حالیہ مذاکرات کے تناظر میں تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان شاہداللہ شاہد اور لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز صاحب کا نفاذِ شریعت کے حوالے سے بیان سامنے آیا تو ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی رونقوں کو چار چاند لگ گئے۔ اینکر پرسن اور ماہرینِ آئین و قانون کیل کانٹے سے لیس ہو کر ٹیلی ویژن اسکرین پر نمودار ہوئے اور مباحثے اور مکالمے کا بازار سج گیا۔ اس سے بظاہر یہ تأثر پیدا ہوا کہ آئین و شریعت کا یکجا ہونا محال ہے، یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں، جہاں آئین ہے وہاں شریعت کا داخلہ بند اور جہاں شریعت ہو گی، وہاں آئین کی گنجائش نہیں۔ ہماری رائے میں یہ سب لفظی بحثیں ہیں اور بزم کی رونق سجانے کے لئے میڈیا کی ضرورت ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور نفاذِ شریعت میں کوئی تضاد نہیں ہے، جو کچھ طالبانِ پاکستان اب تک کرتے چلے آئے ہیں، اس کا شرعی جواز ہماری فہم سے بالاتر ہے بلکہ بے قصور انسانوں کے جان و مال اور آبرو کی حرمت کو پامال کرنا شریعت کی رُو سے حرامِ قطعی ہے اور اس کے لئے کوئی بھی جواز (Justification) قابلِ قبول نہیں ہے۔ دوسری جانب جو حضرات دستورِ پاکستان کی تقدیس (Sanctity) کی باتیں کر رہے ہیں، وہ بتائیں کہ اس دستور پر لفظاً و معناً (In Letter & Spirit) کب عمل ہوا؟ دستور میں ریاست کا نام ''اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے، دستور کی رُو سے ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور دستور کے آرٹیکل 2 (الف) کی رو سے قراردادِ مقاصد ملک کا جوہری اور اساسی قانون (Substantive Law) ہے اور اس کی دفعات مؤثر و نافذالعمل ہیں۔ قراردادِ مقاصد کی دفعہ 1 میں ہے: ''کائنات میں اقتدارِ اعلیٰ کا مالک اﷲ تعالیٰ ہے‘‘۔ دفعہ 2 میں ہے: ''ملک کا قانون قرآن و سنت پر مبنی ہو گا اور کوئی بھی قانون یا انتظامی حکمنامہ، جو قرآن و سنت کے منافی ہو، نافذالعمل نہیں ہو گا‘‘۔ دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 31 میں ہے: ''پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآنِ پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں‘‘۔ دستور پاکستان کا آرٹیکل نمبر:227 ریاست کو اس امر کا پابند بناتا ہے کہ: ''تمام موجودہ قوانین کو قرآنِ پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، جن کا اس حصے میں بطورِ اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا، جو مذکورہ احکام کے منافی ہو‘‘۔ دستور کے آرٹیکل 228 تا 231میں اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل، اس کے ارکان کی اہلیت اور تمام طریقہ کار (Rules of Business) کا ذکر ہے۔ اس کی رُو سے حکومت پر لازم ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی حتمی سفارشات کو پارلیمنٹ میں بحث کے لئے پیش کرے اور پھر اس کے مطابق قانون سازی کی جائے، لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا۔
پس ہمارے ہاں آئین کی تقدیس کا نعرہ تو بہت لگایا جاتا ہے لیکن لفظاً و معناً آئین کی روح پر عمل نہیں ہوتا۔ پھر آئین میں ایک طرف قرآن و سنت کی بالادستی کا اقرارومیثاق ہے اور اسی کے ساتھ ایسی دفعات بھی موجود ہیں جو قرآن و سنت کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتیں، مثلاً: صدر کا اپنے عہدِ صدارت میں عدالت کے سامنے جوابدہی سے استثناء (Immunity)، جبکہ قرآن و سنت کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف حالتِ جنگ بلکہ عین میدانِ جنگ میں اپنے آپ کو قصاص کے لئے پیش فرمایا، حالانکہ آپ پر قصاص واجب نہیں تھا، کیونکہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے: ''نبی مومنوں کی جانوں سے بھی زیادہ ان کے قریب ہیں‘ (الاحزاب:6)‘‘۔ ولایت کے ایک معنی تصرف و اختیار کے بھی ہیں اور اسی معنی کی مناسبت سے بعض مترجمین نے اس آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے: ''نبی ایمان والوں کی جانوں سے بھی زیادہ ان کے مالک ہیں‘‘۔ اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو مقدمے کے فریقِ مخالف کے ساتھ مساوی حیثیت میں عدالت میں پیش کیا۔ ایک حدیثِ پاک میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ''ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے (اپنے قرض کی واپسی کا) تقاضا کیا اور (مطالبے میں) سختی کی، اس پر صحابۂ کرام نے (اس کو ڈانٹنے یا مارنے کا) ارادہ کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو کیونکہ جس کا کسی پر حق ہو اس کے لئے بات کرنے (یعنی سختی کے ساتھ مطالبہ کرنے) کی گنجائش ہوتی ہے (اور فرمایا) اسے اونٹ خرید کر دے دو۔ صحابہ نے عرض کیا: ہمارے پاس اس سے زیادہ عمر کا اونٹ موجود ہے، آپﷺ نے فرمایا: وہی اونٹ خرید کر اسے دے دو کیونکہ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرض اچھی طرح سے ادا کرے‘‘۔ (صحیح بخاری:2390)
1993ء میں جب اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو اُس عہد کے صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کیا تو معزول یا برطرف وزیر اعظم نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنی حکومت کی بحالی کے لئے آئینی پٹیشن (استدعا) دائر کی، اسی دوران ایک اور شخص نے دستور کے آرٹیکل نمبر:2A کا حوالہ دے کر اس دفعہ کی رو سے صدر کی نااہلی کی پٹیشن دائر کر دی۔ اس کے جواب میں اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ر) ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے فرمایا کہ دستور کی تمام دفعات اپنی اپنی جگہ مستقل بالذات ہیں اور کوئی ایک دفعہ دوسری دفعہ پر حاکم نہیں، یعنی ایک دفعہ دوسری کو Over Rule نہیں کر سکتی اور اس بنیاد پر اُس آئینی پٹیشن کو مسترد کر دیا۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ جب پارلیمنٹ، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی سوچ کا انداز (Approach) یہ ہو تو دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی کی دفعہ محض آرائشی اور نمائشی بن کر رہ جاتی ہے اور یہ عملاً مؤثر نہیں رہتی اور اس اندازِ فکر سے دستور کی روح مجروح بلکہ مفلوج ہو جاتی ہے۔
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ دستور کے اندر تضادات (Contradictions) اور اِبہامات (Ambiguities) کو سنجیدگی کے ساتھ دور کیا جائے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ 1973ء کے دستور کی تیاری میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء کا اہم کردار ہے اور اُن کے اس پر تصدیقی، تائیدی اور توثیقی دستخط ثبت ہیں۔ لیکن اُن کی توثیق دستور کے تحریری میثاق کے لئے حجت ہے، بعد میں دستور سے جو انحراف یا اِغماض برتا گیا، اس کی تائید و حمایت ان علمائِ کرام نے کبھی نہیں کی۔
1973ء کا اصل دستور اگر آج مِن و عَن(As It Is) نافذالعمل ہوتا، تو قومی اسمبلی میں صرف 217 براہِ راست منتخب نشستیں ہوتیں، نہ غیرمسلموں کی مخصوص نشستیں ہوتیں اور نہ ہی خواتین کی، یہ سب (Indemnity Bills) کے ذریعے دستور میں کی گئی اضافی ترمیمات اور فوجی آمروں کے غیرآئینی فیصلوں کو آئینی جواز عطا کرنے (Validation)کے لئے پارلیمنٹ کی جانب سے بالترتیب آٹھویں اور سترہویں دستوری ترامیم کا ثمرہ ہے۔ بحیثیت قوم ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم تضادات سے نکل نہیں پا رہے اور جب کوئی افتاد آتی ہے تو ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں۔
آج ایسے دانشوروں، ماہرینِ آئین و قانون اور اہلِ علم کی کمی نہیں ہے، جو وقتاً فوقتاً از سر نو یہ بحثیں چھیڑ دیتے ہیں کہ قائد اعظم نے تو سیکولر ریاست کا خواب دیکھا تھا۔ اور کبھی یہ راگ الاپنا شروع کر دیں گے کہ کون سا اسلام، کس کا اسلام؟ اس کا جواب تو اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات میں موجود ہے کہ پبلک لایعنی قانونِ عامّہ کے بارے میں مسالک کے درمیان کوئی بڑا اور جوہری تفاوت نہیں ہے۔ اور احوالِ شخصیہ (Personal Law) عبادت، نکاح، طلاق، وقف اور وراثت وغیرہ میں ریاست کو کسی زحمت اور تردُّد میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بس یہ سب شریعت سے گریز کے حیلے بہانے اور چونچلے ہیں، جو ہر دور میں کسی مولانا عبدالعزیز یا طالبان کے لئے ریاستی معاملات میں نفوذ کی گنجائش پیدا کرتے رہتے ہیں۔