تحریک ِ طالبان پاکستان کے برقرار یا مُعطّل ترجمان مولانا عبدالعزیز نے ٹیلیویژن پر ارشاد فرمایا: ''بات یہ ہے کہ قرآن وسنت آسمانی قانون ہے، آسمانی قانون کے ہوتے ہوئے اس انگریز کے قانون کی ہمیں اجازت نہیں... انگریز توانگریز، مسلمان قانون نہیں بناسکتا، بلکہ محمدﷺ کو ''شارح‘‘ قرار دیا گیا ہے، قانون صرف اور صرف کائنات کے خالق ومالک اﷲکا چل سکتاہے‘‘۔میں نے براہِ راست یہ پروگرام نہ دیکھا ، نہ سنا ، تاہم اس پر مسلمانوں کے دل مضطرب ہوئے ، ان کے جذبۂ عقیدت کو ٹھیس پہنچی اور سب نے دکھ کا اظہار کیا۔
ایک دین کا درد رکھنے والے اور حُبِّ رسولﷺ سے سرشار صاحب ِنظرمحمد شمیم خاں صاحب نے نیٹ سے مولانا عبدالعزیز کے مندرجہ بالا کلمات نقل کرکے مجھے ارسال کئے اور خواہش ظاہر کی کہ میں اس پر شریعت کی روشنی میں اپنا موقف بیان کروں۔ شریعت کی من پسند تعبیروتشریح اور اس پر عمل درآمد کے دل دہلا دینے والے مناظر تو مختلف ویب سائٹس اور نیٹ پرعرصے سے موجود ہیں ، مگر اب بات اس سے بھی آگے بڑھ کر مقامِ رسالت، شانِ رسالت اور منصبِ رسالت مآبﷺ کو چیلنج کرنے پر آگئی ہے۔ لہٰذا میں نے مناسب سمجھا کہ عام مسلمانوں کی تشفِّی کے لئے چند کلمات تحریر کروں۔
سچ بات یہ ہے کہ مولانا کا منصبِ رسالتﷺ کے بارے میں یہ بیان نہایت بے باکی اور رنج دہ جسارت پر مبنی ہے، ان کا یہ تبصرہ سن کر دل رنجیدہ ہوا اور خدشہ لاحق ہوا کہ اگر دین کے معاملے میں بے باکی کی روش اسی طرح عام ہوئی اور اس پر کوئی روک ٹوک عائد نہ کی گئی، تو ملک کا امن وامان تو پہلے ہی غارت ہے، دین وایمان بھی ایسے لوگوں کی دست برد سے محفوظ نہیں رہیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس امر میں غلام احمد پرویز یا منکرینِ حدیث کے سوا کبھی کسی کاکوئی اختلاف نہیں رہا کہ رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف شارعِ مجاز (Authorized Lawgiver)، مُقَنِّن(Legislator)اور واجب الاتباع اور واجب الاطاعت ہیں۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے لئے اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی کی التجا کی اور عرض کیا: ''(اے پرورد گار!) ہمارے لئے دنیا اور آخرت کی بھلائی لکھ دے (یعنی مقدر فرمادے) ، بے شک ہم نے تیری طرف رجوع کیا، (تو اللہ عزّ وجلّ نے) فرمایا: میں جسے چاہوں گا ، اسے میرا عذاب پہنچے گا اور میری رحمت ہر چیز پر محیط ہے، (تم نے جو کچھ مانگا ہے)میں عنقریب یہ (اعزاز) اُن (خوش نصیبوں) کے لئے لکھ دوں گا، جو (ہمیشہ) تقویٰ اختیار کرتے ہیں، (باقاعدگی سے) زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں ، (درحقیقت یہ ) وہ لوگ ہیں جو اُس رسول نبی امی کی (ہمیشہ) پیروی کریں گے ، جس کووہ (پہلے سے)اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، (جن کا منصب یہ ہے کہ) وہ انہیں نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے روکے گااورجو ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دے گا اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دے گا اورجو اُن کے بوجھ اتارے گا اور ان کے گلوںمیں پڑے ہوئے (جاہلیت کے) طوق بھی اتارے گا، سو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی تعظیم کی اوراُن کی نصرت وحمایت کی اور اس نورِہدایت (قرآن) کی پیروی کی جواُس کے ساتھ نازل کیا گیاہے، (درحقیقت) وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘ (اعراف:156-157)۔
اﷲتعالیٰ نے اس آیتِ مبارکہ میں اپنے رسولِ مکرم سیدنا محمد رسول اللہﷺ کو اٰمروناہی اور مُحلِّل (حلال قرار دینے والا) اور مُحرِّم (حرام قرار دینے والا) فرمایا ہے اور قانون ساز(Legislator) وہی توہوتاہے ،جو کسی چیز کو حلال قرار دینے یا حرام وممنوع (Unlawful & Prohibited) قرار دینے کاایسا اختیار رکھتا ہو، جسے کوئی چیلنج نہ کرسکے اور کسی کے پاس انکار کی گنجائش نہ ہوبس قرآن کی رو سے یہی منصبِ رسالت اور شانِ رسالت ہے۔ اِس کے بعد کسی کا یہ کہنا کہ: ''بلکہ محمدﷺ کو بھی شارح قرار دیا گیا ہے، آپ بھی قانون نہیں بناسکتے‘‘، دراصل یہ رسول اللہﷺ کو اﷲعزّوجلّ کی جانب سے عطا کی ہوئی قانون سازی کی اس مطلق اتھارٹی کو چیلنج کرنا ہے یا اس کا صریح انکار ہے اور کسی مومنِ صادق سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ مولانا عبدالعزیز نے یہ کلمات شعوری طور پر کہے ہیں یا سبقتِ لسانی سے ان کی زبان سے ادا ہوئے، بہر حال انہیں اسی فورم پر ان سے رجوع کرنا چاہیے اور اﷲتعالیٰ سے توبہ کرنی چاہیے، کیونکہ اﷲ عزّوجلّ نے اپنے رسولِ مکرمﷺ کوقانون بنانے کا یہ اختیار مطلقاً عطا کیا ہے،اس میں کوئی قیدیا شرط نہیںہے ، نہ ہی کوئی Ifیا Butیا Proviso ہے۔
اسی طرح اﷲتعالیٰ نے اپنی اطاعت کی طرح اپنے رسولِ مکرمﷺ کی اطاعت کو بھی غیرمشروط اور لازم قرار دیتے ہوئے فرمایا: ''اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اس رسول کی اور ان کی جو تم میں صاحبانِ امر ہیں ، پس اگر تمہارا اُن صاحبانِ امر سے کسی معاملے کے (حق یا باطل ہونے کے ) بارے میں تنازع پیدا ہوجائے ، تو (حتمی اور قطعی فیصلے کے لئے ) اس معاملے کو اﷲ اوراس کے رسول کی طرف لوٹا دو، یہی (شِعار) بہتر اور انجام کے اعتبار سے احسن ہے‘‘ (النساء:59)۔ اس آیتِ مبارَکہ میں بھی اﷲ عزّوجلّ نے نبیِ کریمﷺ کی اطاعت کو غیرمشروط طور پر لازم قرار دیا، جبکہ کسی بھی بڑے سے بڑے صاحبِ اختیار یا حاکمِ اعلیٰ یا مُقَنِّنہ (یعنی پارلیمنٹ) کی اطاعت کو غیر مشروط طور پر لازم قرار نہیں دیا، اسے چیلنج کیا جاسکتاہے اورقرآن وسنت کے خلاف ہونے کی صورت میں رد کیا جاسکتاہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا: ''اور جس نے رسول کی اطاعت کی، اُس نے درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت کی اور جس نے (اطاعتِ رسول سے) روگردانی کی ، تو (اے رسولِ مکرم!) ہم نے آپ کو اس پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا‘‘ (النساء:80)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کاہمارے پاس معلوم پیمانہ صرف اطاعتِ رسولﷺ ہی ہے۔ قرآن مجیدمیں اﷲ عزّوجلّ نے یہ بھی فرمایا: ''اور (اے مومنو!) جو حکم تمہیں رسول دیں اسے لے لو اور جس چیز سے رسول روکیں ،اُس سے (کسی تردُّد کے بغیر) رک جاؤ‘‘ (الحشر:07)۔ اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ دو ٹوک ضابطہ اس لئے مقرر فرمایا کہ نبی معصوم ہیں ، اُن کا نطق بھی معصوم ہے اور اُن سے خطا کاصادر ہوناناممکن ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''اور وہ (رسول) اپنی خواہشِ نفس سے کوئی بات نہیں کہتے ، وہ وہی کہتے ہیں ، جس کا انہیں وحی کے ذریعے حکم ہوتا ہے‘‘(النجم:3-4)۔
رسول اللہﷺ کو یقینا اس بات کا علم تھا کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ لوگ قرآن مجید کی آڑ میں شانِ رسالت اور مقامِ رسالت کا بالواسطہ انکار کرتے ہوئے شارعِ مجاز اور بااختیار مُقَنِّن کی حیثیت سے آپ کے منصب کا انکار کریں گے اور یہ انکار''حاکمیّتِ الٰہی‘‘ کے پرکشش اور خوبصورت عنوان سے ہوگا ، اسی لئے آپﷺ نے اس کی پیش بندی کرتے ہوئے فرمایا: ''سنو! مجھے قرآن عطا کیا گیا ہے اور اس کی مثل (واجب الاطاعت قانون میری سنت کی صورت میں) اس کے ساتھ ہی عطا کیا گیا ہے، سنو! ممکن ہے کہ ایک شخص خوب سیر شدہ (عیش وعشرت میں مست) اپنی مسند پر ٹیک لگائے ہوئے ہوگا اور کہے گا : بس اس قرآن کو لازم پکڑو ، سو جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ، اسے حلال مانو اور جو کچھ تم اس میں حرام پاؤ اسے حرام مانو،(نہیں حلال وحرام قرآن تک محدود نہیں ہے)، تمہارے لئے پالتو گدھے کا گوشت اور کچلیوں(سامنے کے دانتوں) سے شکار کرنے والے درندے حلال نہیں ہیں‘‘ (سنن ابی داؤد:4594)۔ یعنی ان کی حرمت کا بیان قرآن میں نہیں ہے، مگر میں قرآن میں دئیے ہوئے تشریعی اختیار سے اس نوع کے تمام جانوروں کو حرام قرار دیتا ہوں،ان میں شیر،چیتا، بھیڑیا، کتا ، بلی اور اس قبیل کے تمام جانور شامل ہیں ۔ اسی طرح عرباض بن ساریہ بیان کرتے ہیں: ''(ایک دن) رسول اللہﷺ (خطبہ دینے کے لئے) کھڑے ہوئے اور فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنی مسند پر براجمان ہوکر یہ گمان کرے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی چیز حرام کی ہے،اس کا بیان قرآن میں ہے، (نہیں ایسا ہرگز نہیں)، سنو! بخدا میں نے حکم جاری کئے ہیں اور نصیحت کی ہے اور بعض امور سے منع کیا ہے، تواُن کی حرمت قرآن کی حرمت کی طرح قطعی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے‘‘(سنن ابی داؤد:4599)۔ حضرت مالک بن انس بیان کرتے ہیں : رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دو(اہم ) چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اور وہ ہیں :کتاب اللہ اور سنتِ رسول ، جب تک تم ان دونوں کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ وابستہ رہو گے ، کبھی گمراہ نہ ہوگے‘‘ (رواہ مؤطا امام مالک)۔