کے حق میں سے کوئی ایسی چیز دے دوں (جس کا وہ حق دار نہیں ہے) تو وہ اسے نہ لے،اس لیے (اسے جان لیناچاہئے ) کہ میں اسے آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں،(مسلم:4470)‘‘۔رسول اللہﷺکو تواﷲتعالیٰ حقائقِ اشیاء پر مطلع فرمادیتا تھا، لیکن ہر حاکم یا قاضی کا یہ مقام نہیں ہے ، اس لیے اگر کسی عدالت سے کسی کے حق میں کوئی فیصلہ آجائے اور اس کے نتیجے میں اسے ایسی چیز مل جائے جس کا درحقیقت وہ حق دار نہیں ہے توحاکم کا فیصلہ ظاہر اً اور قانوناً تو نافذ ہوجاتاہے، لیکن وہ حقیقت کو تبدیل نہیں کرتااور اللہ تعالیٰ کے ہاں آخرت میں حقائق پر فیصلہ ہوگا۔
اس حدیثِ مبارَک کا منشا یہ ہے کہ لوگ اس دنیا کی حکومت اور نظامِ عدل کو حرفِ آخر نہ سمجھیں بلکہ ان کا ایمان اور یقین ہوناچاہئے کہ ایک عدالت قیامت کے دن بھی سجے گی، وہ اللہ تعالیٰ کی عدالت ہوگی،وہاں کوئی چرب زبانی، باطل دلائل اور شواہد کی فراوانی ، کوئی حیلہ اور مکر وتدبیر اللہ تعالیٰ کے حقیقی احتساب اور حتمی اور قطعی عدل اور تعزیر وتعذیب سے بچا نہیں سکے گا، کاش کہ ہمیں یہ قطعی حقیقت اس دنیا میں سمجھ میں آجائے اور ہمیں آخرت کے عذاب سے نجات مل جائے۔