"MMC" (space) message & send to 7575

میڈیا سے چند گزارشات

الحمدﷲہمارا میڈیا آزاد ہے اور دعا ہے کہ آزاد رہے ، لیکن بہت زیادہ آزاد ہے، البتہ جہاں آزاد میڈیا کے بھی پَر جلتے ہیں ، وہ نازک اور حساس مقامات انہیں بھی معلوم ہیں اور ہمیں بھی؛تاہم ہر آزاد ی کی بھی حدود ہوتی ہیں اور سب سے بہتر شِعار یہ ہے کہ ذمّے دار لوگ اپنی حدود کا خود تعین کریں، لہٰذاکوئی ضابطۂ اخلاق ہوناچاہئے۔آزاد الیکٹرانک میڈیا کی رونقیں اگرچہ ان کے پروگراموں کے میزبان حضرات ، ڈائریکٹر، پروڈیوسر، ہیڈآفس اور میدانِ عمل میں موجود ان کے کارکنان کی محنتوں کا ثمر ہوتی ہیں ، لیکن بہرحال اس کی باگ ڈور بھی کسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ان کی اولین ترجیح کاروباری مسابقت ہے، کہ یہ ایک پھیلتا ہوا کاروبار ہے۔ میڈیا کے پاس ایک طرح کی Nuisance Valueیعنی صلاحیتِ انتشار یا پریشانی میں مبتلاکرنے یا سکون سَلب کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔اس لئے کوئی طبقہ خواہ وہ حاکمِ وقت ہی کیوں نہ ہو ، میڈیا سے چھیڑچھاڑ نہیں کرتا اور نہ ہی میڈیا سے جھگڑا مول لیتا ہے، سوائے اس کے کہ اس کے لئے گریز کا کوئی راستہ نہ رہے۔ اس طرح کی بے قابو آزادی ایک افتخار بھی ہے اور امتحان بھی۔ امتحان صرف اس صورت میں ہے کہ کوئی طبقہ یا فرد اپنے آپ کو قوم وملک اور دین وملت کے حوالے سے بعض اصولوں، نظریات اوراقدارکا پابند سمجھے ، یہ پابندی ایک طرح سے خود عائد کردہ (Self Imposed)ہوتی ہے اور اس کی پابندی کرتے ہوئے انسان ایک روحانی راحت ومسرت بھی محسوس کرتاہے کہ وہ اپنی دینی ، ملّی، قومی اور ملکی ذمّے داریوں سے عہدہ برآ ہوا۔ ہر قوم کی طرح ہماری کچھ تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی اقدار بھی ہیں، لہٰذا ان کی پاس داری بھی لازم ہے۔ 
بلاشبہ یہ کھلے پن کا دور ہے اور حقائق کو چھپانا کسی کے لئے عملاً ممکن نہیں رہا۔ لیکن ہمارے میڈیا کو باہم مل کر ایک تہذیبی اور اَخلاقی معیار ضرور وضع کرنا چاہئے اور اسے ملحوظ بھی رکھنا چاہئے ۔ ہماری نوجوان نسل کو ہیڈلائن یا ترجیحی خبر کے طور پر کیا یہ بتانا ضروری ہے کہ انڈیا کی فلاں فلم کا ٹائٹل گیت ہٹ ہوگیا ہے، انڈین اداکاروں کی برسی اور سالگرہ، وزن کی کمی اور بیشی اور مقبولیت کے گراف کے بارے میں لمحہ بہ لمحہ خبریں دینا کیا ضروری ہے؟۔ اسی طرح بے حیائی کے ایسے مناظر دکھانا، جن میں اَخلاقیات کی ساری حدیں پامال ہوجائیں، کیا ضروری ہے؟۔اﷲتعالیٰ ارشاد فرماتاہے: (1) ''بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی کی بات پھیلے، ان کے لئے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے اور (تمہارے افعال کاانجام) اﷲجانتا ہے اور تم نہیں جانتے،(النور:19)‘‘۔ (2)''اور جب وہ کوئی بے حیائی کاکام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے ان کاموں پر اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ہمیں اﷲنے ان کاموں کا حکم دیا ہے ، آپ کے لئے بے شک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا ، کیا تم اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہو، جن کا تمہیں علم نہیں ہے، (الاعراف:28)‘‘۔
رسول اللہﷺکا ارشاد ہے:(1)'' حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے،(بخاری:09)‘‘۔(2)''جب تم میں حیا نہ رہے ، تو پھر جوچاہو کرتے پھرو(کیونکہ حیا ہی نفسِ انسانی کا ایسا وصف ہے، جو اخلاقیات کی حدوں کو پامال کرنے سے روکتا ہے)، (بخاری:6120)‘‘۔(3)حیا اور کم گوئی ایمان کی دو شاخیں ہیں، فحش کلامی اور کثرتِ کلام نفاق کی دو شاخیں ہیں، (ترمذی:2027)‘‘۔(4)''نبی کریمﷺگالی دینے والے ، فحش کلامی کرنے والے ، لعنت کرنے والے اور فحاشی کرنے والے کو پسند نہیںفرماتے تھے،(سنن دارمی)‘‘۔
اسی طرح موت کے مناظر کو کس حدتک دکھانا چاہئے اور اگر میت کی ہیئت بم دھماکے یا آگ میں جَل جانے کی وجہ سے مسخ ہوگئی ہے، تو شریعت کا حکم میت کے عیوب پر پردہ ڈالنا ہے ، اسی طرح اگرڈاکٹر نے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں لکھ دیا ہے کہ سر ، سینے اور جسم کی ساری ہڈـیاں ٹوٹ گئی ہیں اور محض کسی ایک جزوِ بدن سے اسے پہچانا گیا ۔ کیا یہ تمام تفصیلات بتانا ضروری ہیں اور کیا اس سے میت کے لواحقین اور متعلقین کے ذہنوں میں یہ خدشات پیدا نہیں ہوں گے کہ تابوت میں کیا ہے، ہم نے کس کا جنازہ پڑھا اور کس کی تدفین کی ؟۔لہٰذا دوسروں کے انسانی جذبات کا خیال رکھناچاہئے۔ ایک مخبوط الحواس شخص سکندرحیات کے ڈراموں کو مسابقت کی فضا میں گھنٹوں دکھا یا گیا کہ کوئی بھی پہلو ناظرین کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہو، کیا بیس کروڑ پاکستانی اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کی نبض کو اتنے عرصے تک ساکت وجامد رکھنا ضروری تھا؟۔ 
امریکہ اور مغربی ممالک جہاں سے ہم نے میڈیا اور صحافت کی آزادی کی روایات لیں ، وہاں بھی اِکَّا دُکَُا دہشت گردی کے واقعات ہوجاتے ہیں، لیکن گھنٹوں اور دنوں تک سانسیں روک کر اس طرح کی کوریج نہیں کی جاتی ، انہیں اپنی قومی ترجیحات بھی معلوم ہیں اور آزادی کی حدود بھی ، لیکن شاید ہمیں اس فکری پختگی تک پہنچنے میں یقینا کچھ وقت لگے گا۔ 
طنز ومزاح ہمارے بلکہ دنیاکی ہر ادب کی ایک مقبول صِنف ہے اور اب الیکٹرانک میڈیا اسے بہت مہارت کے ساتھ استعمال کررہا ہے، شخصیات کے تھری ڈی کارٹون بھی عجلت میں بن جاتے ہیں۔لیکن کیا یہ مناسب نہیں کہ تحقیر، تذلیل ، اہانت اور طنز ومزاح میں فرق ملحوظ رکھا جائے ۔ رسول اﷲﷺنے بھی چند مواقع پر مزاح فرمایا، لیکن نہایت لطیف اور حسین پیرایۂ اظہار میں، مثلاً :(1)'' ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے سواری کے لئے جانور عطا فرمادیجئے ، آپ ﷺنے فرمایا:''میں تجھے اونٹنی کے بچے پر سوار کرتا ہوں‘‘ ، سائل نے عرض کیا: یارسول اﷲ! میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟، آپﷺنے فرمایا:'' ہراونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی تو ہوتاہے‘‘،(شمائل ترمذی:246)‘‘۔(2)''ایک بوڑھی خاتون نبیِ کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا یارسول اللہ!اﷲتعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے جنت میں داخل فرمادے،آپﷺ نے(اس خاتون کا نام لے کر) فرمایا:اے امِ فلاں! جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہیں ہوگی، راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ سن کر وہ خاتون روتے ہوئے لوٹنے لگیں، تو آپﷺنے فرمایا: اِسے بتاؤ کہ بڑھاپے کی حالت میں وہ جنت میں داخل نہیں ہوگی(بلکہ اﷲتعالیٰ اہلِ جنت کو دوبارہ جوان بنا دے گا)،اﷲتعالیٰ فرماتا ہے:''ہم نے ان عورتوں کو اِس طرح بنایا ہے کہ وہ ہمیشہ کنواریاں ہی رہتی ہیں، (الواقعہ:35تا37)،(شمائل ترمذی:246)‘‘۔
قرآن مجیدمیں مختلف مقامات پر اﷲعزّوجلّ نے، مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کا حقارت آمیز انداز میں تمسخر اڑانے، ایک دوسرے کی عیب جوئی کرنے ، ایک دوسرے کو توہین آمیز ناموں سے پکارنے، ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کرنے، دوسروں کے پوشیدہ احوال کا سراغ لگانے اور غیبت کرنے سے منع فرمایااور غیبت کے گھناؤنے پن کو ایک عبرت ناک مثال کے ذریعے بیان فرمایا، اسی طرح دوسروں کی (صورت وسیرت کے بارے میں الفاظ ،اشارات وکنایات ، تحریر کے ذریعے) عیب جوئی کرنے اور طعن وتشنیع کرنے والوں کی سخت وعید فرمائی ۔ 
لہٰذا میڈیا سے عاجزانہ گزارش ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر باہمی اتفاقِ رائے سے کوئی نہ کوئی حدود مقرر کرے،جو قانونی بندھن کے ذریعے نافذ نہ ہوں بلکہ اخلاقی بندھن کے ذریعے نافذ ہوں،یعنی ہر سربراہ اپنے آپ کو قانون کے سامنے جوابدہ سمجھنے کے بجائے اپنے ضمیر اور اﷲتعالیٰ کی عدالت میں جوابدہ سمجھے ، کیونکہ ہم آئے دن کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ چھوٹے اور بڑے کے لئے ، غریب اور امیر کے لئے باوسائل اور بے وسیلہ کے لئے قانون کی تنفیذ کے معیارات بدل جاتے ہیں، قانون کو فریب دیا جاسکتا ہے، قانون کو خریدا جاسکتا ہے، دولت ، جبر، رسوخ ، دہشت اور اقتدار کی طاقت سے قانون کو بے بس بنایا جاسکتا ہے ، مگر اﷲتعالیٰ کی ذات قادرِ مطلق ہے ، اس پر کسی کا زور اور فریب نہیں چلتا ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں