امریکہ میں ہزاروں سال سے جو قوم امن سے رہ رہی تھی‘ اسے نیٹیوامریکن( Native American)یا اصل امریکی کہا جاتا ہے۔ کرسٹوفر کولمبس نے جب امریکہ دریافت کیا تو انہیں انڈین کانام دیا جو بعد میں ریڈ انڈین بن گیا کیونکہ جب یہ لوگ لڑتے تھے تو چہروں پر سرخ رنگ لگا لیتے تھے۔ جب اہلِ یورپ نے امریکہ کا رخ کیا اور طاقت ورپوزیشن میں آگئے تو انہوں نے ان نیٹیوامریکن کا قتل عام شروع کیا جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ لوگ بنیادی طور پر فطرت پرست اور اَرواح پرست تھے اورکسی نہ کسی انداز میں ایک برتر اور عظیم تر ہستی کے قائل تھے۔ قتل وغارت کے بعدجو لوگ بچ گئے، انہیں عیسائی مذہب اختیار کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ آج یہ اصل امریکن سمٹ کر چھوٹی چھوٹی بستیوںمیں رہ رہے ہیں ، امریکہ میں جن کی تعداد تقریباً310ہے جو کل امریکی رقبے کا تقریباً دو فیصد ہے۔
جب امریکہ میں زرعی ترقی کا دورشروع ہوا تو براعظم افریقہ سے افریقیوں کو بحری جہازوں میں بھرکر بطورِ غلام لایا گیا، اِن افریقی غلاموں کی اکثریت کا مذہب اسلام تھا مگراِن کو بھی زبردستی عیسائی بنا دیا گیا۔ سیاہ فام امریکیوں میں نسبتاً تیزی سے اسلام کے پھیلنے کا ایک فطری سبب شاید یہ بھی ہے۔ انسانوں کی غلامی کا یہ سلسلہ سترہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک چلتا رہا ۔ آخرکار 1860ء میں آزادی کی تحریک برپا ہوئی جس کے نتیجے میں سیاہ فام لوگوں کی غلامی کا دور اختتام کو پہنچا،لیکن اس سے پہلے بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری ہوئی ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 1864ء میں عہدِ غلامی کے اختتام سے پہلے امریکہ میں غلاموں کی تعداد تقریباً چالیس لاکھ تھی۔
امریکہ میں عورتیں بھی حقوق سے محروم تھیں۔ شادی کے بعد انہیں یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنی جائیداد پر حقِ ملکیت کا دعویٰ کریں، شادی ہوتے ہی تمام مالکانہ حقوق شوہرکو منتقل ہوجاتے، قانونی طورپرخاندانی امور میں بھی عورت کورائے دینے کا حق حاصل نہیں تھا۔امریکہ میں 1848ء میں''حقوقِ نسواں‘‘کی تحریک شروع ہوئی اور ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں آخرکار امریکی آئین کی انیسویں ترمیم کے نتیجے میں 1920ء میں خواتین کو ووٹ کا حق ملا، اس کے باوجود اب تک امریکہ میں کوئی خاتون صدر منتخب نہیں ہوسکی۔
یہ امریکہ کا وہ ''حسین اور روشن چہرہ‘‘ ہے جو آج عالم انسانیت کو حقوقِ انسانیت، حقوقِ نسواں، حقوقِ اطفال ،حقِ آزادیِ اظہار، آزادیِ مذہب، تحمل وبرداشت ، روشن خیالی اور جدیدیّت کا درس دے رہا ہے اور اِن اقدار کا پیام بر اور محافظ بنا ہوا ہے۔ اسی کیفیت کو ہٹلر نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا:''You too, Brutus‘‘ (بروٹس تم بھی؟)
لیکن آج کے امریکہ کے ایک اور رخ سے ہم کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ امریکی آبادی کی غالب ترین اکثریت تارکینِ وطن پرمشتمل ہے جو شرق وغرب، شمال وجنوب الغرض دنیا کے گوشے گوشے سے آکریہاں آباداور امریکی قومیت کی حامل ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق امریکی آبادی میں سفید فام تقریباً 72.4فیصد، افریقن امریکن 12.6فیصد، Native Americanیا Alaska Native 0.9فیصد، ایشین امریکن 4.8فیصد، ہسپانوی یا لاطینی امریکن 16 فیصد سے متجاوز ہیں، انہیں Spanishکہا جاتاہے اورغیر ہسپانوی یاغیر لاطینی امریکن تقریباً 83 فیصد سے متجاوزہیں۔
یہ پس منظر بتانے کا مقصد یہ ہے کہ امریکن قوم زبان، نسل اور رنگت کے اعتبار سے متفرق اجزاء کا مجموعہ ہے۔مذہبی تفاوت کا عالم یہ ہے کہ صرف پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے 313ذیلی مکاتبِ فکر ہیں ، لیکن اس کے باوجود امریکن ایک متحد ومنظم قوم ہیں، بے انتہا وسیع رقبے، قدرتی حسن وجمال اور قدرتی وسائل کے اعتبار سے امریکہ نہایت حسین اور پرکشش ملک ہے۔ آبادی تقریباً اکتیس کروڑ ہے لیکن نہ کہیں لسانی تصادم، نہ مذہبی محاذ آرائی ، نہ رنگت اور قومیت کی بنا پر تصادم ، نہ طبقاتی آویزش نظرآتی ہے ، بس پوری قوم ترقی کی شاہراہ پرسپرسانک رفتار سے دوڑ رہی ہے اور عالمی سیاست ومعیشت ، جدید سائنس وٹیکنالوجی ، علومِ جدیدہ میں ایجاد واختراع کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے۔ عالمی وسائل معیشت کا بہت بڑا حصہ امریکہ کے قبضے میں ہے، سمندروں اور فضاؤں پراُس کی حکمرانی ہے اور یہ سب سائنس اورسپرٹیکنالوجی کی بدولت ہے۔ ساری دنیا سے ذہانت وقابلیت کا بہاؤ (Brain Drain)اسی کی طرف ہے،جدید علوم کا جوہرقابل اور عالی دماغ لوگ جہاں کہیں بھی ہوں ‘امریکہ کی طرف کھچے چلے آتے ہیں ، امریکہ اُن کا خریدار ہے اوراُن کی ذہانت وقابلیت سے استفادے کا گر بھی اسے آتاہے۔ ہمارے ہاں اگراتفاق سے کوئی جوہرِ قابل پیدا بھی ہوجائے تو وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں قابلِ فروخت جنس بن جاتاہے، وہ اپنے وطن میں خودکوغیرمحفوظ، بے قدر اور بے مصرف سمجھتاہے، ہماری پوری قوم اور قیادت کو سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے اور یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟
میں امریکہ کے دو ہفتے کے سفر سے واپسی پر دورانِ پرواز یہ سطور قلمبند کررہا ہوں، میں چاہتا تو آپ کو امریکہ کے اخلاقی زوال کی طرف متوجہ کرتا، خاندانوں کے تِتّر بتر ہونے کے مناظر بیان کرتا، اُن کی لامذہبیت اور اخلاق باختگی کے قصے سناتا جس سے ہمیں ایک گونہ طمانیت نصیب ہوتی ہے، لیکن طفل تسلیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، آنکھوں میں محض خود فریبی اور خوش فہمی کے خواب سجانے سے قومیں سربلند وسرفراز نہیں ہوتیں، عمل کے میدان میں اپنا مقام بنانا پڑتاہے۔
مجھے یہاں کے اہلِ نظر نے بتایا کہ یہ لوگ تعلیم کے ابتدائی مراحل میں اپنے ملک وقوم پر تفاخر اور حُبُّ الوطنی کا جذبہ اپنی نوخیز نسل کے ذہنوں میں راسخ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کن خصوصیات کی بنا پر امریکہ دنیا پر حکمرانی کررہا ہے۔میںکبھی کبھی سی این این وغیرہ سنتا اور دیکھتا ہوں، امریکی دانشور کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آخرکوئی سبب توہے کہ ہرایک امریکہ آنے کے لیے بے قرار ہے ۔ ان کے بقول اس کا سبب عدل ومساوات پر مبنی نظام ہے۔
اس کے برعکس ہم تِتر بتّر ہیں ، انتشار درانتشار اور تفریق در تفریق کے مہلک مرض میں مبتلاہیں، باہم برسرپیکار ہیں‘ قتل وغارت کا کریڈٹ لیتے ہوئے ہمارا ضمیرہمیں ملامت نہیں کرتا بلکہ اس کو ہم اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔ دینِ اسلام ہی ہمیں مضبوطی سے جوڑ ے رکھنے کا واحد ذریعہ تھا، یہ ایک بائنڈنگ فورس تھی ، وہ بھی ہمیں جوڑ نہ سکی ۔ میں بار بار عرض کرتا ہوں کہ ہمیں اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے، اپنی کمزوریوں کا جائزہ لے کر اُن پر قابو پانے کی ضرورت ہے، کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم ایک لمحے کے لیے رکیں ، اپنی پستی اور زوال کے سفرکو بریک لگائیں اور یوٹرن لے کر ایک ملک اور ایک قوم بن کر دوبارہ عزت وسرفرازی کا سفر شروع کریں۔ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:''کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ مومنوں کے دل اﷲکے ذکر کے لیے اور جو حق اس نے نازل کیا ہے، اس کے لیے نرم ہوجائیں‘‘(الحدید:16)
ہماری سیاسی جماعتیں اور قیادتیں قوم کی تقسیم در تقسیم کے اس عمل کو ملک تک ہی محدود نہیں رکھتیں بلکہ ضروری سمجھتی ہیں کہ ہر جماعت کی ایک ذیلی شاخ یا تائید وحمایت کا حلقہ امریکہ ، برطانیہ ، یورپ ، مشرق وسطیٰ ، مشرق بعید الغرض بیرونِ ملک بھی ہر جگہ موجود ہو۔ضرورت اس امر کی تھی کہ پاکستانی تارکینِ وطن کسی ایک پلیٹ فارم پر منظم ہوتے تاکہ اُن ممالک کی داخلی سیاست میںان کا ایک حلقۂ اثر پیدا ہو، انہیں اہمیت دی جائے اور وہاں کے ذہن ساز طبقات ،مجالسِ مفکرین اور ارکان کانگریس پر وہ اثر اندازہوں اور پاکستان کے حق میں فضا ہموارکرسکیں، جس طرح بھارت کے بااثر لوگ امریکہ وبرطانیہ میں اپنی قوم وملک کے لیے نسبتاً بہتراور مؤثر انداز میں یہ کردارادا کررہے ہیں ۔ پاکستان کی طرف جب کبھی امریکی حکومت کا تھوڑا بہت جھکا ؤ ہوتاہے، وہ By Choice یا By Optionنہیں بلکہ حالات کے جبرکا نتیجہ ہوتاہے، اس لیے یہ تعلق دیر پا نہیں ہوتا بلکہ ضرورت کی حدتک ہوتا ہے اور ضرورت ختم ہونے پروہ آنکھیں پھیر لیتے ہیں جبکہ ہم اُن کی بے وفائی کے شکوے کرتے رہتے ہیں۔