لگتا ہے مولانا محمد خان شیرانی کا ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے اینکر پرسنز اور اخباری کالم نگاروں سے کوئی روحانی رشتہ یا فکری رابطہ ضرور ہے۔ جب بھی ہمارے میڈیا کو موضوعات کی قلّت کا سامنا ہوتاہے، ٹیلی ویژن اسکرین کی رونقیں ماند پڑنے لگتی ہیں، کالم کی کاٹ دار چھری کی آب وتاب ماند پڑنے لگتی ہے، این جی اوز کی بیگمات اور ماہرین کی طلب میں کمی آتی ہے، تو وہ اُن کی مدد کو آتے ہیں اور قرارداد یا سفارش چپکے سے میڈیا کے حوالے کردیتے ہیں اور پھر چاروں طرف رونقیں لگ جاتی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹیلی ویژن اسکرین یا کالموں کی بہار سے کوئی انقلاب برپا ہونے کو ہے۔چنانچہ مولانا اور میڈیا کی یہ نظریاتی رفاقت جاری وساری ہے اور ان کی کونسل کی چیئرمین شپ کے دوام کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے بڑھ کر دعا گواور کون ہوگا؟۔پس لازم ہے کہ مولانا کی چیئرمین شپ جاری رہے تاکہ گلشن کا کاروبار رَوَاں دَواں رہے۔
اس عرصے میں میڈیا کی مدد کے لیے مولانا نے تھوڑے تھوڑے وقفے سے دو سفارشات جاری کیں : ایک چیئرمین شپ کے پہلے دور کے اختتام پر ڈی این اے ٹیسٹ کی قطعی شرعی شہادت نہ ہونے کے حوالے سے اور دوسری موجودہ دور کے آغاز پر اس حوالے سے کہ دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کی تحریری اجازت ضروری نہیں ہے ۔ ان دونوں سفارشات کا بعض لوگوں کو بڑا فائدہ ہوا ، کچھ حضرات کو اپنی فنی مہارت کے اظہار اور بعض این جی اوز کی بیگمات کو اپنی روزی حلال کرنے کا موقع ملا ۔
میڈیا کی آتش بداماں بحثیں سن کر ایسا لگا کہ پاکستان میں ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے روز درجنوں کی تعداد میں خواتین کی عصمت دری کرنے والوں کو ٹھکانے لگایاجارہا تھا ، مولانا نے ظلم کی انتہا کردی ہے کہ یہ سارا سلسلہ یکدم موقوف کردیا ۔ اسی طرح ایسا محسوس ہوا کہ ہمارے جاگیردار، پیر، میر، وڈیرے، سیاست دان اور سرمایہ دار دوسری شادی کی اجازت لینے اپنی پہلی بیگمات کے سامنے قطاریں بنائے کھڑے تھے ، مگر مولانا نے اچانک آکر اس Queueکو توڑ دیا۔ چنانچہ ان حضرات کی پہلی بیویاں یکدم بے توقیر ہوگئیں اور اب ان کی کوئی قدرومنزلت باقی نہ رہی۔
ان سلاطینِ میڈیا سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات پر مشتمل بڑے بڑے حجم (Volume)کی اتنی کتابیں مطبوعہ صورت میں موجود ہیں کہ الماری بھر جائے ، مگر کب کسی پارلیمنٹ نے ان پر غور کیا ہے یا بحث کی ہے یا قانون سازی کی ہے ۔ توان ہزارہا صفحات میں دو صفحات کا اور اضافہ ہوگیا تو کیا فرق پڑا ۔ ہاں! یہ فرق ضرور پڑا ہے کہ اینکر پرسنز کو بزم کی رونق دوبالا کرنے کے لئے ایک نیا موضوع ہاتھ آگیا اور بالواسطہ طور پر مذہب اور اہلِ مذہب کو بھی کوسنے کا موقع مل گیا۔ مولانا کی ایک خوبی یہ ہے کہ فلیتا لگا کر خود غائب ہوجاتے ہیں ۔ مرکزیہ مجلسِ اقبال لاہور میں ایک بار غالباً ضمیر جعفری صاحب نے یہ شعر پڑھاتھا ؎
بپا ہم سال میں اک مجلسِ اقبال کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں، وہ قوال کرتے ہیں
ہمارے بعض فاضل متجدّدین بھی حسبِ توفیق اہلِ مذہب کو کوستے رہتے ہیں ،ان کا خیال یہ ہے کہ اس عہد کے علماء کا فہمِ دین ناقص ہے، وہ فکری جمود کا شکار ہیں، اپنے عہد کے تقاضوں سے نابَلد اور مذہب کے نادان دوست ہیں۔ غلام احمد پرویز صاحب بہت پہلے یہ سوچ عطاکر گئے ہیںکہ قانون الٰہی کا ماخذ صرف کتاب اللہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کی حیثیت مرکزِ ملت یا سربراہِ ریاست کی ہے۔ پس اپنے عہدِ مبارَک میں آپ نے اپنے قول وفعل کے ذریعے قرآن مجیدکی جو تعبیرکی ،یہ صرف اس عہد کے لئے تھی،اسی طر ح ہر عہد کا سربراہِ مملکت جو تعبیر کرے گا،اس عہد کے لئے وہی حجت ہوگی۔
تعدّدِ اَزدَواج کی گنجائش عدل کی کڑی شرط کے ساتھ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ یہ کسی معاشی، سماجی ، طبی اور فطری ضرورت کے تحت اِباحت کے درجے میں ہے،یہ فرض ، واجب یاسننِ ہُدیٰ کے درجے میں نہیں ہے ۔ انسانی اَحوال اور مختلف زمانوں کے اعتبار سے سماجی تقاضے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اس پر طنز اور طعن کے تیر وہی چلارہے ہیں جو اس میں مبتلا ہیں۔ کتنے جاگیر دار ، وڈیرے اور سرمایہ دار ہیں، جو اس سے بچے ہوئے ہیں اور یہی حال ماڈرن بیگمات کاہے کہ اپنا گھر تو برباد کرچکی ہوتی ہیں اورسادہ لوح لوگوں کے گھروں کا سکون برباد کرنا چاہتی ہیں۔ ایک سابق وزیراعظم اس ملک کے انتہائی ماڈریٹ اور تعلیم یافتہ جاگیر دار اور سیاست دان تھے،کیا اُن کی دو شادیاں نہیں تھیں؟، کوئی بتا سکتاہے کہ اُنہوں نے دوسری شادی کرنے کے لئے پہلی بیوی سے تحریری اجازت لی تھی، یہاں میں ایک سابق گورنر کا نام نہیں لوں گا ، کیونکہ ان کی شادیوں کی صحیح تعداد کا معلوم ہونا دشوار ہے۔ اسمبلیوں اور سینٹ کے معزز اراکین کا تجزیہ کرکے دیکھ لیں ، ایک بہت بڑی تعداد ایک سے زائد بیویاں رکھتی ہے۔کتنے علماء ہیں جنہوں نے ایک سے زائد شادیاں کر رکھی ہوں گی ، تقابل کرکے تجزیہ کرلیجئے، صحیح اعداد وشمار سامنے آجائیں گے۔ اور اگر بالفرض کسی عالم نے دوسری شادی کی بھی ہوتو ہمارے سامنے ایک مثال بھی نہیں کہ اس کی بیوی مہر کا مطالبہ کرنے یا اپنے حقوق کی فریاد کرنے یا حق طلب کرنے کے لئے منظرِ عام پر آئی ہو۔
مغرب میں بلاشبہ قانونی طور پر ایک سے زائد شادیوں پر پابندی ہے، لیکن وہاں حرام کاری اور بدکاری پر نہ کوئی پابندی ہے اور نہ ہی یہ اس معاشرے میں کوئی عیب ہے۔ ہمارے معاشرے میں شور مچانے والاطبقہ وہی ہے، جو حلال پر قدغن لگانا چاہتاہے ، اسے قانونی، سماجی اور اخلاقی عیب قرار دینا چاہتاہے، لیکن فحاشی ، عریانی اور حرام ذرائع اختیار کرنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ تو جہاں نکاح عیب بن جائے اور زناتہذیبی کلچربن جائے، تو وہاں یہ واویلا کرنے اور ہاہا کار مچانے کی کیا ضرورت ہے ؟۔ کیا یہ بات ریکارڈ پر نہیں ہے کہ قومی اسمبلی کی کچھ ماڈرن بیگمات کسی سردار کی دوسری بیوی بنیں ، کیا کوئی ثبوت ہے کہ انہوں نے اپنے ہونے والے شوہرِ نامدار سے کہا ہو کہ پہلی بیوی کا تحریری اجازت نامہ دکھاؤ، کیا ان میڈیا پرسنز اور این جی اوز کی بیگمات نے کبھی ان کو ملامت کیا ؟۔
ڈی این اے ٹیسٹ کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ یہ یکسر ناقابلِ اعتبار ہے اور یہ کہ اس کی بنیاد پر کوئی تعزیر عائد نہیں ہوسکتی، یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اسے قرائن کی شہادت (Circumstantial Evidence)اور معاون شہادت (Supporting Evidence)کے طور پر لیا جاسکتا ہے ۔ کیا ہمیں اپنے ملک میںقانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں کی دیانت اور اَخلاقی معیارات کا علم نہیں ہے؟ کیا مختلف تنازعات میں مقتولین اور مجروحین کی طبی رپورٹ (Medico Legal Report)سوفیصد دیانت پر مبنی ہوتی ہے؟ کیا بیسیوں واقعات میں ایسی رپورٹوں میں ردّوبدل نہیں کیاجاتا؟ ان رپورٹوں کے ذریعے مقدمّے کی ثقاہت کو ناقابلِ اعتبار نہیں بنایا جاتا؟، تو کیا ڈی این اے رپورٹ مرتب کرنے والے آسمان سے نازل ہوں گے؟، کیا ہمیں اپنے معاشرے کے اَخلاقی تَنَزُّل اور روز بروز گرتے ہوئے دیانت وامانت کے معیارات کا علم نہیں ہے؟ کیا ڈی این اے ٹیسٹ کو بلیک میلنگ کے لئے استعمال نہیں کیاجاسکتا؟۔میری ان گزارشات پر کوئی شخص یہ اعتراض وارد کرسکتا ہے کہ عینی شہادت(Eye Witness) بھی جھوٹی ہوسکتی ہے۔ تسلیم ہے ، مگر اسے تو عدالت میں جرح کے ذریعے پرکھا جاسکتا ہے، آپ تو ڈی این اے ٹیسٹ کو الہامی شہادت کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔
لعن طعن کرنے یا کالموں میں کوسنے سے پہلے یہ بھی سوچ لینا چاہئے کہ ہمارے ملک کے زمینی حقائق کیا ہیں، عوام کی غالب اکثریت کے مذہبی عقائد اور نظریات کیا ہیں، کیا یہ متجددّین ان کی ترجمانی کرتے ہیں یا عوام کی غالب اکثریت ناقابلِ اعتبار اور بے وقعت ہے ، صرف ان اہلِ عقل وخرد کے نظریات ہی قابلِ تکریم ہیں، کیا یہ جمہوری سوچ ہے، کیا یہ جمہوری قدریں ہیں ؟ اسی لئے تو میں بارہا کہتاہوں کہ حکومت کا مادہ حکم (Writ)اور حکمت ودانش ہے۔ حکمت ودانش کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کے عوام کی غالب اکثریت کے مذہبی جذبات اور عقائد ونظریات کو بے توقیر نہ سمجھا جائے اور ان کو تضحیک کا نشانہ نہ بنایاجائے۔