جناب افتخارمحمد چودھری چیف جسٹس آف پاکستان اور اعلیٰ عدلیہ کے مُعَطَّل جج صاحبان کی ایک پرزور تحریک کے نتیجے میں بحالی کے بعد پاکستان نے 2009ء سے 2013ء تک عدالتی فَعّالیت کا مثالی دور دیکھا۔ وزرائے اعظم اورسول وملٹری افسرانِ اعلیٰ عدالتوں میں طلب کئے گئے ، سب پر ایک لرزہ طاری رہتا تھا۔ محترم چیف جسٹس اور عدالتِ عظمیٰ کے باوقار جج صاحبان کے تبصرے (Observations)الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا کی زینت بنتے رہے، شاید عدالتِ عُظمٰی کی جانب سے Suo Motoایکشن کایہ ایک عالمی ریکارڈ ہو۔ حکومت کے انتظامی حکمنامے مُعطّل ہوتے رہے، ایک وزیراعظم دو منٹ کی سزا کے بعد پانچ سال کے لئے نااہل قرار پائے۔ الغرض ریاست کے سارے ستون اس ایک ستون کے سامنے لرزہ براندام نظر آئے، اس حوالے سے میڈیا پر بھی رونقیں لگی رہیں، یقینا اس کے کچھ مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے۔ حکومت کی بعض مالی بے اعتدالیوں پر گرفت ہوئی،بے جانوازشات اور بیوروکریسی کی میرٹ کے برعکس ترقیاں غیر مؤثر قرار پائیں۔
لیکن کیااس عدالتی فعّالیت سے بحیثیت مجموعی پاکستان میں انصاف سستا ہوگیا، اس کی رفتار میں غیرمعمولی تیزی آگئی، عام آدمی نے سکھ کا سانس لیا،مظلوم کو انصاف اُس کی دہلیز پر ملنے لگا، زیریں اور متوسّط درجے کی عدلیہ سے رشوت کا خاتمہ ہوگیا، فوری فیصلے ہونے لگے،جج بے خوف وخطر فیصلے کرنے لگے، گواہ ہر قسم کے خطرات اور انتقام کے خدشات سے بے نیاز ہو کر عدالتوں میں پیش ہوکر گواہیاں دینے لگے، تفتیشی ادارے مثالی بن گئے، انتہائی خطرناک اور بااثر دہشت گرد وں کوعدالتوں میں پیش کیا جانے لگا، عدالتوں میں کئی عَشروں سے زیر التوا مقدمات کی فائلوں سے گرد جھاڑ کر سُرعت کے ساتھ فیصلے ہونے لگے ، دنیا پاکستان میں بے لاگ اور شفاف فیصلوں کو دیکھ عَش عَش کراٹھی، بے کس اور بے بس دادرسی کے طلبگار وںکو دھڑا دھڑ انصاف ملنے لگا، وہ منصفوں کی درازیِٔ عمر اور بلندیٔ درجات اور حکمرانوں کی عدل گستری کے باعث اُن کے طولِ اقتدار اور دوامِ اقتدار کی دعائیں مانگنے لگے۔ قتل وغارت ، دہشت وفساد، ظلم وعُدوان اور لوٹ مار قصۂ پارینہ بن گئے، ملک کرپشن سے پاک ہوگیا اور نظامِ ریاست وحکومت کاہرکل پرزہ ٹھیک ٹھیک کام کرنے لگ گیا؟، سچ اور حق یہ ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے، عملی میدان میں کوئی بڑی اور جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوئی، حبیب جالب نے کہا تھا ؎
پھر گئے دن فقط وزیروں کے
ہیں وہی رات دن فقیروں کے
ایساکیوں ہے؟۔ حق بات یہ ہے کہ ہمارا نظامِ عدل از کاررفتہ، انتہائی بے فیض، بودا اور ناکارہ ہوچکا ہے۔ اس میں مظلوموں اور انصاف کے طلبگاروں کو فیض رسانی کی صلاحیت نہیں رہی، کیفیت کچھ یوں ہے کہ ؎
تن ہمہ داغ داغ شد
پنبہ کجا کجا نہم
یعنی جسد ملی کے زخموں پرپھایا کہاں کہاں رکھوں، مرہم کہاں کہاں لگاؤں، پورا بدن تو پارہ پارہ ہوچکا ہے، بلکہ ناکارہ ہوچکا ہے۔ جناب والا! اس نظام کی مکمل تشکیل نو اور جرّاحی کی شدید ضرورت ہے۔ لیکن اس کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آیا۔ اعلیٰ عدالتوں کے عزت مآب ، باوقار اور فاضل جج صاحبان برا نہ منائیں توحقیقت یہ ہے کہ یہ نظام بوسیدہ ہوچکا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
سچ کہہ دوں اے برہمن! گر توبرانہ مانے
تیرے صنم کدے کے بت ہوگئے پرانے
ایک طرف عام آدمی کے لئے انصاف عنقا ہے اور دوسری جانب جب ہم دستور کے آرٹیکل 184کے تحت بنیادی حقوق کی تقدیس اور حرمت کی طویل اور تھکا دینے والی اور بال کی کھال اتارنے والی فاضل وکلا کی طویل بحثیں اخبارات میں پڑھتے ہیں،تو عام آدمی کا خون کھولنے لگتاہے کہ کیا بنیادی حقوق کے حق دار صرف وہ بااثر طبقات ہیں،جو فاضل وقابل وُکلا کی لاکھوں روپے کی فیسیں اداکرنے کی سکت رکھتے ہیں،غریب ونادار کا کوئی بنیادی حق نہیں ہوتا۔
مقدمے کے حقائق وواقعات سے قطع نظر خصوصی عدالت کئی مہینوں کی جُہدِ مسلسل اور محنت ِشاقَّہ کے باوجود جنرل(ر) پرویز مشرف کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرکے فردِ جرم عائد کرنے کے قابل نہیں ہوسکی، سردست یہ سوال غیر متعلق ہے کہ وہ ملزَم ہی رہیں گے، باعزت وباوقار بری ہوجائیں گے یا مجرم قرار پائیں گے۔ صرف اس جانب توجہ دلانا ہے کہ زیردست اور بالا دست کے لئے انصاف کے پیمانے الگ الگ ہیں ۔ اس کے باوجود کہا جارہا ہے کہ انصاف ہونا کافی نہیں ہے، لازم ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے اور یہ کہ یہ تو Selective Justice یعنی مَن پسند انصاف ہے۔
1973ء میں پاکستان کا متفقہ دستوربنا تو اس میں آرٹیکل نمبر6(2)موجود تھا اور چوہدری ظہور الٰہی مرحوم اس میں شریک تھے، اس کے بعدکی تقریباً 20دستوری ترامیم میں چوہدری شجاعت حسین شریک رہے، کسی کو نہ سوجھی کہ High Treasonیا ریاست سے غداری کا لفظ سابق فوجی سربراہ کے مقامِ عالی کے شایانِ شان نہیں ہے، اسے آئین شکنی یا کوئی اور نام دیدیا جائے ، حضور یہ بھی کرکے دیکھ لیں ، کچھ نہیں ہوگا، کوئی عام سیاستدان تو آکر آئین نہیں توڑے گا، توپ وتفنگ سے لیس کوئی فوجی سربراہ ہی یہ کام کرسکتا ہے ، تو کیوں نہ آئین میں ایک اور ترمیم کرکے اسے ایک اِعزازقرار دیاجائے۔ کہا جاتاہے کہ بنچ اور با ر کا اشتراک شفّاف اور مثالی عدل کا ضامن ہے، پس دعا کریں کہ یہ بنچ اور بار سلامت رہیں ، عدل کم یاب ، نایاب یا ہمیشہ کے لئے مفقود الخبرخواب (Missing Dream)بن جائے، توبھی حرج کی بات نہیں ہے۔
اب ذَرا چشم تصور میں سوچئے کہ بفرضِ محال طالبان اسلام آباد میں آکر بیٹھ جاتے ہیں اور نفاذِشریعت کا اعلان کرتے ہیں ۔ آبپارہ کے قریب کسی پارک میں کھلی عدالت لگتی ہے، پانچ دس سرکشوں کی گردنیں اڑائی جاتی ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ آؤ اپنے اپنے مقدمات لے کر آؤ، گھنٹوں اور دنوں میں فیصلے ہوں گے ۔ تو ذرا بتائیے! کہ ستم رسیدہ مفلوک الحال اور پسے ہوئے لوگ لاکھوں روپے فیس لینے والے وکلا کا بستہ اٹھائے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں جائیں گے یااِن کھلی عدالتوں کا رُخ کریں گے۔ ہوسکتا ہے سوفیصد انصاف نہ ہوپائے اور یقینا نہیں ہوپائے گا، کیونکہ کوئی بھی انسان خطا سے پاک نہیں ہے ۔ لیکن دسیوں سالوں کی اَذِیّت وانتظار، ذِلّت اور رُسوائی اور پیسے کی بربادی سے تو نجات مل جائے گی ۔ آخر قیامت کے دن عرصۂ محشر میں بھٹکتے پھرتے پریشاں حال لوگ، کسی شفیع کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے کہ عدالت تو لگے، جو ہونا ہے ہوجائے ، اِس اذیّت سے تو نجات ملے ۔ کیا ہمارے اہل ِاقتدار اور نظام انصاف وقانون کے محافظ پاکستان کی سرزمین پر کسی ایسی قیامت برپا ہونے کے انتظار میں ہیں ، جب ندامت کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
پس آفتاب نصف النّہار کی طرح روشن اورواضح بات یہ ہے کہ ہمارا ضابطۂ فوجداری اور ضابطۂ دیوانی شفاف اور جلد انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، انہیں ہم نے اپنے زمینی حقائق، دَرپیش صورتِ حال ،عصری تقاضوں اور مظلومین کی فلاح کے لئے حقیقت پسندانہ سانچے میں ڈھالا ہی نہیں ہے،نہ ہی یہ سوچا اور دیکھا کہ ہمارے عوام کو انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت ان ضوابط میں ہے یانہیں۔ ہمارے عوام میں اس کا مالی بوجھ اٹھانے کی سکت ہے بھی یانہیں اور ہمارے تفتیشی اداروں کو جدید وسائل واسباب دستیاب ہیں یا نہیں؟۔خداراسوچئے ! شاعرنے کہاتھا ؎
عقل ہووے تے سوچاں ای سوچاں
عقل نہ ہووے تے موجاں ای موجاں
اورعلامہ اقبال نے کہاتھا ع
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
یہ تعزیر فطرت ہی تو ہے کہ ریاست اپنے منحرفین اورباغیوں سے کہہ رہی ہے کہ ہماری کوئی شرط نہیں ،آیئے ہم سے مذاکرات کیجئے!، اور وہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے اپنی نیک نیتی اوراَخلاص کے ثبوت کے طورپر ہماری شرائط مانئے!